تحریر : ڈاکٹرویدپرتاپ ویدک تاریخ اشاعت     25-10-2016

انگریزی اور چوغہ دونوں ہٹیں

آج دو خبریں پڑھ کر مجھے بہت خوشی ہوئی ۔ایک بھوپال اور دوسری دلی میں پڑھی!دلی کی خبر یہ ہے کہ آریس ایس سے جڑی جماعت' شکشا سنسکرتی اتھان نیاس‘نے ہیومن رائٹس کے وزیر پرکاش جاوڑیکر کو انگریزی کے بارے میں کئی ہمت والے مشورے دیے ہیں ۔ اس نیاس کے وزیراتل کوٹھاری نے جاوڑیکر کو لکھا ہے کہ ملک کے ابتدائی تعلیمی اداروں میں سے انگریزی لازمی ہونا ختم کیا جائے ۔بچوں پر انگریزی لادی نہ جائے ۔اونچی کلاسز میں بھی انگریزی ذریعے کوئی بھی مضمون نہ پڑھایا جائے ۔انفارمیشن ٹیکنک ‘میڈیکل اور انجینئرنگ جیسے مضامین کی پڑھائی بھی بھارتی زبانوں میں ہو۔اعلیٰ ٰریسرچ کے لیے خرچ کیے جانے والے کروڑوں روپیہ دیتے وقت یہ دیکھا جائے کہ وہ تحقیق ملک کے لیے کتنی کار آمد ہے۔ اسی طرح نصاب میں من گھڑت باتیں ‘بیرونی عالموںکی پیش گوئیاں اور بھارتی تہذیب کے خلاف جملوں کو بھی نکالا جائے۔جاوڑیکر نے ان مشوروں پر سنجیدگی سے غور کرنے کی یقین دہانی کروائی ہے ۔
اتل کوٹھاری نہایت ہی وطن کی زبان سے محبت کرنے والے ہیں ۔انہیں میں سدا حوصلہ دیتا رہتا ہوں ۔انہوں نے یہ عجیب کام کیا ہے ۔میں انہیں مبارک دیتا ہوں ۔کیونکہ سنگھ ہندی کی بات بہت زور سے کرتا رہا ہے لیکن اسے پتا نہیں کہ ہندی آئے گی کیسے ؟وہ نوکرانی سے مہارانی بنے گی کیسے؟یہ راستہ ڈاکٹر لوہیا نے کھولاتھا ۔انہوں نے کہا تھا ‘انگریزی ہٹائو۔ صرف ہٹائومٹائو نہیں ۔سنگھ ابھی تک ہندی کی لڑائی خالی ہاتھ لڑ رہا تھا ۔ کوٹھاری نے اس کے ہاتھ میں بڑا ہتھیار دے دیا ہے ۔دیکھیں ‘جاوڑیکر کیا کرتے ہیں ۔وہ ٹی وی یا سنیما کے پردے سے اتر کر وزیر کی کرسی پر نہیں بیٹھے ہیں ۔وہ زمینی کارکن رہے ہیں ۔ایک صحافی فیملی کے وارث ہیں ۔وہ ضرور کچھ ہمت دکھائیں گے ۔ 
دوسری خبر آج صبح بھوپال میں پڑھی تھی ۔اس سے پتا چلا کہ مدھیہ پردیش کی یونیورسٹیوں میں اب کانووکیشن پروگرام پر انگریزوں کی غلامی نہیں ہوگی ۔یعنی ڈگری دیتے وقت استاد اور شاگرد اپنے سرپر ٹوپی اور چوغہ نہیں پہنیں گے بلکہ بھارتی پگڑی کرتہ دھوتی یا پاجاما پہنیں گے ۔اعلیٰ تعلیمی شعبہ نے سبھی ‘پرو وائس چانسلرس سے سجھائو مانگے ہیں ۔اس مدعے کو کچھ برس پہلے کانگریس کے وزیر جے رام رمیش نے سرعام اٹھایا تھا۔انہوں نے اسے انگریزوں کی غلامی کا نشان کہا تھا ۔رمیش میرے اچھے دوست ہیں ۔کنڑ زبان کے ہوتے ہوئے بھی وہ ہمیشہ مجھ سے ہندی میں بات کرتے رہتے ہیں ۔رمیش جیسے پڑھے لکھے اور باتہذیب لیڈر ان مدعوں کو اٹھاتے رہیں تو ملک کو تہذیبی آزادی ملنے میں دیر نہیں لگے گی ۔
جین منی کا ہندی پریم 
گزشتہ دوتین ماہ سے مجھے بھوپال کے کئی جین دوستوں کے دعوت نامے آ رہے تھے کہ یہاں دگمبر جین منی ودیا ساگر جی کا پروگرام کر رہے ہیں ۔وہ اپنی تقاریر میں ہندی کا زبردست استعمال کرتے ہیں اور آپ کے نام کا ذکر کرتے ہیں ۔ آپ آئیے ۔دودن پہلے بھوپال کے ہندی ہائوس میں ہمارے پرانے دوست شری کیلاش پنت جی نے ایک محفل کا اہتمام کیا ۔اس موقع پر منی ودیا ساگر جی سے بھی ملاقات ہو گئی ۔ودیا ساگر جی عجیب فقیر ہیں ۔وہ کنڑ زبان بولتے ہیں ۔شاعر ہیں ‘مصنف ہیں ۔ گہرے علامہ ہیں ۔مذہبی ترجمان ہیں ۔وہ فرقہ دگمبر کے منی ہیں لیکن جین سماج کے سبھی فرقوں کے لوگ ان کی جانب اعتماد رکھتے ہیں ۔ان کی زبان کو غیر جین لوگ بھی پاک اقوال کی طرح مانتے ہیں ۔ ان سے ملنے پہلے ہفتہ ہمارے وزیراعظم بھی پہنچے تھے ۔ودیا ساگر سے میری پہلی ملاقات ناگپور کے پاس قائم رام ٹیک میں ہوئی تھی دوڈھائی برس پہلے ۔وہ پندرہ منٹ کی ملاقات ایک ڈیڑھ گھنٹے چلی ۔ مہاراج نے اپنی 'چرچا‘ملتوی کر دی ۔ان دنوں ان کے کسی مرید نے میری 45 سال پرانی ایک بک 'انگریزی ہٹائوکیوں اور کیسے ؟‘انہیں پڑھنے کو دے دی تھی۔پس 
‘پھر کیا تھا ‘مجھے ملک سے کئی جین دوستوں کے فون آنے لگے ۔منی جی آپ سے ملنا چاہتے ہیں ۔رام ٹیک کی وہ ملاقات گہری محبت اور دوستی میں بدل گئی ۔منی جی کی دعا سے اس کتاب کے ساتھ ساتھ میری ایک کتاب اور بھی چھپی ۔یہ کتاب ہے 'میرے خوابوں کی ہندی یونیورسٹی ‘۔سابق سنگھ سربراہ سدرش جی اور میری درخواست پر وزیراعلیٰ شوراج چوہان نے یہ یونیورسٹی قائم کی ہے ۔دونوں کتابوں کی ایک ایک لاکھ کاپیاں شائع ہوئی ہیں بھوپال میں ان کے ہزاروں مریدوں کے ساتھ پہلے ان کے دیدار ہوئے اور پھر تنہائی میں بیٹھ کر ہم دونوں کی چرچا ہوئی۔ میرا مشورہ تھا کہ ہم چار مدعوں پر طاقتور تحریک چلائیں ۔پہلا اپنی زبان ‘دوسرا ‘ویجی ٹیرین تیسرا نشہ بندی اور چوتھا سارک یعنی بھارت کے سولہ پڑوسی ملکوں کی بڑی یونین بنائیں ۔ان کی منظوری اور حمایت مجھے خوشی خوشی ملی۔ان کی ہدایت تھی کہ یہ چاروں کام ہم سب کو ساتھ لے کر کریں ۔پارٹی بازی اورگٹ بندی سے اوپر رہیں ۔منی جی کی رائے تھی کہ ہندی زبان کا مشن پہلے ہندی صوبوںسے شروع کیا جائے ۔مجھے یقین ہے کہ منی جی کی اس خواہش کو جلد ہی عملی جامہ پہنائیں گے ۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved