جان نکس پھلوں اور سبزیوں کا تاجر تھا۔ اُس زمانے کے نیویارک میں وہ مارکیٹ میں چھایا ہوا تھا۔ شاید ہی کوئی اور تاجر اِس شعبے میں اس کی ٹکر کا ہو۔ 1839ء میں اس نے چھوٹے پیمانے پر کام کا آغاز کیا۔ پھر وہ وقت بھی آیا کہ اس کی کمپنی دوسری ریاستوں اور برمودا کے جزائر سے سبزیاں اور پھل درآمد کرنے والی پہلی کمپنی تھی۔ جان نکس 1895ء میں وفات پا گیا۔ اس کی وفات کو ایک سو اکیس سال ہو گئے ہیں مگر آج بھی امریکہ میں اس کا اور اس کی کمپنی کا نام زندہ ہے۔ آخر اس کی کیا وجہ ہے؟ امریکہ میں اُس وقت سینکڑوں ہزاروں لوگ سبزیوں اور فروٹ کا کاروبار کرتے ہوں گے۔ اگر جان نکس نیویارک کی منڈی پر چھایا ہوا تھا تو آخر واشنگٹن، بوسٹن اور کئی دوسرے شہروں میں بھی تو سبزیوں اور پھلوں کے بڑے بڑے تاجر ہوںگے۔ آخر ان کا نام آج کیوں کسی کو نہیں معلوم!
جان نکس کو تاریخ میں زندہ رکھنے والا مُحسن کوئی انسان نہیں تھا بلکہ ٹماٹر تھا! ہوا یہ کہ نکس نے بیرونِ ملک سے ٹماٹر درآمد کیا۔ امریکہ میں اس وقت ایک قانون رائج تھا جس کا نام ''ٹیرف ایکٹ 1883ء‘‘ تھا۔ اِس ایکٹ کی رُو سے درآمد شدہ سبزیوں پر بھاری محصول ادا کرنا پڑتا تھا۔ جان نکس کا مال اُترا تو نیویارک کی بندرگاہ پر تعینات کلکٹر نے جس کا نام ہیڈن تھا، اس پر محصول عائد کر دیا۔ مال چھڑانے کے لیے اور خراب ہونے سے بچانے کے لیے نکس نے محصول تو ادا کر دیا مگر وہ کلکٹر کے خلاف عدالت میں چلا گیا۔ اس کا موقف یہ تھا کہ سائنس کی رُو سے ٹماٹر سبزی نہیں، پھل ہے اور ایکٹ میں صرف سبزی پر محصول لگایا جا سکتا ہے، اس لیے عدالت اُسے محصول کی رقم واپس دلوائے۔ دونوں طرف کے وکیلوں نے دھواں دار بحث کی۔ یہ مقدمہ
مشہور ہو گیا۔ نکس کے وکیل نے مستند ڈکشنریوں سے فروٹ اور سبزی کی تعریف پڑھ کر سنائی اور ثابت کیا کہ علمِ نباتات کی رُو سے ٹماٹر پھل ہے اورکوئی ایسا قانون نہیں جو ڈکشنری میں دیئے گئے معنی کو تجارت پر نافذ نہ کرنے دے۔ مگر عدالت نے فیصلہ نکس کے خلاف دیا۔ عدالت کا نکتہ یہ تھا کہ عملی طور پر سب لوگ ٹماٹر کو سبزی کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ اسے سویٹ ڈش میں نہیں بلکہ سالن میں کھایا جاتا ہے۔ اس وقت سے لے کر اب تک امریکی عدالتوں میں نکس کے نام کی گونج سنائی دیتی ہے۔ جب بھی کسی وکیل نے ثابت کرنا ہو کہ سائنس یا ڈکشنری نہیں، بلکہ عوامی استعمال فیصلے کی بنیاد ہوتا ہے تو نکس کے مقدمے کا حوالہ دیا جاتا ہے۔
عدالت نے تو فیصلہ دے دیا مگر یہ تنازع آج تک جاری ہے کہ ٹماٹر سبزی ہے یا پھل؟ سیاسی تجزیہ کار سیاست دانوں کے نام پھلوں پر رکھ دیتے ہیں یا دوسری خوردنی اشیا پر! مثلاً ڈیوڈ کیمرون کو برطانوی صحافی ٹافی کہتے تھے کہ دیکھنے میں میٹھا ہے مگر اندر سے سخت! ایک اور سیاست دان کو پیاز کہا جاتا تھا کہ وہ لوگوں کی آنکھوں میں آنسو لے آتا ہے۔ ڈیوڈ کیمرون کی کابینہ کے ایک وزیر کو ٹماٹر کہتے تھے کیونکہ اس کا موقف ''ہرچند کہ ہے مگر نہیں ہے‘‘ والا تھا۔
کیا آپ نے سید خورشید شاہ صاحب کے بیانات پر کبھی غور کیا ہے؟ کریں گے تو آپ کے ذہن میں لامحالہ ٹماٹر کی صورت ابھرے گی۔ سبزی ہے یا فروٹ؟ آج تک فیصلہ نہیں ہو سکا۔ آپ شاہ صاحب کے بارے میں کبھی بھی وثوق سے نہیں کہہ سکتے کہ وہ اپوزیشن میں ہیں۔ حزبِ اقتدار میں تو وہ یوں بھی نہیں! مگر اصل کریڈٹ آصف زرداری صاحب کو جاتا ہے۔ وہ اس جادو سے ہمیشہ بچتے ہیں جو سر چڑھ کر بولنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ آپ کا کیا خیال ہے کہ انہوں نے سید یوسف رضا گیلانی اور پھر راجہ صاحب کو وزیر اعظم اس لیے بنایا تھا کہ وہ ان دونوں صاحبان سے محبت کرتے تھے؟ نہیں! اس لیے کہ مردم شناس زرداری کو معلوم تھا کہ یہ دونوں خم ٹھونک کر سامنے کھڑے والے ہونے والے نہیں! ان میں گہرائی نہیں۔ یہ Vegetables ہیں۔ بولنے میں متاثر کر سکتے ہیں نہ لکھنے میں۔ اسی طرح سید خورشید شاہ صاحب کو پارٹی کے مالک نے پارلیمانی لیڈر مقرر کیا، اس لیے کہ وہ کسی بھی موقع پر اپنی رائے نہیں دیں گے۔ وہ رائے دینے کے اہل ہی نہیں۔ یہ بات ہمیشہ سے طے ہے کہ زرداری صاحب نواز شریف صاحب کی حکومت کے ہمیشہ حامی رہیں گے کیونکہ اگراحتساب ایک کا ہوا تو دوسرا بھی اسی کشتی میں سوار ہے۔ چنانچہ فرینڈلی اپوزیشن کے لیے شاہ صاحب سے زیادہ مناسب شخص کون ہوسکتا ہے! وہ ایک سانس میں جو بات کہتے ہیں دوسری سانس میں اس پرجھاڑو پھیر دیتے ہیں۔ پھر تیسرے فقرے میں جوکچھ کہتے ہیں، چوتھے فقرے میں اس کی تردید کردیتے ہیں۔ مثلاً ''وزیراعظم کی پالیسیوں سے وفاق اورحکومت کو خطرہ ہے‘‘۔
اس بیان میں اگلا جملہ دیکھیے: ''اسلام آباد بند کرنے سے دنیا میں غلط تاثر جائے گا‘‘۔ اب تیسرا فقرہ سنیے''اگر حالات خراب ہوئے تو ذمہ دار نوازشریف اور عمران خان دونوں ہوںگے‘‘۔ پھر فرمایا: ''حکومت 'جاگ پنجابی جاگ‘ کی سیاست سے باہر نکلے اور وفاق کی سیاست کرے تاکہ ایک صوبہ اور ایک شہر نہیں بلکہ پورا ملک مضبوط اور طاقتور بن سکے‘‘۔ اسی سانس میں کہا: ''دارالحکومت کو لاک ڈائون کرنا اور اس کو مفلوج کرنا سراسر غیر قانونی اور غیر آئینی اقدام ہے ہے‘‘۔
شاہ صاحب سبزی ہیں یا پھل؟ اس ابہام کی بہترین مثال دیکھنا ہو تو ان کے دو ایسے بیانات پر غور کیجیے جن کو تشریح، توجیہ، تاویل، کچھ بھی نہیں ہوسکتی اور کچھ بھی ہوسکتی ہے۔ فرمایا: ''پیپلزپارٹی لانگ مارچ کی چیمپئن ہے‘‘۔ ساتھ ہی حکومت کو اطمینان بھی دلا دیا کہ ''اگرمطالبات نہ مانے گئے تو ہم پارلیمنٹ میں احتجاج کریں گے‘‘۔
کل کو اگر زمین پر کھینچے گئے زائچے اورآسمان پر بدلتے ستارے شاہ صاحب کو وزیراعظم بنادیں تو وہ گورنر عشرت العباد کی طرح عشروں پر عشرے کوئی ٹھوس بات کیے بغیر گزار سکتے ہیں۔ مصطفیٰ کمال نے عشرت العباد صاحب کے رویے کا کمال تجزیہ کیا ہے اور یوں کیا ہے کہ تصدیق کرنے کے ساتھ داد بھی دینا پڑتی ہے۔ مصطفیٰ کمال نے کہا کہ عشرت العباد صاحب نے کسی کے لیے کبھی رائے یا منفی رائے کھل کر نہیں دی۔ کسی کی کبھی موافقت کی نہ مخالفت، اس لیے کہ موافقت یا مخالفت کرنے کے لیے دلائل دینے پڑتے ہیں۔ دلائل دیے جائیں تو معلوم ہوجاتا ہے کہ موقف کیا ہے۔ مگر عشرت العباد صاحب یا سید خورشید شاہ صاحب جیسے مرنجاں مرنج حضرات کسی کی موافقت یا طرف داری کیوں کریں؟ آخر کیوں اپنا موقف واضح کریں؟ بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ موقف رکھیں ہی کیوں؟ کسی ایشو پر واضح موقف اختیار نہ کرنا، سیاسی بقا کا بہترین نسخہ ہے۔ Survive کرنے کے لیے اس سے بہتر کشتی نہیں مل سکتی۔ یہ کشتی ہر طرف، ہر سمت چلتی ہے۔ ابھی کنارے پر لگی تھی تو ابھی پانی پر رواں ہے۔ ابھی اس رخ پر تھی تو ابھی ہوا کے رخ کے ساتھ اپنا رخ بھی بدل لیا ہے۔
ٹھوس رائے نہ رکھنے والے کو Vegetable بھی کہتے ہیں! میڈیکل سائنس میں ایسا مریض جو زندہ تو ہے، سانس تو لیتا ہے مگر اس کا دماغ کام نہیں کر رہا Vegetable کہلاتا ہے۔ تاہم روز مرہ کی گفتگو میں Vegetable وہ ہوتا ہے جو قیادت نہ کرسکے۔ کھوکھلا ہو۔ ادراک نہ رکھتا ہو۔ کسی مسئلے کی گہرائی میں نہ جا سکے۔ آپ اس سے گفتگو کریں تو آپ کو یوں لگے جیسے آپ سپاٹ دیوار کے سامنے کھڑے ہیں!
عرصہ ہوا ایک بیورو کریٹ سے گپ شپ ہو رہی تھی۔ باتوں باتوں میں اظہار افسوس کیا کہ آج بھی ایوان صدر اور ایوان وزیراعظم کی ضیافتوں میں بیرے دستاراور اچکن میں ملبوس ہیں! بیورو کریٹ کہنے لگا اچھے لگتے ہیں۔ کیا برائی ہے۔ ایک اور صاحب نے جوپاس تھے غیراختیارت طور پر بیورو کریٹ سے کہا: ''اوہو! تم Vegetableہو!‘‘