تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     24-10-2016

… جو کھوگئی وہ چیز کیا تھی؟

آمریت کا دور گزرا۔ جمہوریت دوبارہ آئی مگر ایسی آئی کہ اُس کا آنا نہ آنا برابر ٹھہرا۔ جو لوگ آمریت کے دور میں جمہوریت کو یاد کرکے رہتے رہتے تھے وہ جمہوریت کی بحالی پر مزید بے حواس ہوئے۔ سوچا بھی نہ تھا کہ اب کے جمہوریت آئے گی تو بہت حد تک آمریت ہی کا پرتو ثابت ہوگی۔ 
پیپلز پارٹی کے پانچ سال یوں گزرے کہ دل و جاں پر قیامتیں گزر گئیں۔ لوگ آٹھ آٹھ آنسو روئے کہ جمہوریت کی بحالی کا خواب دیکھا تو کیوں دیکھا! اُستاد قمرؔ نے خوب کہا ہے ؎ 
دعا بہار کی مانگی تو اِتنی پھول کھلے 
کہیں جگہ نہ رہے میرے آشیانے کو! 
پیپلز پارٹی نے جمہوریت کے نام پر قائم ہونے والی حکومت کے ذریعے ''گڈ گورننس‘‘ کی ایسی عمدہ مثال قائم کی کہ لوگ پہلے تو انگشت بہ دنداں رہ گئے اور اِس کے بعد دُعا کے مرحلے سے گزرتے ہوئے التجا کی منزل تک پہنچے۔ ع 
اب اِس قدر بھی نہ چاہو کہ دم نکل جائے 
پرویز مشرف کا دور گزرنے پر اُمیدوں کا میلہ سج گیا تھا۔ لوگ پتا نہیں کیا کیا سوچ رہے تھے۔ توقعات کا مینا بازار لگا ہوا تھا۔ ؎ 
دل شاد تھا کہ پھول کھلیں گے بہار میں 
مارا گیا غریب اِسی اعتبار میں 
ایمان داری کی بات تو یہ ہے کہ وہ پانچ سال کیا گزرے، پانچ صدیاں گزر گئیں۔ اب لوگوں کو خیال آتا ہے کہ ؎ 
دو چار اُمیدوں کے سہارے جو گزارا 
وہ عہدِ محبت تھا کہ اِک عہدِ سزا تھا! 
پیپلز پارٹی گئی تو ن لیگ کی حکومت آئی۔ مشکلات دوچند ہوئیں۔ روزِ اوّل سے یہ محسوس ہونے لگا کہ اِس بار ن لیگ کو اِس قابل نہ چھوڑنے کی قسم کھالی گئی ہے کہ وہ کچھ ڈلیور کرے۔ اور پھر سہی سہی کسر نادان دوستوں نے بھی پوری کردی۔ کچھ دوسروں کی شعوری کوششیں تھی اور کچھ اپنوں کی بے شعوری۔ گویا ع 
دونوں طرف تھی آگ برابر لگی ہوئی! 
ن لیگ ساڑھے تین سال سے حکومت کے ساتھ ساتھ دعوے اور وعدے بھی کرتی آئی ہے۔ یہ ساڑھے تین خرابیوں کی داستان رقوم کرنے میں صرف ہوئے ہیں۔ ایک ایک تیر میں کئی نشانے لگائے جاتے رہے ہیں۔ اب یہی دیکھیے کہ ایک ہی تیر میں عمران خان سے ن لیگ کو چھیدنے کا کام بھی لیا گیا اور تحریکِ انصاف کو بھی پنکچر کردیا گیا ... بلکہ یہ کہنا بہتر اور موزوں ہوگا کہ یہ ابھرتی ہوئی جماعت گِرتے لڑھکتے ٹولے میں تبدیل کردی گئی ہے! اِس مرحلے پر ہمیں 1950 کی فلم ''محل‘‘ میں لتا منگیشکر کے گائے ہوئے گیت کے انترے کا شعر یاد آرہا ہے ؎ 
دیپک بغیر کیسے پروانے جل رہے ہیں 
کوئی نہیں چلاتا اور تیر چل رہے ہیں 
تیر کا زمانہ گیا تو بظاہر شیر کا زمانہ آیا مگر در حقیقت تیر کا زمانہ گیا نہیں۔ تیر والے تو چلے گئے مگر اِن ساڑھے تین برس میں بھی تیر ہی تو چلتے رہے ہیں۔ پی پی پی والے ''دشمنوں کے دل پہ تیر‘‘ گاتے نہیں تھکتے۔ ہم نے تو یہی دیکھا ہے کہ تیر آ آکر اہلِ وطن کے سینوں میں گھسے ہیں۔ چلیے، اِس بہانے دوست اور دشمن کا فرق بھی معلوم ہوگیا! 
قوم اب تک منتظر ہے کہ بی جمہوریت کچھ ڈلیور کریں مگر یہ محترمہ ہیں کہ اب تک لیبر روم میں پھنسی ہوئی ہیں۔ سب کچھ الجھ کر رہ گیا ہے ... یا الجھا دیا گیا ہے۔ 
اب حالت یہ ہے کہ عام انتخابات کی باتیں ہو رہی ہیں اور بہت سے پینڈورا بکس ایک ساتھ کھولے جارہے ہیں۔ عمران خان پاناما لیکس کے بامِ عروج سے نیچے آنے کو تیار نہیں۔ اور اِدھر کراچی میں ایم کیو ایم کو ''کٹ ٹو سائز‘‘ کرنے کا عمل زور و شور سے جاری ہے۔ 
لوگ اب تک اپنے بنیادی مسائل کے حل ہونے کی راہ تک رہے ہیں۔ عوام کا نصیب ایسا ہے تو نہیں کہ ان کے مسائل حل ہوں۔ کوئی معجزہ ہوجائے تو اور بات ہے۔ جمہوریت جس حال میں ہے، اس کا رہنا بھی چمتکار سے کم نہیں۔ اور چمتکار کو نمسکار والی بات تو آپ نے سُنی ہی ہوگی۔ یہی سبب ہے کہ ٹوٹی پھوٹی، تھکی ہاری جمہوریت بھی عوام کو پیاری ہے۔ اور اچھا ہے کہ وہ اِس مرحلے سے گزریں یعنی عام انتخابات میں اپنا حقِ رائے دہی ڈھنگ سے بروئے کار لاکر اُنہیں منتخب کریں جو اُن کے مسائل حل کرنے میں دلچسپی رکھتے ہوں۔ 
ہم آئے دن یہ سنتے ہیں کہ ملک دو راہے پر کھڑا ہے، نازک موڑ ہے یا یہ کہ تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے۔ اکیسویں صدی کے بہت سے تقاضوں میں ایک یہ بھی ہے کہ ہم اپنے آپ کو بدلیں۔ ویسے تو خیر ہر دور کے انسان کو بدلنے کے چیلنج کا سامنا رہا ہے مگر اب معاملہ بہت سنجیدہ بلکہ سنگین ہے۔ جدید دور سے ہم آہنگ ہوئے بغیر چلنے میں گزرے ہوئے زمانوں کے لوگ بھی دقتیں محسوس کرتے تھے۔ اب معاملہ بہت پیچیدہ ہے۔ عصری تقاضوں کو نبھائے بغیر زندگی بسر کرنے کی کوشش کرنے والے اب سب کچھ کھو بیٹھتے ہیں۔ زندگی کا ساتھ نہ دینے والے اب موت کی طرف بڑھ جاتے ہیں۔ 
اہلِ پاکستان کے لیے بھی لازم ہوگیا ہے کہ سوچ بدلیِں تاکہ عمل بھی بدلے اور کچھ بہتری کی راہ ہموار ہو۔ 
اس میں کوئی شک نہیں کہ سیاست دان اپنے اطوار بدلنے کو تیار نہیں۔ وہ اب تک ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے میں لگے ہوئے ہیں اور یہی سبب ہے کہ جمہوریت بھی ڈھنگ سے چلنے کے قابل نہیں ہو پارہی۔ ایسے میں عوام ہی کوئی کردار ادا کریں تو کریں۔ جس طور ٹھیلے سے گلی سڑیں سبزیاں یا پھل خریدنے سے انکار کردیا جاتا ہے بالکل اُسی طرح سیاسی دکان سے بھی کوئی ایسی چیز نہ خریدی جائے جو مطلوبہ معیار کے مطابق نہ ہو۔ دکان دار کے لیے لازم ہے کہ گاہک کی پسند و ناپسند اور ضرورت کا پورا خیال رکھے۔ جنہوں نے جمہوریت کے نام پر سیاست کی دکانیں کھول رکھی ہیں اُن سے بھی ہمیں بہترین مال کی توقع رکھنی چاہیے۔ اور اگر بہترین مال ایک دکان سے نہ مل رہا ہو تو دکان بدل لینی چاہیے۔ جب تک ایسا نہیں کیا جائے گا تب تک سیاسی دکان دار اپنا مال بدلنے پر مائل نہ ہوں گے۔ 
ساڑھے تین سے ملک کو سیاسی اکھاڑے میں تبدیل کرکے بے ہنگم اور بلا جواز احتجاج کیا جارہا ہے۔ عوام حیران ہیں کہ یہ سب کیوں ہو رہا ہے یا کیوں کیا جارہا ہے۔ ن لیگ کی حکومت میں بھی کمزوریاں ہیں مگر خیر، ایسا بھی نہیں ہے کہ اس کے تمام ہی اقدامات کو مسترد کرکے صرف احتجاج کا راگ الاپا جائے۔ عوام چاہتے ہیں کہ جمہوریت کی ٹرین پٹڑی پر رہے مگر اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ ٹرین موزوں اسٹیشن پر نہ پہنچے۔ ہر حکومت کا کوئی نہ کوئی، گیا گزرا ہی سہی، وژن ضرور ہوتا ہے۔ ن لیگ نے بھی چند وعدے اور دعوے کیے تھے۔ اس کے لیے وعدے نبھانا اب تک ممکن نہیں ہوسکا ہے۔ عمران خان اور ان کے رفقاء و حلیف ساڑھے تین سال سے صرف احتجاج کرتے آئے ہیں۔ ن لیگ کو گڈ گورننس کی منزل تک آنے سے روکنے کا یہ نتیجہ برآمد ہوا ہے کہ خیبر پختونخوا میں بھی گڈ گورننس کی راہ ہموار نہیں کی جاسکی ہے۔ تحریکِ انصاف نے تخت لاہور کو کمزور کرنے کی کوشش میں ''تخت پشاور‘‘ کو نظر انداز کردیا جو خیبر پختونخوا حکومت کی کمزوری اور خود تحریکِ انصاف کے بانجھ پن پر منتج ہوا ہے۔ عوام ضرور چاہتے ہیں کہ جمہوریت کی دلہن ڈولی میں سوار ہوکر آئے مگر اس دلہن کو چند ہی روز میں گھر کے کام کاج بھی تو سنبھالنے ہوتے ہیں۔ جاوید اختر نے خوب کہا ہے ؎
کبھی جو خواب تھا وہ پالیا ہے 
مگر جو کھوگئی وہ چیز کیا تھی 
پیپلز پارٹی نے پانچ سال ایسے گزارے کہ پرویز مشرف کو بد دعائیں دینے والے ہی اُنہیں یاد کرکے روتے رہے۔ خود عمران خان نے بھی یہ بات کئی بار کہی کہ پرویز مشرف کا دور بہتر تھا۔ اور اب خود عمران خان نے ایسے حالات پیدا کیے ہیں کہ لوگ ن لیگ کی حکومت کی ناکامی سے گھبراکر آمریت کے دور کو یاد کر رہے ہیں۔ مگر شیخ ابراہیم ذوقؔ کا کہا یاد رکھنا چاہیے 
اب تو گھبراکے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے 
مرکے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے! 
سوال آمریت کو یاد کرکے خون کے گھونٹ پینے یا آنسو بہانے سے زیادہ جمہوریت کو یادگار بنانے کا ہے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved