مرنجاں مرنج ظفر اللہ جمالی وزیر اعظم کی حیثیت میں ملک کے چیف ایگزیکٹو تھے لیکن باوردی صدر کو ''مائی باس‘‘کہا کرتے۔ پرویز مشرف کو اپنی خود نوشت ''اِن دی لائن آف فائر‘‘ میں اس اعتراف میں کوئی عار نہ تھی کہ اس نے اپنی سیاسی ضروریات و خواہشات کے لیے (نواز شریف کی مسلم لیگ میں نقب لگا کر) قاف لیگ نکالی۔ 10اکتوبر 2002ء کے انتخابات میں تمام سرکاری و غیر سرکاری وسائل اور مرئی و غیر مرئی عناصر کے بروئے کار آنے کے باوجود قاف لیگ قومی اسمبلی میں سادا اکثریت بھی حاصل نہ کر سکی کہ تنِ تنہا حکومت بنا سکے۔ اس کے لیے پیپلز پارٹی سے درجن بھر ''پیٹریاٹ‘‘ ڈھونڈنا پڑے اور اس کے بعد بھی جمالی صاحب کو صرف ایک ووٹ کی اکثریت سے وزیر اعظم بنوایا جا سکا۔ کہا جاتا ہے، یہ فیصلہ کن ووٹ بھی سپاہ صحابہ کے اعظم طارق کا تھا(جو کچھ عرصہ بعد اسلام آباد کے راستے میں قتل کر دیئے گئے۔)
وزیر اعظم جمالی کو اپنی حدود و قیود کا ہر دم احساس رہا اور انہوں نے ''ریڈ لائن‘‘ عبور کرنا تو کجا، کبھی بھولے سے اس کے قریب جانے کی ہمت بھی نہ کی۔ پھر بھی ڈکٹیٹر کا جی بھر گیا اور اس نے ڈھیلے ڈھالے اور ''پینڈو‘‘ قسم کے جمالی کی جگہ سمارٹ اور فیشن ایبل شوکت عزیز کو لانے کا فیصلہ کر لیا، لیکن اس کے لیے انہیں قومی اسمبلی کا رکن منتخب کروانا ضروری تھا۔ ان دو ماہ کے لیے بڑے چودھری صاحب کو وزارتِ عظمیٰ سونپ دی گئی۔(بعض ستم ظریف اس پر ''حلالہ وزیر اعظم‘‘ کی پھبتی کستے۔) اپنے پیش رو کی طرح شوکت عزیز بھی اپنے محسن کے ''موسٹ اوبی ڈیئنٹ سرونٹ‘‘ بنے رہے(البتہ وہ اسے ''مائی باس‘‘ نہ کہتے۔) ان کے سامنے محمد خان جونیجو کی مثال رہتی جنہوں نے صدر ضیاء الحق کے مقابل خود کو واقعی وزیر اعظم سمجھنا شروع کر دیا تھا۔ اور پھر ایک شام وہ غیر ملکی دورے سے واپسی پر اسلام آباد اترے ہی تھے کہ پرائم منسٹر ہائوس پہنچنے سے پہلے ہی ''سابق‘‘ ہو گئے۔
اور اس سے پہلے، ضیاء الحق ہی کے دور میں، پاکستان قومی اتحاد(پی این اے)کے ''شراکتِ اقتدار‘‘ کا تجربہ... لیکن فوجی حکومت میں سویلینز کی یہ بے اختیاری کوئی ایسی غیر فطری بھی نہیں ہوتی۔ منتخب حکومت کے اختیار کا منبع عوامی مینڈیٹ کی حامل پارلیمنٹ ہوتی ہے۔ وزیر اعظم اور اس کی کابینہ اسی عوامی مینڈیٹ سے پاور اور اتھارٹی Derive کرتے ہیں۔ فوجی حکمران کی اپنی طاقت ہوتی ہے جس کا منبع اس کا ادارہ ہوتا ہے۔ وہ اپنی ضرورت کے تحت سویلین وزراء کا تقرر کرتا ہے تو ان کی حیثیت اس کے ''پبلک ریلیشننگ آفیسرز‘‘ سے زیادہ نہیں ہوتی۔ سرکاری محکمہ تعلقات عامہ کے اہل کاروں کو تو پھر بھی ملازمت کا تحفظ حاصل ہوتا ہے، فوجی حکومت کے سویلین وزراء تو اس سے بھی محروم ہوتے ہیں جن کی مدتِ ''ملازمت‘‘ اور دائرۂ اختیار سو فیصد ''باس‘‘ کی خوشنودی پر منحصر ہوتا ہے۔
جنرل ضیاء الحق 90 روز والے(پہلے) الیکشن ملتوی کر چکے تھے۔ بھٹو کے خلاف مقدمۂ قتل کی عدالتی کارروائی جاری تھی۔ دُور اندیش اور معاملہ فہم جنرل ایک سے زیادہ محاذ کھولنے کی بجائے، ایک وقت میں ایک ہی محاذ پر توجہ مرکوز کرنے اور زیرِ ہدف دشمن کے تمام دشمنوں کا تعاون حاصل کرنے میں یقین رکھتا تھا۔
ایئرمارشل اصغر خان کی تحریک استقلال اور حضرت شاہ احمد نورانیؒ کی جمعیت علماء پاکستان، اپنی اپنی وجوہات کی بنا پر، پی این اے سے ناتہ توڑ چکی تھیں۔لیکن اب بھی بھٹو مخالف عوامی جذبات و احساسات کی علامت پی این اے ہی تھا، ضیاء الحق جس کی طاقت سے بخوبی آگاہ تھے اور اس حقیقت سے بھی باخبر کہ پی این اے میں بعض عناصر(خصوصاً نواب زادہ نصراللہ خاں اور مفتی محمود) انتخابات کے غیر معینہ التوا سے خوش نہیں۔
عدالتی کارروائی سے اندازہ ہو رہا تھا کہ بھٹو کے خلاف قتل کیس کس سمت جا رہا ہے۔ ادھر پی این اے انتخابات کے نئے اعلان کا مطالبہ کر رہا تھا۔ ضیاء الحق نے اس سے سلسلۂ جنبانی کا آغاز کیا۔ وہ ''انتخابات کے لیے فضا کو سازگار‘‘ بنانے کی خاطر اس سے تعاون کے طلب گار تھے اور اس بوجھ کو شیئر کرنے کے لیے کابینہ میں اس کی شمولیت کا تقاضا کر رہے تھے۔ اس پر پی این اے میں غور و خوض شروع ہوا، مسلم لیگیوں کی بے تابی عروج پر تھی۔ جماعت اسلامی کا رویہ نیمے دروں، نیمے بروں کا تھا، سردار شیر بازخاں مزاری( اور بیگم نسیم ولی خان) کی این ڈی پی مخالفت کر رہی تھی، نوابزادہ اور مفتی صاحب بھی گریز کی راہ پر تھے۔ خطرہ تھا کہ پی این اے اس مسئلہ پر مزید شکست و ریخت کا شکار نہ ہو جائے(تحریک استقلال اور جے یو پی کی علیحدگی کے زخم ابھی بھرے نہ تھے) پی این اے کے فیصلے سے قبل ہی مسلم لیگ نے ''ذاتی حیثیت‘‘ میں کابینہ میں شمولیت کا فیصلہ کر لیا۔ پی این اے کو مزید صدمے سے بچانے کے لیے نوابزادہ اور مفتی صاحب بھی یہ کڑوا گھونٹ پینے پر آمادہ ہو گئے۔ لیکن انہوں نے جنرل ضیاء الحق سے کچھ شرائط تسلیم کرائیں، مثلاً کابینہ میں پی این کی شمولیت بامقصد ہو گی( انتخابات کے لیے فضا کو سازگار بنانا) اور یہ کہ وزراء با اختیار ہوں گے۔ کابینہ میں مسلم لیگ کے حصے میں چار، نوابزدہ کی پی ڈی پی کے حصے میں دو، جمعیت علماء اسلام اور جماعت اسلامی کے حصے میں تین، تین وزرارتیں آئیں، پروفیسر خورشید احمد کو ضیاء الحق نے اپنی ذاتی چوائس کے طور پر کابینہ میں شامل کر لیا تھا یوں جماعت کے وزراء کی تعداد بھی چار ہو گئی۔ این ڈی پی، پی این اے میں شامل رہی لیکن کابینہ میں شمولیت پر آمادہ نہ ہوئی۔
مسلم لیگ نے پی این اے کے فیصلے سے قبل ہی کابینہ میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔ اس کے چار وزراء کی حلف برداری کی جو تصویر شائع ہوئی، اس میں جرنیل حضرات آگے کرسیوں پر تشریف فرما تھے اور سول وزراء دست بستہ پیچھے کھڑے تھے۔ نوابزادہ صاحب کا تبصرہ تھا، آقایانِ ولی نعمت آگے کرسیوں پر اور غلامانِ رنگیں قبا پیچھے کھڑے ہیں۔
سویلین وزراء کتنے با اختیار تھے، اس کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ ایک دیہی علاقے میں وزیر صاحب کی کھلی کچہری میں ایک شخص نے ڈپٹی کمشنر بہادر کی شکایت کر دی۔ وزیر صاحب کی گاڑی واپسی کے لیے ابھی حرکت میں نہیں آئی تھی کہ بندۂ گستاخ، ڈی سی صاحب کے تھپڑوں اور ٹھوکروں کی زد میں تھا۔
پانی و بجلی کے وزیر سرکاری وزٹ پر لاہور کے واپڈا ہائوس گئے تو چیئرمین صاحب نے اتنی سی زحمت بھی نہ کی کہ اس کے خیر مقدم کے لیے واپڈا ہائوس کے گیٹ پر نہ سہی، اپنے آفس کے دروازے پر ہی آ جاتے۔ ایک دوست کے استفسار پر کہا ایک ریٹائرڈ جرنیل، ایک ریٹائرڈ صوبیدار کا استقبال تو نہیں کر سکتا(چیئرمین صاحب ریٹائرڈ جرنیل تھے اور بے چارہ سویلین وزیر کبھی فوج میں صوبیدار رہا تھا۔)
سویلین وزراء کو بااختیار بنانے کے لیے صوبائی حکومتوں میں بھی پی این اے کی شمولیت کی بات ہوئی تھی۔ ضیاء الحق کو یہ بات یاد دلائی جاتی تو وہ جواب دیتے، میں تو چاہتا ہوں لیکن گورنر نہیں مانتے۔ اور ادھر حالت یہ تھی کہ وفاقی وزراء، دارالحکومت سے باہر کسی صوبے کا رُخ کرتے تو گورنر اور صوبائی انتظامیہ اسے دخل در معقولات خیال کرتے ہوئے، سرد مہری روا رکھتے۔
اگست 1978ء میں پی این اے حکومت میں شامل ہوا تھا، 4اپریل 1979ء کو بھٹو کو پھانسی ہو گئی۔ اسی دوران ضیاء الحق اکتوبر میں انتخابات کے انعقاد کا نیا اعلان کر چکے تھے۔ اب ان کا کہنا تھا، جو وزراء الیکشن میں حصہ لینا چاہتے ہیں، وہ مستعفی ہو جائیں۔ پی این اے تو خود با عزت واپسی کے بہانے کی تلاش میں تھا۔ 9مہینے بعد لوٹ کے بدھو گھر کو آئے۔
فوجی حکومت میں پی این اے کی شرکت کو بامقصد بتایا گیا تھا۔
بھٹو کی پھانسی کے ساتھ ضیاء الحق کا مقصد پورا ہو گیا۔
انتخابات کے نئے اعلان سے پی این اے کو فیس سیونگ مل گیا۔
انتخابات کے نئے اعلان کا کیا ہوا؟ یہ ایک الگ کہانی ہے۔