مدینہ تاریخ اسلام کا عظیم ورق ہے۔ جب حضرت سعد بن ابی وقاص ؓنے ہجرت کا ارادہ کیا تو ان کے چھوٹے بھائی عمیر بھی اپنے بھائی کے ساتھ چھوٹی عمر میں ہی ہجرت کرکے مدینہ چلے گئے۔ ہجرت کے وقت ان کی عمر بمشکل چودہ پندرہ سال تھی۔ الاستیعاب کے مطابق جنگ بدر میں شرکت کا شوق تھا، مگر آنحضورﷺنے منع فرمایا کہ تم بہت چھوٹے ہو۔ جب حضرت سعد نے ان کے جذبۂ جہاد کو دیکھا تو آنحضورﷺسے عرض کیا یارسول اللہ ﷺ! میرے بھائی کو جہاد پر جانے کی اجازت دے دیجیے۔ چنانچہ بدر کے میدان میں شریک ہوئے اور دشمن سے خوب لڑے۔ سولہ سال کی عمر میں شہادت پالی۔ انھیں قریش کے طاقت ور ترین جنگ جو عمرو بن عبدِودّ نے شہید کیا تھا۔ (سیرۃ ابن ہشام، القسم الاول، ص254)
نبی اکرم ﷺنے صحابہؓ کو نماز پڑھنے کا حکم دیا تھا تو آغاز میں کافروں کی اذیت کے خوف سے مسلمان نمازیں چھپ چھپ کر پڑھتے تھے۔ پہاڑوں کی گھاٹیوں میں جا کر نماز پڑھنا بھی صحابہ کرامؓ کا معمول تھا۔ ایک مرتبہ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ پہاڑ کی ایک گھاٹی میں نماز پڑھ رہے تھے، کچھ مشرکین مکہ وہاں آنکلے انھوں نے مسلمانوں اور ان کے دین کو گالیاں دینا شروع کردی۔ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کا بری طرح مذاق اڑایا۔ جب حضرت سعدؓ نماز سے فارغ ہوئے تو ان کافروں کو للکارا۔ اس وقت ان کے ہاتھ میں مرے ہوئے اونٹ کے شانے کی ایک بڑی ہڈی تھی۔ انھوں نے جب ان کافروں پر حملہ کیا تو یہ وہاں سے کھسک گئے تاہم عبداللہ بن خطل لعنتی کے سر پہ انھوںنے ضرب لگائی تو وہ زخمی ہوگیا، مگر ان لوگوں میں ہمت نہیں ہوئی کہ واپس پلٹ کر سعدؓ کا مقابلہ کریں۔ یہ تاریخ اسلام میں کفار کا پہلا خون تھا جو کسی مسلمان کے ہاتھ سے بہایا گیا تھا۔ ۔ جب آنحضور ﷺکو اس واقعہ کا پتا چلا تو آپؐ نے حضرت سعد سے فرمایا کہ اے سعد! اللہ نے ہمیں ہاتھ روکے رکھنے کا حکم دیا ہے۔ پس آیندہ ہاتھ نہ اٹھانا۔ (البدایۃ والنہایۃ، ج۱، طبع دارِ ابن حزم، بیروت، ص483)
نبی اکرم ﷺنے ظالموں کے ظلم کے مقابلے پر ہمیشہ صبر کیا، مگر ان کی خباثتیں حد سے بڑھ گئیں اور ایک مرتبہ عقبہ بن ابی معیط نے مرے ہوئے اونٹ کی اوجھڑی لا کر آپؐ کی پشت مبارک پر ڈال دی جبکہ آپ بیت اللہ میں حالت سجدہ میں تھے۔ حضرت فاطمہؓ نے آکر اوجھڑی ہٹائی اور آنحضورﷺکو گھر لے جاکر آپ کے کپڑے دھوئے۔ اس موقع پر آنحضورﷺنے ان ظالموں کے بارے میں اللہ سے بدعا کی: اللہم علیک بہذا الملاء من قریش۔ یعنی اے اللہ قریش کے ان سرداروں کو اپنی گرفت میں لے لے۔ پھر آپؐ نے چھ اشرار کے نام لے کر بدعا کی۔ یہ سب کے سب بدر کے میدان تہہ تیغ ہوگئے تھے۔ امام احمد نے عمروبن میمون عن کے حوالے سے لکھا ہے کہ نبی اکرم ﷺنے اس ایک دن کے علاوہ اپنے دشمنوں کے لیے کبھی بھی بدعا نہیں کی۔ (البدایۃ والنہایۃ، ج۱، طبع دارِ ابن حزم، بیروت، ص482،)
حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ قبیلہ بنوہذیل میں سے تھے۔ مکے میں چھوٹی عمر میں آئے۔ وہ یتیم اور غریب تھے، مگر اتنے خوددار کہ کبھی کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلاتے تھے۔ عقبہ بن ابی معیط کی بکریاں چراتے اور جو کچھ ملتا اس سے اپنا اور اپنی والدہ ام عبدبنت عبدودّکا گزاراچلاتے۔ ان کے قبول کے اسلام کا واقعہ مورخین نے یوں بیان کیا ہے کہ یہ مکہ کے باہر ایک وادی میں بکریاں چرایا کرتے تھے۔ رسول اللہ ﷺادھر سے گزرے۔ ابوبکرصدیقؓ بھی آپ کے ساتھ تھے۔ بھوک اور پیاس محسوس ہورہی تھی۔ جب بکریوں کا ریوڑ دیکھا تو نوعمر چرواہے سے کہا کہ کچھ دودھ ہمیں درکار ہے، اس کی قیمت ہم ادا کریں گے۔ لڑکے نے کہا یہ بکریاں میری نہیں، میں تو مزدوری کرتا ہوں۔ مالک کی اجازت کے بغیر آپ کو دودھ کیسے دوں؟ آنحضورﷺنے فرمایا: اچھا اگر کوئی بکری ایسی ہو جو دودھ نہ دیتی ہو تو وہ ہمیں بتاؤ۔ لڑکے نے ہنستے ہوئے کہا: وہ فلاں بکری ایسی ہے جو دودھ نہیں دیتی۔ آپؐ نے فرمایا: کیا ہم اس کا دودھ نکال سکتے ہیں؟ لڑکے نے کہا کہ اس کا دودھ نکالنا چاہتے ہیں تو نکال لیں۔
آنحضور ﷺکے معجزات میں سے یہ بھی ایک معجزہ ہے۔ آپ نے بکری کے تھنوں پر اپنا دست مبارک پھیرا تو ان کے اندر دودھ اتر آیا۔ لڑکے نے یہ منظر دیکھا تو حیران رہ گیا۔ پھر بڑے شوق کے ساتھ کہا: علمنی مما علمک اللہ۔ یعنی آپ کے پاس جو علم ہے اس میں سے مجھے بھی کچھ عطا فرمائیے۔ آپؐ نے فرمایا: انک لغلام معلَّمٌ۔ یعنی تم تو پہلے ہی تعلیم یافتہ نوجوان ہو۔ اسی موقع پر حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے آنحضورﷺکی دعوت پر اسلام قبول کرلیا۔ پھر بکریوں کا یہ چرواہا بکریوں کو ان کے مالک کے پاس چھوڑ کر آنحضورﷺکی صحبت میں آگیا۔ سبحان اللہ۔ یہی چرواہا امت مسلمہ کا بہت بڑا محسن بنا جو صحابہ کے درمیان قرآن وسنت پر ایک سند کی حیثیت رکھتا تھا۔ انھی کے بارے میں آپؐ نے فرمایا کہ جو قرآن پاک جبریلؑ کے لہجے میں سننا چاہے وہ عبداللہ بن مسعودؓ کی تلاوت سن لے۔
حضرت طلحہ بن عبیداللہؓ آغازِ اسلام میں بُصریٰ کی طرف تجارت کے لیے گئے۔ وہاں انھوں نے دیگر لوگوں کے ساتھ ایک عبادت گاہ میں قیام کیا۔ عبادت خانے کے راہب نے ان لوگوں سے پوچھا اے اہلِ عرب! کیا تمھارے درمیان اہلِ حرم میں سے بھی کوئی شخص موجود ہے؟ تو حضرت طلحہؓ نے کہا ''جی ہاں میں خود اہلِ حرم میں سے ہوں۔‘‘ اس نے پوچھا کیا تمھارے درمیان ایک شخص احمد(ﷺ) نے نبوت کا اعلان کردیا ہے؟ آنحضورﷺکا نام اگرچہ احمد بھی تھا، مگر آپ زیادہ معروف محمدؐ ہی کے نام سے تھے۔ اس لیے طلحہؓ نے پوچھا: ''کون احمد؟‘‘ راہب نے وضاحت کی کہ احمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب۔ اس پر طلحہ سمجھ گئے کہ اس کی مراد محمدبن عبداللہ ہیں۔ جب انھوں نے کہا کہ ہاں میں اسے جانتا ہوں تو وہ راہب بولا ''اسی مہینے میں وہ خدا کی طرف سے مبعوث ہونے والے تھے۔ وہ خدا کے آخری نبی ہیں۔ مکے سے وہ سرسبز وشاداب کھجوروں کی سرزمین کی طرف ہجرت کریں گے اور میں سمجھتا ہوں کہ تم ان پر ایمان لانے والے پہلے لوگوں میں شامل ہوگے۔ ‘‘
طلحہ جب واپس مکہ لوٹے تو اپنے دوست ابوبکرؓ سے ملے اور ان سے اس بات کا تذکرہ کیا۔ ابوبکرؓ نے کہا کہ ہاں محمدؐ بن عبداللہ نے نبوت کا اعلان کیا ہے اور میں نے ان کی رسالت کی تصدیق کی ہے۔ اس پر طلحہ بن عبیدہ اللہؓ بھی حضرت ابوبکرؓ کے ساتھ آنحضور ﷺکی خدمت میں حاضر ہوئے اور کلمہ شہادت پڑھ کر اسلام میں داخل ہوگئے۔ حضرت ابوبکرصدیقؓ کی دعوت وتبلیغ کا کام جاری رہا۔ اوپر بیان کردہ صحابہ کے بعد وہ عثمان بن مظعونؓ، ابوعبیدا بن الجرّاحؓ (جن کا پورا نام عامر بن عبداللہ بن جراح ہے)، سعید بن زید بن عمرو بن نفیلؓ، ابوسلمہ بن عبدالاسدؓ اور ارقم بن ابی ارقمؓ جیسے عظیم نوجوانوں کے پاس گئے۔ یہ سب ان کے معتمد ساتھی تھے۔ ان سب کو انھوں نے آنحضورﷺکے اعلانِ نبوت اور ان پر اپنے ایمان لانے کی خبر دی تو وہ بھی سب کے سب مسلمان ہوگئے۔ یہ مکہ کے بہت قیمتی ہیرے تھے، جو اسلام کے دامن میں آگئے۔ ان کے کارناموں سے تاریخ اسلام میں قیامت تک روشنی پھیلتی رہے گی۔ (البدایۃ والنہایۃ، ج۱، طبع دارِ ابن حزم، بیروت، ص474)
حضرت عثمان بن مظعونؓ جب اسلام میں داخل ہوئے تو ان کے بھائی قدامہ بن مظعونؓ اور عبداللہ بن مظعون بھی حلقۂ بگوشِ اسلام ہوگئے۔ حضرت عثمان بن مظعونؓ مہاجرین صحابہ میں سے پہلے شخص ہیں جو مدینہ منورہ میں فوت ہوئے۔ ان کی طبعی وفات میدان بدر سے واپسی پر ہوئی۔ یہ پہلے مہاجر صحابی ہیں جنھیں جنت البقیع میں دفن کیا گیا۔ یہ صاحبِ ہجرتین بھی ہیں۔ حضرت عثمان بن مظعون کی ایک اور خوبی یہ ہے کہ وہ ایک بڑے خاندان میں سے ہونے کے باوجود زمانۂ جاہلیت میں بھی کبھی شراب کے قریب نہیں پھٹکے تھے۔ ان کا قول ابن ہشام نے نقل کیا ہے کہ وہ کسی کی طرف سے شراب کی دعوت پر فرمایا کرتے تھے: ''لا اشرب شرابا یذہب عقلی ویضحک بی من ہو ادنی منی۔ یعنی میں ایسا مشروب بالکل نہیں پیئوں گا جس سے میری عقل ماؤف ہوجائے اورجو مجھ سے کم تر لوگ ہیں وہ بھی میرے اوپر ہنسنے لگیں۔‘‘ (سیرۃ ابن ہشام، القسم الاول، ص253)