جمعرات کو سپریم کورٹ نے وزیر اعظم نواز شریف اور دیگر ساتھیوںکو پاناما پیپر ز کی بنیاد پر نااہلی کی پٹیشن میں نوٹس جاری کیے۔ اس کا شور زیادہ اور اثر کم ہے۔ بالفرض اگر سپریم کورٹ زیادہ سے زیادہ وزیر اعظم نواز شریف کو گیلانی کی طرح برطرف کر دیتی ہے تو پھر کیا ہو گا؟ لیکن گیلانی صاحب زرداری کی کٹھ پتلی تھے، نواز شریف صاحب کا معاملہ مختلف ہے۔ اگر ایسا ہو بھی جائے تو کروڑوں محنت کش عوام اس بوسیدہ نظام کی چکی میں پستے ہی رہیں گے۔
'پاناما لیکس‘ میں دولت مند اشرافیہ کے بہت سے نام ہیں۔ کرپشن سماج کے تانے بانے میں سرایت کر چکی ہے اور یہ اس بحران زدہ نظام کی ناگزیر پیداوار اور اس کی مجبوری ہے۔ جرائم اور کرپشن میں ملوث ہوئے بغیر دولت مند ہونا ایک جھوٹ اور دھوکہ ہے۔ اگر عدالتی پٹیشن اور 'اسلام آباد جام‘ کرنے سے بھی شریف خاندان فارغ نہ ہوا‘ تو عمران خان ایک مرتبہ پھر نواز شریف کا سب سے بڑا سیاسی اثاثہ ثابت ہو گا کیونکہ وہ عوام کے غصے کو زائل کرکے نواز شریف کے اقتدار کو طول دے رہا ہے۔ اور اگر وزیر اعظم نواز شریف فارغ ہو بھی جائیں تو اس کی جگہ لایا جانے والا کوئی سویلین یا کوئی اور اسی موجودہ نظام اور طرز معیشت کی ہی نمائندگی کرے گا۔ محروم و محکوم عوام کے لیے حکومتوںکی یہ تبدیلیاں کوئی معنی نہیں رکھتیں کیونکہ کئی مرتبہ ہو چکی ان تبدیلوں سے زندگی کے عذابوں میں کوئی کمی نہیں آئی۔
خبروں کے مطابق چیف جسٹس نے کہا کہ جب ایگزیکٹو عوام کے بنیادی حقوق کا تحفظ کرنے میں ناکام ہو جائے تو پھر عدالت کو ان حقوق کے دفاع کے لیے مداخلت کرنا پڑتی ہے۔ سیاست، عدالت اور سماج میں یہ بحث ہونا چاہیے کہ یہ بنیادی حقوق کیا ہیں؟ عدالت عوام کو یہ حقوق کس طرح دلوائے گی؟ ظاہر ہے اس کی کوئی واضح تعریف نہیں ہے اور آئین میں درج حقوق کو تو ویسے ہی فالتو اور متروک سمجھا جاتا ہے۔ آئین کی اصلی شکل میں کچھ حقیقی بنیادی حقوق واقعی بیان کیے گئے ہیں، وہ شکل نہیں جو ضیا کی آمرانہ ترامیم کے بعد آج موجود ہے‘ جسے آج کے جمہوریت پرست مقدس صحیفہ بنائے بیٹھے ہیں۔
1973ء کا آئین ایک عوامی تحریک کے عظیم واقعات کے بعد مرتب کیا گیا تھا اور اس میں انسانی زندگی کی کچھ بنیادی ضروریات اور بنیادی حقوق شامل ہیں۔ شقوں اور ذیلی شقوں کے گورکھ دھندے میں پڑے بغیر یہ کہا جا سکتا ہے خوراک، صحت، تعلیم اور روزگار بنیادی حقوق ہیں مراعات نہیں۔ کچھ وقت کے لیے یہ تسلیم کیا گیا تھا کہ اس ملک کے شہریوںکو ان کی مفت فراہمی ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ آج ایسا سوچنا بھی باعث شرمندگی بنا دیا گیا ہے اور جمود اور ہلکی رجعت کے اس دور میں غالب سیاست اور دانش ایسی سوچ کا تمسخر اڑاتی ہیں۔ کارپوریٹ میڈیا کے پروگراموں میں ملک کی تقریباً نوے فیصد آبادی کو درپیش ذلت اور اذیت پر بات تک نہیں کی جاتی۔
غربت، بیماری اور جہالت کا یہ عالم ہے کہ ملک کے محروم عوام کو ان تکالیف سے نجات دلانے کے لیے سماج میں ایک بنیادی سماجی و معاشی تبدیلی درکار ہے۔ اس نظام میں رہتے ہوئے سماج کے ان دردوں کی دوا کی قیمت بے پناہ زیادہ ہو گی۔ گزشتہ کئی فوجی اور کہیں بڑھ کر جمہوری حکومتوں میں جی ڈی پی کے تین سب سے بڑے اخراجات سامراجی قرضوں کی ادائیگی، فوجی اخراجات اور سیاسی اشرفیہ کی عیاشی اور مراعات ہیں۔ کیا چیف جسٹس ان انتہائی غیر ضروری اور اسرافی حکومتی اخراجات پر بھی سوموٹو لیں گے؟ جہاں صحت، تعلیم وغیرہ کے بجٹ کے حوالے سے پاکستان دنیا کے پست ترین ممالک میں سے ایک ہے‘ وہاں صحت اور تعلیم کو دیہات کی نچلی سطح تک بھی پرائیوٹائز کیا جا رہا ہے‘ جس سے ان شعبوں میں پہلے سے موجود طبقاتی تقسیم اور گہری ہو رہی ہے اور یہ بنیادی ضروریات مہنگی مراعات بنتی جا رہی ہیں اور عوام کی وسیع اکثریت کی پہنچ سے باہر ہو چکی ہیں۔ کیا چیف جسٹس اسے روک سکتے ہیں؟
نواز لیگ اور تحریک انصاف اپنی اپنی حکومتوں میں یہی پالیسیاں نافذ کر رہی ہیں اور محنت کش طبقہ اور محروم عوام برباد ہوئے جا رہے ہیں۔ اور اس نظام میں خود انصاف کی کیا حالت ہے۔ نواز شریف اور عمران خان اس ظالمانہ سرمایہ دارانہ نظام کے سب سے بڑے حامی اور نمائندے ہیں۔ درحقیقت تمام بڑی جماعتیں، کم از کم ان کی قیادتیں اس استحصالی اور جابر معاشی نظام کی داعی ہیں۔
اگر جمہوری حقوق کی بات کریں تو یہ جمہوریت عوام کے لیے ایک دھوکہ اور فریب ہے۔ اب تو عام عوام بھی بخوبی جانتے ہیں کہ عدالتی نظام کی طرح انتخابات بھی صرف پیسے والوں کی دسترس میں ہیں۔ کیا یہ دھاندلی نہیں؟ دھاندلی کے باقی الزامات بے معنی، جہالت پر مبنی یا ہارنے والے کا رونا دھونا ہیں۔ قدرتی آفات، جنگوں، دہشت گردی اور تشدد کا شکار زیادہ تر غریب ہی بنتے ہیں۔ مسلسل دہشت گردی اور جرائم ریاست کو جبر کا جواز فراہم کرتے ہیں۔ معصوموں کی فریادوں کی شنوائی نہیں ہوتی۔ یہ کوئی اتفاق نہیں کہ محنت کشوں اور غریبوں کے احتجاجوں اور مظاہروں پر پولیس اور ریاستی اداروں کا جبر اشرافیہ کے سیاست دانوں کی ریلیوں اور دھرنوں کی نسبت کہیں زیادہ ہوتا ہے۔ اس طرح مخلص یونین کارکنان اور مزدور راہنما اس حاکمیت کے ظلم و ستم کا اس نام نہاد جمہوری حکومت میں شکار ہیں۔ سینکڑوں مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ راوی ریان اور لاہور کالا شاہ کاکو صنعتی علاقے کے مزدوروں کی طویل جدوجہد کرنے والے مزدور راہنما غلام محبوب دستگیر کئی سالوں سے پابندسلاسل ہیں۔ وہ خود غنڈہ گردی اور قبضہ گروپوںکے مظالم کا نشانہ بنے اور انہی جیل میں ڈال دیا گیا۔ کوئی پوچھ پڑتال کرنے والا نہیں ہے۔ مزدوروں کی تحریک کو معاشی جبر میں اس قدر کچلا گیا کہ اس کی کسی اٹھان پر سب سے پہلے وار کیا جاتا ہے۔ پالیسی سازی میں فوج کا عمل دخل بڑھتا چلا جا رہا ہے اور براہ راست فوجی حکومت میں بھی اس سے زیادہ نہیں ہو سکتا۔ معیشت میں ان کی مداخلت بھی فوجی آمریتوں کے دور سے کہیں زیادہ ہے۔
شہروں میں پیدل چلتے یا موٹر سائیکل پر سوار عوام لوگوں پر ایک نظر ہی ان کی پریشانی اور مایوسی کی داستان سنا دیتی ہے۔ ان کے چہروں پر تھکاوٹ اور تنائو اور پیروں میں جلدی ہے۔ لیکن یہ محروم لوگ اس تلخ زندگی سے کچھ بھی نہیں پا رہے۔ تیز تر حرکت کے باوجود ان کی روزی اور زندگی کے حالات مزید اذیت ناک ہوتے جا رہے ہیں۔ پیدائش سے مرتے دم تک وہ محض گزارہ کرنے لے لیے ایک گھن چکر میں جکڑے ہوئے ہیں۔ لیکن یہ ناممکن حد تک دشوار ہوتا جا رہا ہے۔ ارسطو نے کہا تھا کہ ''انسان تب سوچنا شروع کرتا ہے جب اس کا پیٹ بھرا ہو‘‘۔ یعنی بنیادی انسانی ضروریات کی تکمیل کے بغیر سماج کی وسیع اکثریت کے لیے زندگی ایک بے معنی جستجو بن چکی ہے اور دولت مند اور طاقتور افراد ہی زندگی کی خوشیوں سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔ غریب اور نادار جانوروں جیسی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں جس کا واحد مقصد اپنی بقا کی ضروریات کا حصول اور غربت سے لڑنا رہ گیا ہے۔ یہی سرمایہ دارانہ نظام کی حقیقت ہے کہ انسانیت مقابلہ بازی اور حسد کی آگ میں جلتی رہے۔ اس نظام کا خاتمہ کیے بغیر انسان زندگی کا حقیقی لطف نہیں اٹھا سکتے اور نہ ہی انسانوں کی طرح جی سکتے ہیں۔