سوال صحافی یا غیر صحافی کانہیں۔ چھاپہ مار صحافت اور چھاتہ بردار صحافی آزادی صحافت کے لیے خطرہ ہے۔
میری عمر کے لوگوں نے جب صحافت کی وادی پُر خار میں قدم رکھا تو اخباری دفاتر محض اشاعتی ادارے نہ تھے‘ نوآموز نوجوانوں کے لیے تعلیم و تربیت کے مراکز بھی تھے۔ ایڈیٹر‘ نیوز ایڈیٹر‘ چیف رپورٹر اور میگزین ایڈیٹر اپنے ساتھیوں کو صحافت کے اسرار و رموز کے علاوہ آداب سے بھی آگاہ کرتے۔ رپورٹروں کو تلقین کی جاتی کہ وہ مخاطَب پر اپنے علم‘ معلومات اور صحافتی شعبے سے وابستگی کا رعب جھاڑنے کے بجائے ایک اچھے طالب علم کی طرح سننے ‘سیکھنے‘ معلومات سے استفادہ کرنے اور خبر اگلوانے کی کوشش کریں۔ کوئی سیاستدان ‘سرکاری عہدیدار یا کسی نجی ادارے کا سربراہ آپ کے سوال کا جواب دینے کا اخلاقی اور قانونی طور پر مکلّف ہے نہ آپ کے تلخ سوالات کو سننے کا پابند۔ خبر اگلوانے اور معلومات حاصل کرنے کے لیے آپ کو اس کا اعتماد حاصل کرنا ہو گا۔عجز و انکسار اورشائستگی سے یہ سنگ میل عبور ہو سکتا ہے‘ رعب جھاڑ کر اور اخلاقی تقاضے پامال کر کے نہیں۔
الیکٹرانک میڈیا نے مگر ایک اور ہی کلچر متعارف کرایا ۔ بے باکی اور آزادی اظہارکے نام پرتھانیداری کا کلچر۔رپورٹر اب صرف اپنے ادارے کے لیے معلومات اکٹھی نہیں کرتا‘ حکمرانوں ‘ سیاستدانوں‘ سرکاری افسروں اور نجی اداروں کے سربراہوں سے راز نہیں اگلواتا‘ تفتیشی افسر کی طرح ان سے تندو تیز سوالات کرتا ہے۔ فوجداری وکیل کی طرح جرح بھی اور فوڈ انسپکٹر ‘ ڈرگ انسپکٹر اور لیبر انسپکٹر بن کر چھاپے بھی مارتا ہے۔سراغرسانی اور چھاپوں کے دوران ہمارے صحافی بھائی اچھے بھلے معزز شہریوں سے جس زبان میں بات کرتے‘ ان کی تذلیل سے حظ اٹھاتے اور انہیں چور‘ بددیانت ‘ بے ایمان ‘ کام چور‘ غنڈہ ‘ بدمعاش ‘ بدکردار ثابت کرنے پر تل جاتے ہیں ‘وہ علم و قلم کے بجائے کیمرے اور مائیک کی دین ہے۔شرفا نجی محفلوں میں بھی یہ لب و لہجہ اختیارنہیں کرتے۔
حمید نظامی مرحوم کے اخبار میں ایک بچی کے اغوا کی خبر چھپی تو اس بے باک صحافی نے ایڈیٹر کی باز پرس کی اور کہا کہ اس بچی کے والدین اس واقعہ کی اخباری تشہیر کے بعد اپنے دوست احباب‘ اہل محلہ اور دور دراز کے واقف کاروں کو کیا منہ دکھائیں گے مگر اب ریٹنگ اور مقبولیت کے لیے سب چلتا ہے۔ گزشتہ روز ایک نجی ٹی کی رپورٹر صائمہ کنول کو ایف سی اہلکار نے تھپڑ مارا تو یہ واقعہ سوشل میڈیا پر ٹاپ ٹرینڈ بن گیا اور ٹی وی چینلز نے ایف سی اہلکار کے ایک خاتون کو تھپڑ مارنے کی ویڈیو اتنی بار دکھائی کہ کراہت سی آنے لگی۔ بحث یہ چل رہی ہے کہ خاتون صحافی نے اپنی حدود سے کس حد تک تجاوز کیا اور ایف سی اہلکار کہاں تک بدتہذیبی کا مرتکب ہوا۔ ایک طبقہ ایف سی اہلکار پر برس رہا ہے کہ اس نے نسوانی تقدس پامال کیا‘ ایک خاتون پر ہاتھ اٹھایا اور اپنی وردی اور بندوق کا فائدہ اٹھا کر پاکستان کو دنیا بھر میں بدنام کیا جبکہ دوسرا انداز فکر یہ ہے کہ صحافی خاتون نے اپنی نسوانی اور صحافتی حیثیت کا ناجائز فائدہ اٹھانے کی کوشش کی‘ کار سرکار میں خلل ڈالا، ایک سرکاری اہلکار کی وردی پر ہاتھ ڈالا‘ اسے بے شرم کہہ کر اتنا مشتعل کر دیا کہ وہ ہاتھ اٹھانے پر مجبور ہو گیا۔ آج کل ہمارے قلم‘ کیمرہ اورمائیک بردارمرد و خواتین صحافی طے شدہ صحافتی اور اخلاقی حدود سے تجاوز کرتے ہیں۔ سرکاری اداروں کے فرائض انہوں نے سنبھال لیے ہیں اور کسی جواز کے بغیر وہ جہاں چاہیں جا گھستے ہیں ‘چادر اور چار دیواری کا تقدس برقرار رکھنا ہرشہری کا فرض ہے۔ ماضی میں صحافت حکمرانوں اور بالادست طبقات کو چادر اور چار دیواری کا تقدس برقرار رکھنے اور اپنے طے شدہ دائرہ کار سے تجاوز نہ کرنے کی تلقین کرتی تھی ‘ اب خود حدود پھلانگتی اور جو ہاتھ لگ جائے اس کی عزت نفس مجروح کرتی ہے ۔خواتین کو اپنی اور دوسروں کی عزت کے بارے میں زیادہ زود حس ہونا چاہیے کہ جوابی بدتمیزی ان کے لیے شرمندگی کا باعث بن سکتی ہے مگر بہت کم خواتین رپورٹر اور اینکرز سوچتی ہیں۔
سکیورٹی گارڈ‘ سپاہی‘ کلرک‘ نائب قاصد اور دیگر ادنیٰ اہلکاروں کے بارے میں ہم نے کبھی نہیں سوچا کہ وہ گوشت پوست کے انسان ہیں اورفرائض کی ادائیگی پر مامور۔ اپنے افسرں کی ڈانٹ ڈپٹ اور معاشی پریشانیوں کی وجہ سے عام طور پروہ ذہنی و نفسیاتی الجھنوں کا شکار ہوتے ہیں اور ناخواندگی یا کم تعلیم کی وجہ سے ان کاطرز تخاطب بھی بسا اوقات گزرتا ہوتا ہے‘ لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ کوئی افسر‘ صحافی یا ایم این اے جب چاہے ان کی بے عزتی کر دے اور وہ ہمیشہ اسے شیر مادر سمجھ کر ہضم کریں۔ ''تمہیں شرم نہیں آتی‘کیا تمہاری ماں بہن نہیں‘‘ جیسے الفاظ سن کر ان کے دماغ کا ناریل کسی وقت بھی چٹخ سکتا ہے۔ جب ایم اے پاس صحافی توازن برقرار رکھنے میں ناکام رہے، تُو تکار پر اتر آئے اور قلم یا مائیک کی قوت کے بل بوتے پر کسی کی توہین کرنے لگے تو ایک ناخواندہ شخص سے توقع رکھنا عبث ہے کہ وہ محض اپنی غربت‘ کمزور سماجی رتبے اور ملازمت کی مجبوری کی بنا پر تمیز کے دائرے میں رہے گا،اگرچہ انہیں رہنا چاہیے۔ دراصل لوگ مادر پدر آزاد صحافت سے تنگ آ چکے ہیں۔ اے پی ایس کا سانحہ رونما ہوا تو ایک مائیک بردار نے شہید بچے کی ماں سے پوچھا‘ آپ کو بیٹے کی شہادت پر فخر ہو گا۔ماں نے جل کرجواب دیا:'' ہم نے اپنے لخت جگر کو سکول بھیجا تھا میدان جنگ میں نہیں‘‘۔ ہسپتالوں کے آئی سی یو میں گھسنے اور کسی بم دھماکہ کے موقع پرسٹریچر روک کر شدید زخمیوں سے سوالات کرنے کی وجہ سے صحافیوں اور ڈاکٹروں کے علاوہ لواحقین میںاکثر تلخ کلامی ہوتی ہے مگر آج تک کسی صحافتی تنظیم نے اپنے ساتھیوں کو کسی ضابطہ اخلاق پر سختی سے کاربند رہنے کی تلقین نہیں کی۔
سیرل المیڈا کی سٹوری کی وجہ سے ملک میں جو بھونچال آیا وہ اسی غیر ذمہ دار صحافت کا شاہکار ہے مگر کسی نے رپورٹر یا اخبار کو سمجھانے کی ضرورت محسوس نہیں کی‘ اُلٹا فوج اور حکومت پر دبائو آیا کہ وہ صحافی اور اخبار سے کسی قسم کا تعرض نہ کرے۔ ''تمہارے گھر میں ماں بہن نہیں‘‘ کہہ کردوسروں کو شرم دلانے والے صحافی خواتین و حضرات ایف سی اہلکار کو رگیدتے ہوئے یہ استدلال پیش کر رہے ہیں کہ جو شخص فرائض منصبی کی ادائیگی کے دوران خواتین کی عزت نہیں کرتا وہ اپنے گھر میں کیا سلوک کرتا ہو گا مگر یہ سوال ثنا خوان تقدیس مشرق سے بھی بنتا ہے کہ اگر کوئی صحافی خود ان سے اس لب و لہجے میں بات کرے‘ شرم دلائے اور گریبان پکڑے تو ان کا ردعمل کیا ہو گا؟ کسی اجتماع میںمعمولی دھکم پیل کے دوران وہ منتظمین سے کیا سلوک کرتے ہیں۔اس کے باوجود ایف سی اہلکار ہو یا کوئی آدمی اسے خواتین کے ساتھ مہذب انداز میں پیش آنا چاہیے۔ سرکاری ملازم بالخصوص وردی پوش کی اخلاقی تربیت ان کے اداروں کا فرض ہے تاکہ ایسے ناخوشگوار واقعات پیش نہ آئیں ہم اس ذات رسالت مآب ﷺ کے پیرو کار ہیں جو اپنی صاحبزادی کا استقبال کھڑے ہو کر کرتے اورصحابہ کرام کو خواتین سے نرمی اور شائستگی سے بات کرنے کی تلقین فرماتے۔ خاتون کی سخت کلامی کو برداشت کرنا ہی شیوۂ مردانگی ہے اور ان پر ہاتھ اٹھانا درندگی۔ ایف سی اہلکار کو اس کی سزا ملنی چاہیے مگر اس معاملے کا دوسرا پہلو بھی ہے کہ صحافی خاتون سکیورٹی اہلکارسے الجھے‘ اسے شرم کرو کے الفاظ کہے بغیر اپنے فرائض انجام دے سکتی تھی۔ ساری گفتگو اورتصویر کشی ٹی وی سکرین کی زینت بنتی تو محکمے کے دیگر اہلکاروں کے علاوہ گارڈ کے خلاف بھی کارروائی ہوتی لیکن ایف سی اہلکار کو کون یہ یقین دلا سکتا ہے کہ وہ بے عزتی کرانے‘ وردی پر ہاتھ ڈلوانے اور فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی پر افسروں کی جھاڑیں کھانے کے بعد اگر
کسی سے شکایت کرتا کہ مجھے سرکاری اہلکار کے طور پر حاصل قانونی تحفظ کو پامال کیا گیا‘ کار سرکار میں رکاوٹ ڈالی گئی اور بطور ایک عزت دار شہری میری توہین ہوئی تو اس غریب کی کون سنتا‘ داد رسی کرتا ‘ یوں اس تھپڑ کو مادر پدر آزاد‘ چھاپہ مار صحافت پر تھپڑ سمجھ کر ہمیں سوچنا چاہیے کہ آئندہ ایسے واقعات کی روک تھام اورمرد و خواتین صحافیوں کی جان اور عزت کی حفاظت کس طرح ممکن ہے۔ خاتون صحافی سے سب کو ہمدردی ہے اور اہلکار کی زیادتی کا کوئی جواز پیش کرنا مشکل مگر اپنے گریبان میں ہمیں بھی جھانکنا چاہیے کہ کس قسم کی صحافت فروغ پا رہی ہے۔ چھاتہ بردار صحافی اور چھاپہ مار صحافت آزادی صحافت کے لیے خطرہ ہے۔