تحریر : ارشاد احمد عارف تاریخ اشاعت     27-10-2016

مشترکہ کامیابی اورناکامی

بیس بائیس سال عمر کے کڑیل جوانوں کی شہادت کا دکھ وہ مائیں جانتی ہیں جنہوں نے گرمی‘ سردی اورغربت و تنگدستی میں انہیں پال پوس کرپولیس ٹریننگ کالج بھیجا اور تربیت مکمل ہونے کے بعد یہ آس لگائے بیٹھی تھیں کہ اب ان کے لخت جگر‘ نور نظر پولیس کی وردی پہن کر گائوں‘ قصبے اور محلے میں ان کا سر فخر سے بلند اور رزق حلال سے ان کی زندگی کوآسودہ کریں گے، عمر بھر کی ریاضت کا بدلہ چکائیں گے مگر ع
رہی دل کی دل ہی میں حسرتیں کہ نشاں قضا نے مٹا دیا
بلا شبہ شہید ہیں‘ بے قصور مارے گئے اور ملک و قوم کے دشمنوں کے انتقام کا نشانہ بنے ۔مگر مائوں اور بہنوں نے انہیں ٹریننگ کالج میں یہ سوچ کر نہیں بھیجا تھا کہ وہاں کمروں میں لیٹے لیٹے کسی سماج دشمن‘ جرائم پیشہ اور باغی کا مقابلہ کیے بغیر موت کی وادی میں اُتر جائیں۔ شہادت‘ شہادت کا شورانہیں اور ان کے دیگراہل وطن کو تحفظ فراہم کرنے کے ذمہ دار اداروں اور افراد کی نااہلی‘ سنگدلی اور غلط حکمت عملی پر پردہ نہیں ڈال سکتا۔ تین بدبختوں نے قوم کے ان گبھرو جوانوں کو بے خبری میں بھون ڈالا۔ 65 خاندانوں کے لیے یہ عمر بھر کا روگ ہے اور ان کی مائوں بہنوں کے لیے ناقابل برداشت صدمہ‘ جنہیں صبر کی تلقین کرنے سے بھی آدمی شرماتا ہے۔ اگر یہ نوجوان دہشت گردوں‘ باغیوں‘ علیحدگی پسندوں اور ''را‘‘ کے ایجنٹوں سے لڑتے ہوئے شہید اورزخمی ہوتے تو کوئی بات بھی تھی‘ یہ تو موجودہ سنگدل ‘ عوام دشمن اور غریب مار نظام کی بے حسی‘ لاپروائی بے تدبیری اور شقی القلبی کی بھینٹ چڑھے۔
دہشت گردوں کے خلاف جنگ ڈیڑھ عشرے سے جاری ہے۔ بھارت روز اوّل سے دشمن ہے‘ جذبہ انتقام سے مغلوب اور مٹانے کے عزم پر کاربند۔ چین سے ہمارے تعلقات‘ پاک چین اقتصادی راہداری ‘اسلامی تشخص ‘ ایٹمی پروگرام اور افغانستان میں بھارتی کردار میں رکاوٹ امریکہ کو پسند نہیں اور افغانستان ظاہر شاہ کے دور سے پاکستان کے خلاف سازشوں کا اڈہ ہے۔ ہماری میزبانی سے طویل عرصہ تک لطف اندوز ہونے والے مجاہدین کی حکومت قائم ہوئی تو پھر بھی کابل نامہربان رہا اورکرزئی کی طرح اشرف غنی دور میں بھی۔ مگر ہم نے اندرونی اور بیرونی دشمنوں کی سازشوں اور ریشہ دوانیوں‘ دہشت گردوں اور باغیوں کی مسلح کارروائیوں کی روک تھام کے لیے کیا موثرتدبیر کی؟ دشمن کی کمر توڑنے کا دعویٰ کرتے وقت یہ کیوں نہ سوچا کہ وہ ابھی ختم نہیں ہوا اور جواب دینے کی پوزیشن میں ہے۔ 2006ء کے واقعہ اور درجنوں وکلاء کی شہادت کے بعد بھی پولیس ٹریننگ سکول کی پانچ فٹ اونچی کچی اور خستہ دیوارکو اونچا کیا گیانہ پختہ۔ اوڑی کے واقعہ پرذہنی توازن کھونے والا بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی بلوچستان کا نام لے کر انتقام کی دھمکی دے چکا اور گہرا زخم لگانے کے لیے کلبھوشن نیٹ ورک کی باقیات ایران‘ افغانستان اوربلوچستان میں موجود۔
مردان یونیورسٹی کے واقعہ کے بعد ملک بھر میں تعلیمی اداروں کی دیواریں اونچی اور پختہ کرنے اور آہنی باڑ لگانے کا حکم ملا تو ہر صوبائی حکومت نے سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں کے سربراہوں کا جینا حرام کر دیا مگرحفاظتی دیوار سے محروم کوئٹہ کے پولیس ٹریننگ سکول کا خیال دہشت گردوں کے سوا کسی کو نہ آیا۔ کہا جاتا ہے کہ ایک ہفتہ قبل وزیر اعلیٰ بلوچستان سردار ثناء اللہ زہری نے دیواریں اونچی کرنے کا حکم دیا اورفنڈز بھی منظور کئے۔ لیکن کیا پولیس کے تربیتی مراکز اورتعلیمی اداروں کی دیوار اونچی کرانا بھی کسی صوبے کے وزیر اعلیٰ کا کام ہے؟ کیا یہ مقامی انتظامیہ‘ منصوبہ بندی اور خزانہ کے محکموں کی ذمہ داری نہیں؟ مگر جب سے پاکستان میں جمہوریت کے نام پر ایک سیاسی مافیا نے پنجے گاڑے ہیں کسی چھوٹے سے دفتر میںنائب قاصد کی بھرتی ہو‘ تنخواہ اور مراعات میں اضافہ یا معمولی دیوار کی تعمیر‘ وزیر اعظم اوروزیر اعلیٰ کی ذاتی دلچسپی‘ احکامات اورمنظوری کے بغیر ممکن ہی نہیں۔البتہ ارب پتی وزیر اعظم کے ذاتی گھر کے اردگرد ستر پچھتر کروڑ روپے کی لاگت سے حفاظتی دیوارتعمیر کرنے کے لیے سرکاری محکمے احکامات کا انتظار نہیں کرتے، خود ہی سب کچھ کرگزرتے ہیں اور بادشاہ سلامت کے سامنے صرف شاباش وصول کرنے آتے ہیں۔ملتان میں پنجاب کانسٹیبلری کے تربیتی سکول کی دیوار صرف چار فٹ اونچی ہے اور جگہ جگہ سے ٹوٹی پھوٹی ۔
میڈیا لاکھ شور مچائے‘ دو چار دن کی سینہ کوبی کے بعد یہ سانحہ بھی نیشنل ایکشن پلان کی فائلوں میں دب کر رہ جائے گا۔ کیونکہ شہید اورزخمی ہونے والے خاک نشینوں کے بچّے ہیں جن کا خون سرخ ہوتا ہے نہ جان قیمتی ‘ورنہ وفاق اورصوبوں میں ایک ایک حکمران کی حفاظت کے لیے چار چارسو مسلح کمانڈوز کا بندوبست کرنے والی ریاست چار سوسے زائد کیڈٹس کے لیے صرف ایک سنتری تعینات نہ کرتی‘ درجنوں بلٹ پروف پروٹوکول گاڑیوں اور جدید طبی سہولتوں سے آراستہ ایمبولینسوں کے ساتھ سفر کرنے کے شوقین حکمران شہیدوں کی لاشوں کو نماز جنازہ کے بعد اپنے گھروں کی طرف روانہ کرنے کے لیے مناسب تعداد میں ایمبولینسز کا اہتمام ضرور کرتے اور ان کی میتیں عام ویگنوں کی چھتوں پر نہ لادی جاتیں۔ یہ ان شہیدوں کے علاوہ سبز پرچم میں لپٹے تابوتوں کی بھی بے حرمتی تھی مگرکون پروا کرتا ہے۔ ایک دوست نے لکھا کہ شائد کوئٹہ میں اتنی تعداد میں ایمبولینسز ہی دستیاب نہ ہوں‘ اگر ایسا ہے تو پھر ہم سب کو شرم سے ڈوب مرنا چاہیے کہ پورے ملک کو گوادر بندرگاہ‘ بلوچستان کی معدنیات اور اقتصادی راہداری کے ذریعے ترقی و خوشحالی کی نوید سنانے والوں نے اس پسماندہ صوبے کے دارالحکومت کو پینسٹھ ایمبولینسوں کے قابل نہیں سمجھا اور چھ عشروں تک مری‘ پشاور تک سوئی کی گیس سے چولہے اورکمرے گرم رکھنے والوں نے رائلٹی میں سے اتنا بھی نہیں دیا کہ پولیس ٹریننگ سکول کی حفاظتی دیوار تعمیر ہو سکے۔ صوبائی حکمران بھی اِلّا ماشاء اللہ ایسے ملے کہ مرکز سے ملنے والے وسائل اورصوبائی ٹیکس ان کا اوران کے اہالیوں موالیوں کا پیٹ بھرنے کے لیے ناکافی ثابت ہوئے۔ پچھلے آٹھ سال میں بلوچستان کو جتنے ترقیاتی فنڈز ملے‘ ان کا نصف ہی عوامی منصوبوں پر خرچ ہوتا اور بلوچستان کے حکمران بالخصوص سردارا ور وڈیرے مظلوم عوام کو ترقی‘ علم اور روزگارکا مستحق سمجھتے تو علیحدگی پسندوں کو سر اٹھانے کا موقع ملتا نہ بھارت کو اپنا نیٹ ورک پھیلانے کا۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاںچُگ گئیں کھیت۔
کوئٹہ میں اعلیٰ سطحی اجلاس ہوا‘ کچھ فیصلے ہوئے اور بلند بانگ دعوے‘ مگر یہ تو معمول ہے۔ سول اداروں کی صلاحیت کار بڑھائے‘ عوام کی جان ومال کے تحفظ کے لیے ٹھوس اقدامات کئے اور اگر یہ جنگ ہے تو اسے قوم کی ترجیح اول قرار دیئے ‘ جملہ مالی وسائل دشمن سے مقابلے پر جھونکے بغیر کچھ نہیں ہو سکتا۔ حالت جنگ میں حکمرانوں کی ترجیح اگر نمائشی منصوبے اور کمشن خوری ‘ پولیس و انتظامیہ کی عادت تفویض کردہ ذمہ داریوں سے پہلو تہی‘ سول ملٹری تعلقات میں انتہائی درجے کی سرد مہری اور اپنے ازلی دشمن بھارت کی دلجوئی ہو‘ سانحے کے روز وزیردفاع پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کے بجائے مسلم لیگ ن کے سیاسی مخالف عمران خان کے خلاف بیان بازی میں مشغول ہو اور وزیر اعظم کوئٹہ کا رخ صرف اس روزکریں جب وہاں کے عوام صدمے کی کیفیت میں ہوں‘ عام حالات میں اپنے لیے علاقہ ممنوعہ سمجھیں تو وکلااور پولیس کیڈٹس کے پسماندگان کو تسلی کون دے‘ دے بھی تو یقین کون کرے گا۔دہشت گردوں کاہدف تو پورے ملک کے عوام ہیں مگربلوچستان کے عوام زیادہ مظلوم ہیں کہ وہ شہادتوں کا نذرانہ دے کر یہ طعنہ بھی سنتے ہیں کہ اورنبھائو پاکستان سے وفاداری۔ آخروہ کب تک حب الوطنی کی سزابھگتیں ‘اپنوں اور غیروں کے طعنے سُنیں‘کلبھوشن کی گرفتاری پر جشن منانے والے بلوچی عوام کے خلاف بھارت اوران کے گماشتے انتقامی کارروائیوں میں مصروف ہیں مگر ہماری حکمران اشرافیہ اس قدر سست‘ کاہل اور نالائق ہے کہ سات آٹھ ماہ بعد اس بھارتی افسر کے خلاف ثبوت اقوام متحدہ کو پیش کرنے کے لیے سوچ بچار میں مصروف ہے۔ قومی سلامتی اور عوامی تحفظ کے دیگر کاموں میں یہ کتنی مستعد ہوگی اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ غیر ذمہ داری‘ نااہلی کا سارا بوجھ صرف سول اداروں پر ڈالنا قرین انصاف نہیں۔ عرصہ دراز سے آپریشن میں مصروف دیگر اداروں کو بھی اپنے حصّے کی ذمہ داری قبول کرنی چاہیے۔ لاشوں کوکندھا اور لواحقین کو پُرسہ دینے کے لیے البتہ یہ ایک دوسرے پر بازی لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ پہلے آپ‘ پہلے آپ کا تکلف گوارا نہیں کرتے ؎
ہم سے قاتل کا ٹھکانہ نہیںڈھونڈا جاتا
ہم بڑی دھوم سے بس سوگ منا لیتے ہیں

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved