1988ء میں جنرل ضیاء الحق مرحوم اسمبلیاں برخاست اور حکومت معزول کر کے ایک بار پھر مطلق العنان حکمران بن گئے۔ قوم سے نشری خطاب کے دوران ملک میں فروغ پذیر کرپشن اور بدامنی کا ذکر کرتے ہوئے ان کے آنسو چھلک پڑے۔ دوسرے روز اخبار میں رئیس امروہوی مرحوم کا قطعہ شائع ہوا جس کے پہلے دو مصرعے تو مجھے یاد نہیں مگر آخری دو مصرعے کمال کے تھے ؎
سنایا جو مچھلی نے احوال غم
مگرمچھ بھی آنسو بہانے لگا
وزیر اعظم نواز شریف کو رحیم یار خاں میں طبّی سہولتوں کی کمی اور غریب عوام کی حالت زار پر آنسو بہاتے دیکھ کر معلوم نہیں کیوں مجھے میاں صاحب کے مربی ضیاء الحق مرحوم یاد آئے‘ان دنوں جن کا نام لینے سے بھی قائد اعظم ثانی گریز کرتے ہیں۔ میاں صاحب پاکستان کے واحد خوش نصیب سیاستدان ہیں جنہیں دوبار پنجاب کا وزیر اعلیٰ اور تین بار ملک کا وزیر اعظم بننا نصیب ہوا ایوب کھوڑو ‘ مشتاق احمد گورمانی‘ میاں ممتاز دولتانہ‘ ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو جیسے ذہین‘ شاطر اور گٹھ جوڑ کے ماہر سیاستدانوں کو یہ موقع نہیں ملا ۔جتن سب نے کئے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے تیسری بار اقتدار حاصل کرنے کے لیے فوجی آمر جنرل (ر) پرویز مشرف سے سمجھوتہ کیا اور این آر او کی بدنامی مول لی مگر قسمت نے ساتھ نہ دیا ع
منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے
برس ہا برس سے پنجاب پر شریف خاندان کی حکمرانی ہے اور میاں نواز شریف ہوں یا میاں شہباز شریف کو پنجاب کی حکمرانی کے دوران کسی رکاوٹ کا سامنا نہیں کرنا پڑا اس کے باوجود پنجاب میں طبی سہولتوں کا فقدان ہے‘ ہسپتالوں کی حالت ابتر ہے اور لاہور کے سرکاری ہسپتالوں میں ایک ایک بیڈ پر لیٹے تین تین مریض بھی اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھتے ہیں کیونکہ برآمدوں میں بے یارو مددگار پڑے مریضوں سے وہ بہرحال بہتر ہیں۔ شریف خاندان کی خاندانی قیام گاہ جاتی امرا کے پڑوس میں رائیونڈ ہسپتال کی حالت زار پر میاں شہباز شریف کا اظہار برہمی‘ پنجاب کے مضافاتی شہروں اور قصبوں میں طبی سہولتوں کے فقدان اور محکمہ صحت کی ناقص کارگزاری کا ثبوت مُنہ بولتا ہے جبکہ 1985ء سے اب تک حکومت پنجاب کے صوبائی خزانے سے چلنے والی تشہیری مہم کا ایمانداری سے جائزہ لیا جائے تو قصباتی مراکز صحت بھی آغا خان ہسپتال اور شوکت خانم ہسپتال کے ہم پلّہ ہونے چاہئیں۔ اربوں روپے صرف تشہیری مہم پر خرچ ہوئے مگر وزیر اعلیٰ پنجاب رائیونڈ اور قصور کے ہسپتالوں میں طبی سہولتوں کی کمی اور بدترین کارگزاری پر برہم ہیں اور گدازقلب و غریب نواز‘ وزیر اعظم کو رونا آ رہا ہے۔
وزیر اعظم برس ہا برس تک اقتدار کے مزے لوٹنے کے بعد جب اپنی عوام دوستی اور انسانی ہمدردی کا اظہار آنسو بہا کر کرتے ہیں تو اس کی تشہیر میڈیا پرہوتی ہے‘ لوگ عش عش کر اٹھتے ہیں اور کارکن اپنے لیڈر کی اس ادا پر صدقے واری جاتے ہیں جبکہ اس ملک میں کروڑوں لوگ ایسے ہیں جو مناسب غذا نہ ملنے پر بیمار پڑیں تو اسپرین کی گولی نہیں خرید سکتے اور وہ اپنے بیمار اور بھوکے بچوں کی حالت زار پرروئیں تو کوئی ان کے آنسو پونچھنے والا نہیں‘ آنسو پونچھنا تودرکنار‘ بے چارے تسلی کے دو بول نہیں سن پاتے۔ مجھے وہ غریب ماں زندگی بھر نہیں بھول سکتی جو اپنے سات آٹھ سال کے بچے کو اقبال ٹائون کے ایک پرائیویٹ کلینک میں لائی‘ ڈاکٹر نے چیک اپ کے بعد کچھ ٹیسٹ لکھے اور سرکاری ہسپتال جانے کو کہا ۔ خاتون نے دوپٹے کی گانٹھ کھول کر دس روپے کا مڑا تڑا نوٹ نکالا اوربے بسی سے کہا پُتر! میرے پاس تو صرف اتنی ہی رقم ہے تم ہی دوائی دید و‘ میں ٹیسٹ کہاں سے کرائوں گی اور ہسپتال پہنچ گئی تو وہاں میری کون سنے گا‘ اتنی دورجانے کے لیے میرے پاس کرائے کے پیسے بھی نہیں‘ رحم دل ڈاکٹر نے دس روپے لیے بغیر دوائی دیدی مگر پھر کہا کہ بی بی ٹیسٹ ضروری ہیں اور سرکاری ہسپتال جانا بھی۔ خاتون چلی گئی تو میں نے پوچھا ڈاکٹر صاحب بچے کو کیا تکلیف ہے؟ بولے ٹی بی ہے جس کا علاج میرے بس میں نہیں۔ایسی لاکھوں مائیں ہسپتال جانے کا کرایہ‘ ڈاکٹر کی فیس اور دوائی کے پیسے نہ ہونے کی وجہ سے اپنے لخت جگر‘ نور نظر کھو دیتی ہیں مگر حکمرانوں کو خبر نہیں۔
جس ملک میں چار کروڑ افراد بھوکے سوتے ہوں اور بیماری سے تنگ آ کر لوگ خودکشی کر لیں۔ مائیں اپنے بچوں کو بھوک سے بلکتا دیکھ کر نہروں میں چھلانگیں لگانے اور باپ پھندا لینے پر مجبور ہوں وہاں لوٹ مار ڈھٹائی سے جاری ہے۔ پبلک اکائونٹس کمیٹی بیت المال سے تین لاکھ جعلی افراد کو وظائف جاری کرنے پر برہم ہے اور پوسٹل سروسز میں گزشتہ سال صرف زکوٰۃ فنڈ سے ایک کروڑ 16لاکھ کی کرپشن کا انکشاف ہو چکا ہے۔ کسی بھی سرکاری ادارے کے بارے میں ‘ معلوم کر لیں اربوں روپے کی خرد برد معمول کی بات ہے مگر کوئی اس لوٹ مار پر قابو پانے کا ارادہ رکھتا ہے نہ اورنج لائن ‘میٹرو اور اس نوعیت کے دوسرے مہنگے اور نمائشی منصوبوں کی جگہ سکولوں اور ہسپتالوں کے لیے وسائل مختص کرنے پر تیار اور نہ پاکستان سے سرمائے کی پرواز کو روکنے کا خواہش مند۔ ملک میں سرمایہ کاری کے لیے رئیل سٹیٹ کا شعبہ آئیڈیل سمجھا جا رہا تھا۔ بیرون ملک پاکستانی یہاں سرمایہ کاری کرنے لگے۔ مگر حالیہ بجٹ میںاسحق ڈار نے یہ دروازہ بند کردیا، اب پاکستانی سرمایہ تیزی سے ان ممالک کا رخ کر رہا ہے جہاں حکمران خاندانوں کے بچے یہ کاروبار کرتے ہیں۔
یہ نہیں کہ پاکستان میں وسائل کی کمی کی وجہ سے تعلیمی اور طبی سہولتوں کا فقدان ہے۔ اورنج ٹرین‘ موٹر وے میٹرو بسوں کے لیے وسائل دستیاب ہیں‘ حکمرانوں کی عیش و عشرت اور بے مقصد بیرونی دوروں کے لیے روپے پیسے کی کمی نہیں اور ان کی خدمت پر مامور بیوروکریسی کی تنخواہوں اور مراعات کے لیے بھی خزانہ بھرا ہے۔ مگر غریب آدمی کو تعلیم و صحت کے لیے فنڈز درکار ہوں تو کمی کا رونا رویا جاتا ہے۔ نجی طبی اور تعلیمی ادارے پھل پھول رہے ہیں مگر سرکاری شعبے کی حالت پتلی ہے‘ اتنی پتلی کہ میاں صاحب کو بھی رونا آ گیا۔ کاش وہ اپنے گریبان میں جھانکتے کہ طبی شعبے کی یہ حالت کن حکمرانوں کی غلط ترجیحات کا نتیجہ ہے اور انہوں نے اب تک اس پر توجہ کیوں نہیں دی ۔
عوام کی طرح ان کے حکمرانوں‘ سیاستدانوں‘ جرنیلوں‘ ججوں ‘ بیورو کریٹس کا جینا مرنا اگر پاکستان میں ہو‘ ان کی اولاد یہاں پڑھے اور بیمار ہونے کی صورت میں یہ پاکستان کے سرکاری‘ ہسپتالوں میں علاج معالجے پر مجبور ہوں تو ملک کے کسی ہسپتال اور طبی مرکز کی حالت وہ نہ ہو ‘جسے دیکھ کر چھوٹے میاں کو غصہ اور بڑے میاں کو رونا آتا ہے۔ چھوٹے میاں غصہ ہسپتال کے عملے خاص طور پر ایم ایس پر نکالتے ہیں اور بڑے میاں اپنے سیاسی مخالفین پر جو انہیں تعمیر و ترقی کے منصوبے مکمل نہیں کرنے دیتے۔حالانکہ آج تک سیاسی مخالفین نے حکومت کی کسی طبی پالیسی پر اعتراض کیا ہے نہ تعلیمی شعبے کے لیے وسائل مختص کرنے پر۔ کسی کو اگر اعتراض ہے تو ان میگا پراجیکٹس پر جو میگا سکینڈلز کو جنم دیتے ہیں۔ ملک کے سرکاری ہسپتالوں اور تعلیمی اداروں کی حالت بہتر بنانے کا مجّرب نسخہ وہی ہے جو سنگا پور کے 'لی کوان یو‘ نے آزمایا۔ وہاں ہر سرکاری ملازم اور عوامی نمائندہ اپنے بچوں کو سرکاری تعلیمی ادارے میں پڑھانے اور اپنا علاج معالجہ سرکاری ہسپتال میں کرانے کا پابند ہے۔ چنانچہ ‘ عالمی معیار کی تعلیمی و طبی سہولتیں دستیاب ہیں۔ لیکن جس ملک میں حکمران سرکاری ہسپتال تو درکنار اپنے ہی قائم کردہ ہسپتالوں میں چیک اپ کرانے سے پرہیز کریں اور پاناما لیکس کا حساب مانگنے پر بیمار پڑ جائیں یا رونا شروع کر دیں وہاں آج غریب کو بہتر تعلیمی و طبی سہولت مل سکتی ہے نہ کل اس کا امکان ہے۔ لوگ پوچھتے ہیں‘ عمران خان تین سال سے سڑکیں ناپ رہا ہے اس سے قوم کو کیا فائدہ؟ مگر کوئی سوچے تو حکمرانوں کی آنکھوں میں آنسو کسی نے پہلے دیکھے تھے، غریبوں پر حکمرانوں کو ترس پہلے کیوں نہیں آیا۔ حکومت میں تو وہ گزشتہ چھتیس سال سے ہیں اور تعلیم و صحت کا شعبہ اسی عرصے میں گراوٹ کا شکارہوا‘ بہتری کی سوچ مگر اسلام آباد کے گھیرائو کے اعلان کے بعد ابھری‘ اسلام آباد کے سکولوں کی حالت بھی پاناما لیکس کے بعد ہی سدھری اور آخرت میں جوابدہی کا احساس بھی انہی دنوں جاگا۔ معلوم نہیں حکمرانوں کے دل میں غریبوں سے ہمدردی کا جذبہ اور خدا کا خوف طویل حکمرانی کے بعد کیوں جاگتا ہے ؎
سنایا جو مچھلی نے احوال ِغم
مگرمچھ بھی آنسو بہانے لگا