آواز کی دنیا سے متعلق ٹیکنالوجی گزشتہ ساٹھ ستر برسوں کے دوران میں اس قدر ترقی کر چکی ہے کہ برصغیر میں ریڈیو کے شروع کے دورکی ٹیکنالوجی کا ذکر کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ بہت ہی قدیم زمانے کا ذکر ہورہا ہے۔ اس ضمن میں صوتی اثرات کے شعبے کا ذکر مناسب رہے گا۔ ریڈیو کے ڈرامہ سیکشن کا ایک حصہ صوتی اثرات سے متعلق ہوتا ہے اور شروع کے دورمیں جب ڈرامے براہ راست نشر ہوتے تھے یعنی ریکارڈنگ وغیرہ نہیں ہوتی تھی تو ڈراموں میں صوتی اثرات ایک اہم کام ہوتا تھا۔ ریڈیو میں ہر سٹیشن پر یا کم ازکم بڑے سٹیشنوں پر باقاعدہ ایک ملازم ہوتا تھا جسے Sound Effects Man کہتے تھے۔ جس کے پاس بڑے سائز کے گول ریکارڈوں پر صوتی اثرات ہوتے تھے۔ صوتی اثرات کے یہ سیٹ بی بی سی کے تیار کردہ ہوتے تھے جو آل انڈیا ریڈیو اور پھر ریڈیو پاکستان میںاستعمال ہوتے تھے۔ ان میں عمومی طور پر استعمال ہونے والے تمام صوتی اثرات ہوتے تھے جیسے سمندر کی لہروں کا شور، طوفان، ہوائی جہاز، جنگ، بندوق، جانوروں کی آوازیں وغیرہ وغیرہ لیکن پھر بھی اکثر اوقات ڈراموں کی مخصوص ضروریات کے پیش نظر صوتی اثرات مقامی طور پر ریکارڈ بھی کرنے پڑتے تھے۔
ہمارے ایک سینئر آفیسر ہوتے تھے شمس الدین بٹ۔ بطور پروڈیوسر بنیادی تربیت کا کورس میں نے انہی کی نگرانی میں مکمل کیا تھا۔ کراچی ریڈیو کے حوالے سے پرانے لوگوں کو سٹوڈیو نمبر9 کے ڈرامے ممکن ہے اب بھی یاد ہوں۔ اس سلسلے کا آغاز بٹ صاحب نے کیا تھا۔ بٹ صاحب امریکہ سے براڈ کاسٹنگ میں ایم اے کرکے آئے تھے۔ صوتی اثرات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے بٹ صاحب نے ہمیں بتایا کہ جب وہ معروف جاسوسی ناول نگار Arthur Conan Dryle کا ڈرامہ Hound of the Baskerville اردو میں پیش کر رہے تھے تو مسئلہ ہوگیا کہ ڈرامے میںجس خوفناک کتے کا ذکر تھا اس کی آواز کہاں سے لائیں۔ بٹ صاحب کے بقول بہت سے لوگوں کے پالتو کتے دیکھے ان کی آوازیں سنیں مگر بات نہیں بن رہی تھی۔ آخر ایک فوجی کے پاس انہیں ایک ایسا کتا ملا جس کی آواز سن کر خوف آتا تھا۔ لہٰذا وہ آواز ریکارڈ کرکے ڈرامہ پیش کیا گیا۔
سٹوڈیو نمبر9 ڈراموں کے اس سلسلے کو بعد ازاں آغا ناصر نے کافی ترقی دی۔ پھر رضی اختر شوق بھی سٹوڈیو نمبر9 کے ڈراموں کے پروڈیوسرز رہے۔ میں خود بھی کراچی میں اپنی پوسٹنگ کے دوران سٹوڈیو نمبر9 کے ڈراموں کا کچھ عرصے تک پروڈیوسر رہا تھا۔ وہاں صوتی اثرات کا ذمہ جس شخص کے پاس تھا وہ تھے لالہ رزاق۔ صوتی اثرات لالہ رزاق کا اوڑھنا بچھونا تھے۔ تمام ریکارڈ انتہائی سلیقے سے سنبھال کے رکھتے تھے۔ پس منظر موسیقی کا بھی ایک خزانہ ان کے پاس تھا۔ ڈرامے کی ریہرسل میں ساتھ بیٹھ کر جہاں جہاں جوجوصوتی اثر چاہیے وہ لکھتے جاتے تھے اوربراہ راست ڈرامہ نشر ہوتے وقت جس کو Live کہتے ہیں اس مہارت سے صوتی اثرات اورپس منظر موسیقی شامل کرتے جاتے تھے کہ آرٹسٹ غلطی بھی کرجاتے مگر لالہ رزاق صورت حال کو سنبھال لیتے تھے۔
کراچی ریڈیو پر بہت سے مشہور و معروف لوگ ڈرامہ سیکشن سے منسلک رہے مگر ان سب کے ساتھ صوتی اثرات کے لیے لالہ رزاق میں ہوتے تھے۔ جن دنوں جشن تمثیل ہوتا تھا ان دنوں میں لالہ رزاق کی راتوں کی نیند حرام ہو جاتی تھی۔ اتنے ڈرامے اور صوتی اثرات کے لیے وہ تنہا۔ بہرحال عمررسیدہ ہونے کے باوجود بھی ان کو زیادہ کام کی شکایت کرتے نہیں سنا۔
صوتی اثرات اور پس نظر موسیقی Live ڈرامے میں بہت مشکل کام ہوتا ہے۔ ایک ریکارڈ پر پس منظر موسیقی چل رہی ہے۔ ساتھ ہی دروازہ کھلنے کی آواز‘ پھر دروازہ بند ہونے کی آواز‘ چند مکالموںکے بعد گولی چلنے کی آواز‘ پھر ایمبولینس آنے کی آواز۔ ساتھ ہی پس منظر موسیقی بھی بدل رہی ہے۔ یہ سب کام لالہ رزاق اس طرح کرتے تھے جیسے انتہائی معمولی کام ہے۔جب کبھی چھٹی پر چلے جاتے تھے تو پھرجس کے ذمے یہ کام آتا تھا اس کو دیکھ کر معلوم ہوتا تھا کہ صوتی اثرات دنیا کا کس قدر مشکل کام ہے۔ لالہ رزاق سے ڈرامہ سیکشن سے میرا بھی بہت گہرا تعلق قائم ہوگیا تھا۔
میں جب کراچی سے لاہور ٹرانسفر ہوا تو لاہور آ کر مجھے شبہ تھا کہ شاید یہاں لالہ رزاق جیسا ماہر صوتی اثرات شاید نہ مل پائے۔ تاہم صوتی اثرات کے حوالے سے جس دوسری شخصیت کا میں ذکر کروں گا وہ لاہور ریڈیو کے الطاف الرحمن تھے۔ یہ بھی اپنے فن میں ماہر تھے۔ لہٰذا الطاف الرحمن کمے ساتھ بھی میرا لالہ رزاق جیسا تعلق قائم ہو گیا۔ حالانکہ لاہور سٹیشن پر میں کوئی زیادہ عرصہ ڈرامہ پروڈیوسر نہیں رہا تھا۔ میں زیادہ تر حالات حاضرہ کے پروگراموں کا پروڈیوسر رہا تھا لیکن کبھی فیچر بنانا ہو تو صوتی اثرات کے لیے پھر بھی الطاف الرحمن کے پاس ہی جانا ہوتا تھا۔
الطاف الرحمن بھی لالہ رزاق کی طرح اپنے صوتی اثرات کے ریکارڈوں اور پس منظر موسیقی کی ٹیپوں اور ریکارڈوں کی اس طرح حفاظت کرتا تھا جیسے سانپ خزانے پر بیٹھا ہے۔ سچی بات ہے کہ اگر لالہ رزاق اور الطاف جیسے لوگ اس طرح حفاظت نہ کرتے تو ریڈیو سٹیشنوں پر صوتی اثرات کے ریکارڈ ہی معدوم ہو جانے تھے۔ پروڈیوسروں کی عادت ہوتی ہے کہ جب کسی ریکارڈ کی ضرورت ہو تو خوشامد تک پر اتر آتے ہیں لیکن بعد میں خود سے واپس نہ کرنے کی قسم کھائی ہوتی ہے۔الطاف الرحمن چونکہ TV آرٹسٹ بھی تھا۔لہٰذا اس کی صوتی اثرات کی مہارت سے بعض اوقات ٹی وی والے بھی فائدہ اٹھاتے تھے۔ ریڈیو میں تو صوتی اثرات کے شعبے میں الطاف حسین نے بھی لالہ رزاق کی طرح جھنڈے گاڑ رکھے تھے۔
ایک مرتبہ میں23 مارچ کے لیے خصوصی فیچر تیار کر رہا تھا جو 23 مارچ 1940ء کے منٹو پارک لاہور پر ہونے والے مسلم لیگ کے جلسے پر ایک تصوراتی رننگ کمنٹری کی شکل میں تھا۔ اس فیچر کے لیے مجھے آل انڈیا ریڈیو کے زمانے کے ریکارڈوں میں سے اس جلسے میں بابو فیروز دین کی آواز میں ایک نعرہ مل گیا جس کا متن تھا۔ نعرہ تکبیر‘ اللہ اکبر‘قائداعظم زندہ باد‘اللہ اکبر اور زندہ باد ہزاروں لوگوں کی آواز میں تھا جبکہ نعرہ تکبیر/ اور پھرقائداعظم‘ یہ بابو فیروز دین کے آواز میں تھے۔ کوئی ایک منٹ سے بھی کم کی ریکارڈنگ تھی جسے الطاف الرحمن نے اپنے ہنر سے اتنی طوالت دی کہ ایک گھنٹے کے فیچر میں ہم نے ان نعروں کوبھرپور انداز میںاستعمال کیا اور سامعین کو ایسامحسوس ہوتا تھا کہ وہ مارچ 1940 کے جلسے کا واقعتاً آنکھوں دیکھا حال سن رہے ہیں۔
صوتی اثرات سے متعلق ایک تیسری اہم شخصیت جس سے میرا تعلق رہا وہ جواہر کلسی تھے۔ جواہر کلسی کی شہرت آل انڈیا ریڈیو دہلی کے ماہر صوتی اثرات کی تھی مگر میری ان سے ملاقات واشنگٹن میں ہوئی۔ میں 1984 میں وہاں وائس آف امریکہ کی اردو سروس میں ملازم تھا جواہر کلسی وہاں پروڈیوسر تھے۔ زیادہ تر ہندی سروس کا کام کرتے تھے لیکن اگرہمیں ضرورت پڑے تو انکار نہیں کرتے تھے۔ جواہر کلسی واشنگٹن میں صوتی اثرات کا کام تو نہیں کرتے تھے مگر وہ آل انڈیا ریڈیو دہلی میں اپنے کام کے بارے میں جب گفتگو کرتے تو مجھے لالہ رزاق اور الطاف الرحمن یاد آ جاتے۔ میں جب جواہر کلسی کو بتاتا کہ لالہ رزاق اور الطاف الرحمن کس طرح صوتی اثرات کے ریکارڈوں اور پس منظر موسیقی کا استعمال کرتے تھے تو وہ ہنستا اور کہتا کہ یہ تو وہی کچھ ہے جو وہ خود کرتا رہا ہے۔ ریکارڈوں کی حفاظت کے بارے میںجواہر کلسی کا کہنا تھا کہ اگر ان کی سختی سے حفاظت نہ کی جائے تو یہ خزانہ لٹ جاتا ہے۔ جواہر کلسی کے دہلی میں جو دو تین ریکارڈ گم ہوئے تھے اس کو واشنگٹن میں بھی یاد تھا اور سخت افسوس تھا کیونکہ جس افسر پر اس کوشبہ تھا کہ اس نے گم کیے ہیں وہ کافی بڑا افسر تھا جس کا کچھ بگاڑا نہیں جا سکتا تھا۔ جب میں واشنگٹن میں تھا توصوتی اثرات کے شعبے میں ٹیکنالوجی کافی جدید ہو چکی تھی مگر کلسی صاحب کہتے تھے کہ اصل نعرہ تو پرانے طریقے ہی سے صوتی اثرات دینے ہے۔
اب تو ٹیکنالوجی اور بھی جدید ہو چکی ہے۔ سافٹ ویئر کے ذریعے ایڈیٹنگ ہوتی ہے۔ Adobe,Sound Forge، پتہ نہیں کیا کیا کچھ ہے۔ لیکن جو لطف لالہ رزاق اور الطاف الرحمن کے ساتھ مل کر ڈرامہ پیش کرنے میں آتا تھا وہ جدید طریقے کی ایڈیٹنگ کے ذریعے ڈرامہ پیش کرنے میں آنا محال ہے۔ ٹیکنالوجی بہت تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے۔ ممکن ہے بیس تیس برس بعد آج کے سافٹ ویئر کی وہی حالت ہو جائے جو لالہ رزاق، الطاف الرحمن اور جواہر کلسی کے فن کی ہو چکی ہے۔