آج سے پہلے تمام تر نظاموں میں بنیادی مسئلہ قلت کا تھا۔ غلام داری، جاگیر داری وغیرہ جیسے ماضی کے ان نظاموں میں اتنی پیداوار اور گنجائش نہیں تھی کہ سماج کی اکثریت اس سے مستفید ہو سکے۔سرمایہ دارانہ نظام میں یہ تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ تمام انسانوں کی ضروریات پورا کرنے اور انہیں آسائش فراہم کرنے کے وسائل اور صلاحیت موجود ہوتے ہوئے بھی سماج کی اکثریت محرومی، بھوک، افلاس اور بیماری کی زندگی گزار رہی ہے جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پیداوار کا بنیادی مقصد منافع ہے۔
زائد پیداوار کے بحرانات سرمایہ داری کے ارتقا کا ناگزیر نتیجہ رہے ہیں۔ آج کے عہد میں زائد پیداوار کا بحران 'زائد پیداواری صلاحیت‘) (Over Capacity کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ سرمایہ دارانہ معیشت عالمی سطح پر بالعموم زائد پیداواری صلاحیت سے دوچارہیں یعنی جتنی پیداواری صلاحیت موجود ہے اسے سرمایہ داری کے حدود و قیود میں منافع بخش انداز میں بروئے کار نہیں لایا جا سکتا۔جب پہلے سے موجود پیداواری صلاحیت مکمل طور پر استعمال نہیں ہو رہی ہے تو ایسے میں نئی سرمایہ کاری کا سوال پیدا نہیں ہوتا اور نئی سرمایہ کاری کے بغیر نیا روزگار پیدا ہو سکتا ہے نہ ہی منڈی وسعت اختیار کر سکتی ہے اور نہ ہی معیشتوں کے گروتھ ریٹ آگے بڑھ سکتے ہیں۔سرمایہ داری کے پالیسی ساز مسلسل اس مسئلے کی طرف خود اشارہ کر رہے ہیں لیکن درست تشخیص کے باوجود کوئی حل پیش کرنے سے قاصر ہیں کیونکہ یہ سرمایہ داری کا نامیاتی تضاد ہے اور موجودہ طرز پیداوار کی حدود میں حل نہیں ہو سکتا۔ زائد پیداوار کا سب سے زیادہ ارتکاز چین میں ہے اور چین ایک وقت میں عالمی سرمایہ داری کو آگے بڑھانے والے عامل سے جدلیاتی طور پر اپنے الٹ میں تبدیل ہو کر ایک دیوہیکل بوجھ میں تبدیل ہو چکا ہے اور دنیا بھر کی معیشت کو اپنے ساتھ بحران میں ڈبو رہا ہے۔
5 جون کو امریکہ کے سیکرٹری خزانہ 'جیک لیو‘ نے واضح الفاظ میں تنبیہ کرتے ہوئے چینی معیشت کی زائد پیداواری صلاحیت کی طرف توجہ مبذول کروائی۔ دورہ چین کے دوران جیک لیو کا کہنا تھا: ''چین کی زائد پیداواری صلاحیت معیشت کو 'زنگ لگا کر کھوکھلا کر رہی ہے‘ ...زائد پیداوار صرف چین کا داخلی معاملہ نہیں ہے بلکہ اس کے سٹیل، ایلومینیم وغیرہ کی عالمی منڈیوں پر بے تحاشا اثرات ہیں اور ہم زائد پیداواری صلاحیت کی وجہ سے عالمی منڈیوں میں بگاڑ دیکھ رہے ہیں‘‘۔ چینی معیشت میں کس قدر زائد پیداواری صلاحیت موجود ہے اس کا اندازہ یہاں سے ہی لگایا جا سکتا ہے کہ چین میں سٹیل کی صنعت کی زائد صلاحیت پورے جاپان کی سٹیل کی کل پیداواری صلاحیت سے بھی زیادہ ہے۔ اکانومسٹ کے مطابق ''2004ء سے 2014ء تک عالمی سطح پر سٹیل کی پیداوار میں 57 فیصد اضافہ ہوا اور اس اضافے میں 91 فیصد حصہ صرف چین کی سٹیل ملوں کا تھا‘‘۔ اکانومسٹ مزید لکھتا ہے کہ ''ایک کے بعد دوسری صنعت میں، کاغذ سے لے کر بحری جہازوں اور شیشے تک، یہی صورتحال ہے۔ سکڑتی ہوئی داخلی طلب (Demand) کے سامنے چین کی رسد (Supply) انتہائی زیادہ ہے... 2008ء کے بعد چین کی زائد صلاحیت میں اضافہ ہوا ہے۔چین میں پیداوار اور پیداواری صلاحیت کے درمیان فرق 2007ء میں مجموعی طور پر صفر تھا۔ 2015ء میں یہ 13.1 فیصد تک پہنچ چکا ہے اور بھاری صنعت میں اس سے بھی کہیں زیادہ ہے‘‘۔فنانشل ٹائمز کے مطابق ''چین کی فیکٹریاں اتنا سٹیل، سیمنٹ اور دوسری بھاری صنعتی اشیا پیدا کر رہی ہیں کہ سست روی کا شکار داخلی معیشت انہیں کھپا نہیں سکتی۔ اس کا نتیجہ سستی برآمدات کا سیلاب ہے جو برطانیہ سے لے کر امریکہ تک فیکٹریاں بند اور روزگار ختم کر رہا ہے‘‘۔اس حوالے سے چین کو سخت تنقید کا سامنا ہے اور مغربی سرمایہ دار مسلسل دبائو ڈال رہے ہیں کہ چین زائد پیداواری صلاحیت کو ختم کرنے کے لئے ٹھوس اقدامات کرے جو ان کی صنعت کو بھی اپنے ساتھ ڈبو رہی ہے۔ لیکن کیا ایسا ممکن ہے؟ اس سوال کا جواب بڑی دیانتداری سے چین کے وزیر خزانہ 'لو جیوائی‘ نے خود ہی دے ڈالا کہ ''حقیقت یہ ہے کہ چین کوئی مرکزی منصوبہ بندی پر مبنی معیشت نہیں ہے اور ہمارے پاس (زائد پیداواری صلاحیت میں کمی کا) ایسا کوئی منصوبہ نافذ کرنے کا کوئی طریقہ نہیں ہے۔ چین میں سٹیل کی صنعت کا 50 فیصد نجی سیکٹر پر مبنی ہے (اور ہم اس بارے میں کچھ نہیں کر سکتے)‘‘۔ دوسرے الفاظ میں چین کے وزیر خزانہ نے اعتراف کیا کہ سرمایہ داری کے تحت اس مسئلے کا حل موجود نہیں ہے۔
یہ زائد پیداواری صلاحیت درحقیقت قرضوں کے ذریعے مصنوعی بنیادوں پر منڈی کے پھیلائو کے اس عمل کا ناگزیر نتیجہ ہے جس کے ذریعے گزشتہ کئی دہائیوں سے سرمایہ داری کو چلایا جاتا رہا ہے۔اسی عرصے میں چین نے 'عالمی ورکشاپ‘ کا درجہ اختیار کیا اور دنیا بھر سے سستی محنت اور سستی پیداوار کے تعاقب میں سرمائے نے چین کا رخ کیا۔جب تک ان کھوکھلی بنیادوں پر معیشت چل اور آگے بڑھ رہی تھی تب تک نہ صرف پیداواری صلاحیت کم و بیش پوری طرح منافع بخش طور پر استعمال ہو رہی تھی بلکہ اس میں اضافہ ہو رہا تھا۔ اب جبکہ قرضوں کا بلبلہ عالمی پیمانے پر پھٹا ہے اور بحران کے تحت ہر جگہ منڈی سکڑ رہی ہے لیکن پیداواری صلاحیت تو بدستور موجود ہے۔محدود منڈی کا سامنا لامحدود پیداواری قوتوں سے ہے جنہیں سرمایہ داری نے خود تخلیق کیا ہے لیکن جنہیں یہ نظام انسانیت کی ترقی اور بہتری کے لئے بروئے کار لانے سے قاصر ہے۔
2008ء کے بعد چین میں زائد پیداواری صلاحیت میں اضافے کی ایک اور وجہ عالمی منڈی میں سکڑائو کی تلافی کرنے کے لئے شروع کیا گیا ریاستی سرمایہ کاری پر مبنی مذکورہ بالا Stimulus Package بھی تھا جس نے وقتی طور پر بحران کو ٹال تو دیا اور 2010ء میں عالمی سطح پر بحران کے باوجود چین کا گروتھ ریٹ 12 فیصد سے بھی تجاوز کر گیا لیکن اس عمل نے پیداواری صلاحیت میں مزید اضافہ کر کے آنے والے عرصے میں بحران کو زیادہ گہرا کر دیا۔ سرمایہ داری بحران کو جتنا ٹالتی ہے وہ جب نمودار ہوتا ہے تو اتنا ہی گہرا اور پیچیدہ بھی ہوجاتا ہے۔یاد رہے کہ 2009ء سے 2011ء تک چین کی دیوہیکل ریاستی سرمایہ کاری کی وجہ سے عالمی معیشت کی گروتھ کا نصف چینی معیشت کا مرہون منت تھا۔ چین کے وزیر خزانہ کے مطابق ''اس وقت دنیا ہماری بڑی مشکور تھی کہ ہم عالمی شرح نمو میں اضافہ کر رہے ہیں۔ اب ساری دنیا چین کی زائد صلاحیت کے مسئلے پر انگلیاں اٹھا رہی ہے کہ یہ پوری دنیا کو اپنے ساتھ (بحران میں) ڈبو رہا ہے‘‘۔
زائد پیداواری صلاحیت صرف چینی معیشت کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ مختلف سطحوں پر تمام ترقی یافتہ معیشتیں اس سے دوچار ہیں۔ امریکہ میں پیداواری صلاحیت کا استعمال 2016ء میں 75 فیصد ہے جبکہ بحران سے قبل یہ 82 فیصد تک تھا۔1960ء اور 70ء کی دہائیوں میں یہ شرح امریکہ میں 90 فیصد تک رہی ہے۔ جولائی میں G-20 کے اجلاس کے اعلامیہ کے مطابق ''سٹیل اور دوسری صنعتوں میں زائد (پیداواری) صلاحیت ایک عالمگیر مسئلہ ہے‘‘۔ تیل کی قیمتوں میں حالیہ کمی بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
صرف موجودہ پیداواری صلاحیت کو ہی مکمل طور پر استعمال اور منصوبہ بندی کے تحت منظم کر کے دنیا سے غربت، جہالت اور بیماری کا خاتمہ ، بلکہ نسل انسانی کو کہیں بلند تر معیارر زندگی دیا جا سکتا ہے۔ لیکن سرمایہ داری کی حدود میں رہتے ہوئے نا ممکن ہے۔ سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے اس نظام کو اکھاڑ پھینک کر محنت کش طبقے کی اجتماعی ملکیت اور جمہوری انتظام کے تحت ہی یہ بے پناہ پیداواری صلاحیت انسانیت کی فلاح کے لیے استعمال ہو سکتی ہے۔