تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     22-10-2016

آپ کن ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں ؟

'' ہاں مجھے اس بات پر فخر ہے کہ میرے اور مسلم لیگ نواز خصوصاً اس کے قائد میاں نواز شریف کے نظریات بالکل ایک جیسے ہیں اور اس لحاظ سے مجھے مسلم لیگ نواز کی پالیسیوں کا سب سے بڑا حامی ہونے پر کوئی باک نہیں ہے‘‘ یہ تھے وہ الفاظ جو ڈان کے رپورٹر سیرل المیڈانے27 اپریل 2016ء کو اس وقت اپنے طلبا سے کہے جب پانامہ لیکس کے ایشو پرایک تعلیمی ادارے میں زبردست بحث جاری تھی۔یہ وہی دن تھا جب صبح سے ہی لاہور ڈیفنس کے اس تعلیمی ادارے میں چہل پہل سی نظر آ رہی تھی لیکن حیران کن بات یہ تھی کہ اس سے قبل ایک پروفیسر کے کمرے میں ایسے طلباو طالبات کی فہرستیں مرتب کی جا رہی تھیں جن کے بارے میں ان کے متعلقہ پروفیسرز اور ادارے کی ٹیم کو یقین تھا کہ ان کا تعلق تحریک انصاف یا کسی ایسے گروپ کے ساتھ نہیں جو وزیر اعظم پاکستان کی پالیسیوں سے اختلاف رکھتے ہیں۔۔۔ طلبا میں سے اکثر یہی سمجھ رہے تھے کہ شائد اس دفعہ اس مذاکرے میں شرکت کیلئے وزیر اعظم میاں نواز شریف خود یا ان کے بھائی وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کو خصوصی دعوت کے ذریعے مدعو کیا جا رہا ہے جس کی وجہ سے ایسے طلبا و طالبات کو ہی مدعو کیا جا رہا ہے جو یا تو بہت ہی ترقی پسند ہیں یا جو مسلم لیگ نواز اور اس کی حامی جماعتوں کے گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیںاور ان میں ایسے طلبا کو سب سے پیش پیش رکھا جا رہا تھا جو ملک کے دفاعی اداروں کے نقاد کے طور پر مشہور تھے اور جنہوں نے ماما قدیر اور ڈاکٹر اﷲ نذر بلوچ جیسے علیحدگی پسند کو اپنا ہیرو بنا یا ہوا تھا۔
تعلیمی ادارے کے سہ ماہی مباحثہ میں حکومتی نمائندگی کرنے والے کوئی اور نہیں بلکہ ان ہی کے ایک پروفیسر سیرل المیڈا اور ان کے ساتھ مسلم لیگ نواز کے رکن قومی اسمبلی دانیال عزیز اور ترجمان وزیر اعظم ہائوس مصدق ملک تھے اور یہ سب تیاریاں انہی کی شان میں یہ مجلس سجانے کیلئے کی جا رہی تھیں۔حکومتی اراکین کے مقابلے میں تحریک انصاف کے ولید اقبال اور پی پی پی کے سینئر لیڈر قمر زماں کائرہ کو مدعو کیا گیا تھا اور ان کے ساتھ ٹیکس ایکسپرٹ بھی موجود تھے ۔ تعلیمی ادارے کے طلبا و طالبات کیلئے یہ ایک نا قابل یقین سی بات تھی کیونکہ اس سے پہلے یہاںمیں کبھی بھی ایسا نہیں ہوا تھا کہ ان کے آڈیٹوریم میں ہونے والی کسی بھی مجلس یا مذاکرے میں مدعو کئے جانے والوں کی وابستگیوں کی اس قدر باریک بینی سے چھان بین کی گئی ہو اور شائد یہی وجہ تھی جب انتظامیہ نے دیکھا کہ ہال کی کچھ نشستیں خالی ہیں تو آئی ٹی اور ایڈمن بلاک سے اچھے عہدوں پر کام کرنے والے ملازمین کو دانیال عزیز اور سیرل المیڈا کے بولنے اور قرار داد منظور ہونے پر زور شور سے تالیاں بجانے کے احکامات دیتے ہوئے ہال کی پچھلی نشستوں کو بھرنے کیلئے بلا لیا کیونکہ انتظامیہ جانتی تھی کہ اگر عملے کے پچاس سے زائد یہ لوگ تحریک انصاف کے حامی ہوئے بھی تو وہ اپنی نوکریوں کی وجہ سے وہی کریں گے جو انہیں کہا گیا ہے ۔
اب جو چیز اس کے طلبا کو سب سے زیا دہ پریشان کر رہی تھی وہ ان کے ایک پروفیسر سیرل المیڈا کی تین چار دن سے دیکھی جانے والی عجیب سی پھرتیاں تھیں جن میں المیڈا کی جانب سے تعلیمی ادارے کے پانچ منتخب طلبا کو دن میں کئی بار اپنے آفس میں طلب کرتے ہوئے ان سے کچھ خاص قسم کی ریہرسل کرانا تھا۔جس کے بارے میں اس وقت معلوم ہوا جب ان سے دانیال عزیز اور مصدق ملک سے پانامہ لیکس کے بارے میں ا ن کی پسند کے سوالات کرائے گئے اور ظاہر ہے کہ یہ سوالات اور ان کے جو ابات سیرل المیڈا جیسے ''بے باک صحافی ‘‘کی جانب سے ایک شام پہلے ہی ان تک پہنچا دیئے گئے تھے۔یہ سہ ماہی مذاکرہ27 اپریل کو کرایا گیا جس کا عنوان تھا '' کیا یہ ہائوس سمجھتا ہے کہ وزیر اعظم میاں نواز شریف کو پاناما لیکس پر مستعفی ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے‘‘۔۔ اب یہ تو کسی کو بتانے کی ضرورت نہیں کہ پاناما لیکس کا سکینڈل پاکستانی میڈیا کے علاوہ دنیا بھر کے میڈیا کے سامنے انہی دنوں میں ہی سامنے لایا گیا تھا۔دنوں کے اس ہیر پھیر یا فرق پر وہی لوگ غور کر سکتے ہیں جنہیں خدا نے شعور کی دولت سے نواز رکھا ہے اور ان کیلئے الارمنگ صورت حال یہ ہے کہ اس تعلیمی ادارے کو یہ خدمات انجام دینے کے نا قابل فراموش قسم کے فرائض کس نے سونپے تھے؟۔
اس وقت میرے پاس ستائیس اپریل کو مذکورہ عنوان سے ہونے والے اس مباحثے کی ریکارڈنگ بھی مو جود ہے اور اس میں سیرل المیڈا کی باڈی لینگویج کو غور سے ملاحظہ کریں تو صاف نظر آئے گا کہ تعلیمی ادارے میں بٹھائے گئے حکومتی بنچوں پر بٹھائے جانے والوں میں صرف دانیال عزیز اور مصدق ملک ہی نہیں بلکہ سیرل المیڈا بھی بیٹھے ہیں اور ان کے پیچھے سفید بورڈ پر حکومتی بنچ کی نمائندگی کرنے والوں میں ان تینوں کے نام بھی لکھے ہوئے دکھائی دے رہے تھے، کسی بھی اچھے صحافی کیلئے حکومت اور اس کے عام سے اہل کاروں کیلئے اس قسم کی چاپلوسیاں منا سب نہیں لگتیں اور خاص طور پر کسی اچھے تعلیمی ادارے کیلئے تو یہ بالکل ہی اچھا نہیں لگتا کہ وہ ملک کی کسی سیا سی جماعت کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کیلئے اپنے کسی بھی مذاکرے میں طلباء کو شرکت کی دعوت دینے کیلئے اس قسم کی تفریق کرتی پھرے کہ ہال میں موجود سامعین میں کوئی آزاد خیال طالب علم داخل نہ ہونے دیا جائے جو ان کے پروفیسر المیڈا اور حکومتی اراکن سے اختلاف کر سکے؟۔
اب اس تعلیمی ادارے کیلئے سب سے بڑی پریشانی یہ تھی کہ ان کے منتخب کردہ طلبا ء طالبات کی تعداد جیسا کہ پہلے کہا ہے کم تھی جس پر غیر جانبدار طلبا ء کی تلاش شروع کی گئی اور اس طرح اچھے گریڈ کے خوش پوش ملازمین کو بھی آڈیٹوریم میں بٹھانے کے باوجود جب یہ مذاکرہ ختم ہوا اور سامعین اور حاضرین سے ووٹنگ کرائی گئی کہ پاناما پر وزیر اعظم کو مستعفی ہونا چاہئے ‘‘ تو اپوزیشن 129 ووٹوں کے مقابلے میں131 ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی اور صرف 2 ووٹوں کی برتری سے جیت گئی۔
تعلیمی ادارے کی انتظامیہ اور ان کے منتخب کئے جانے والے خصوصی نظریات اور سوچ کے حامل پروفیسرز جو ماما قدیر اور برہمداغ بگٹی کو اپنا ہیرو سمجھتے ہیں اور مسلم لیگ نواز کے کارکن کہلا نا بھی پسند کرتے ہیں۔۔۔کیا بلوچستان میں ساڑھے تین سال سے حکمران جماعت مسلم لیگ نواز کو جمہوری نہیں سمجھتے؟ کیا وہ سمجھتے ہیں کہ بلوچستان میں نواز لیگ کی حکومت انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کر رہی ہے؟۔اگر ایسا نہیں تو پھر طلبا و طالبات کے سامنے ماما قدیر اور ڈاکٹر نذر کو ہیرو بنا کر کیوں پیش کر رہے ہیں؟۔ کیا سمجھ لیا جائے کہ 1971ء میں شیخ مجیب کی سرپرستی کرنے والا گروپ آج نئے روپ میں ملک کے عسکری اداروں کی مخالفت میں مصروف ہے؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved