انگریزی میں کہتے ہیں "Someone Should cry halt"۔رک جائو خدا کے لیے اب تو رک جائو۔ اجیت دودل کا ہاتھ‘ ہماری شہ رگ تک آپہنچا ہے اور اس وقت آ پہنچا ہے‘ جب غنیم‘ ہم سے قوی ہرگز نہیں۔
کوئٹہ کا سانحہ دلدوز ہے۔ اصل اوربنیادی المیہ مگر اس سے بڑا ہے۔ صبح سویرے نصرت جاوید کو فون کیا تو اس نے کہا: تم دل لگی کرتے ہو‘ شب مجھے نیند کی گولی کھانا پڑی۔ سویا میںبھی نہیں تھا‘ بس یہی‘ ایک ڈیڑھ گھنٹہ۔ کاہلی کا شکار نہ ہوتا تو بلوچستان پہنچ چکا ہوتا۔ بارہ بجے کی پرواز میں سیٹ میسر تھی ۔سبھی کے دل دکھ سے بھرے ہیں ۔ اپنے آپ پر ترس کھانے سے مگر کیا حاصل؟
جنگ ٹھہری ہے ‘ کوئی کھیل نہیںہے اے دل
دشمن جاں ہیں سبھی‘ سارے کے سارے قاتل
یہ کڑی رات بھی‘ سائے بھی‘ تنہائی بھی
درد اور جنگ میں کچھ میل نہیں ہے اے دل
اورپھر شاعر نے یہ کہا
لائو سلگائو کوئی جوشِ غضب کا انگار
طیش کی آتش جرار کہاں ہے لائو
وہ دھکتا ہوا انگار کہاں ہے لائو
جس میں گرمی بھی ہو ‘ حرکت بھی توانائی بھی
ہونہ ہو اپنے قبیلے کا بھی کوئی لشکر
منتظر ہو گا اندھیرے کی فصیلوں کے اُدھر
ان کو شعلوں کے رجز اپنا پتا تو دیں گے
خیر‘ ہم تک وہ نہ پہنچیں بھی‘ صدا تو دیں گے
دُورکتنی ہے ابھی صبح‘ بتا تو دیں گے
المیہ یہی نہیں کہ اتنے بہت سے بانکے سجیلے فرزند اس بے بسی کے عالم میں‘ مقابلے کی حسرت لیے گاجر مولی کی طرح کاٹ دیے گئے۔ حکومت کی صاحباں نے ہر ایک مرزے کا تیر جنڈ کے درخت میں ٹانک دیا‘ اور بے موت وہ مارا گیا۔ حادثہ اس سے بھی زیادہ ہے۔ سگ آزاد ہیں اور پتھر بندھے ہوئے ہیں۔ غنیم تباہی پر تلا ہے اور ہم جوتم پیزارمیں مصروف ہیں۔ گریبان میں جھانکنے کا اگر یارا ہو تو اب بھی سبق سیکھا جا سکتا ہے۔ آئندہ کے لیے تباہی ‘ ناکامی اور حسرت کا دروازہ بند کیا جا سکتا ہے۔
پولیس ٹریننگ کالج کی دیوار؟ حفاظتی انتظامات میں المناک بلکہ مجرمانہ تساہل؟ پولیس کی قیادت اور صوبائی حکومت کی اذیت ناک غفلت؟ ان سب سے بڑھ کر خود کو حالات کے حوالے کر دینے کی روش۔ قوم نے خود کو حاکموں کے حوالے کر دیا اور حاکموں نے حالات کے۔
شرمناک بات ہے‘ شرمناک کہ اہل اقتدار اور اپوزیشن‘ ایک دوسرے کو دشمن سے ملی بھگت کا طعنہ دے رہے ہیں۔ سمجھانے کی کوشش کرے تو سمجھنے پر آمادہ نظر نہیں آتے۔ علامہ طاہرالقادری کو کون قائل کرسکتا ہے۔ خواجہ محمد آصف کس کے بس کے ہیں ؟ کپتان کو تنقید کی کیا پروا؟ وزیر اعظم کو خود احتسابی کی فرصت کیا میسر آ سکتی ہے؟
کوئی چیز ایسی نہیں جو قابل فہم نہ ہو۔ غفلت اور نااہلی کمزور الفاظ ہیں۔ بلوچستان اور سندھ میں سول انتظامیہ کا حال ہمیشہ سے پتلا ہے۔ وزیر اعلیٰ ثناء اللہ نواب زہری سے خاص طور پر شکایت نہیں ‘ پوری صوبائی انتظامیہ سوئی پڑی رہتی ہے۔ مسلّح افواج کا جو واحد ادارہ بچ رہا ہے‘ سارے کا سارا بوجھ اس پر ڈال دیا گیا ہے۔ نظم و نسق کا عملی تجربہ نہ رکھنے والا ‘ ایک عام ذہن بھی ادراک کر سکتا ہے کہ بیرونِ شہراس ویرانے میں کالج کی دیوار بلند ہونی چاہیے تھی۔ اردگرد اور چھت پر محافظوں کی تعداد دو تین درجن چاہیے تھی۔ اس سے بھی پہلے یہ کہ کورس کی تکمیل کے بعد‘ کیڈٹس کو غیر ضروری طور پر روکنے کا جواز ہی نہ تھا۔
بنیادی سوالات اوربھی بڑے ہیں۔ وفاقی حکومت مستقل طور پر‘ عدم دلچسپی کی مرتکب کیوں ہے؟ کوئٹہ میں کہا جاتا ہے کہ اسلام آباد سے آنے والے‘ اس طرح آتے ہیں ‘ جیسے ولیمے یا تعزیت کے لیے تشریف لائے ہوں۔
دوسری صدی ہجری میں‘ امام نفس ذکیہ کا خروج‘ اسلامی تاریخ کا ایک اہم باب ہے۔ بدترین حاکموں کے خلاف‘ بہترین انسانوں کی بغاوت۔ خلیفہ منصور عباسی کے چچا نے اسے کہا تھا کہ امام ابو حنیفہؒ کے لیے داروگیرہوئی تو (صرف کوفہ میں) ایک لاکھ تلواریں بے نیام ہونے کوتیار ہوں گی۔ ایک سوال کرنے والے کو امامؒ نے بتایا تھا کہ آزادی کی اس جدوجہد میں شریک ہونا پچاس حج کرنے سے زیادہ افضل ہے۔
کالم کے مقالہ بننے کا اندیشہ نہ ہوتا تو تفصیلات عرض کرتا۔ نکتہ یہ ہے کہ نو دن کی مسافت طے کر کے دربان کی منت سماجت کرتا پیامبر ‘ دجلہ کنارے زیر تعمیر نئے دارالحکومت کے دربار میں داخل ہوا تو منصور اٹھ کھڑا ہوا۔ برق رفتاری سے دارالحکومت کوفہ پہنچا۔ پچاس
دن تک وہ قالین کے ایک ٹکڑے پر بیٹھ کر‘ اجلاس کرتا اور اسی پہ سوتا رہا۔ تاریخ اس ٹکڑے کو جائے نمازکہتی ہے۔ ممکن ہے سجادہ ہی ہو‘ چھوٹا سا فرش۔ پچاس دن تک اس نے غسل نہ کیا‘ سرخ رنگ کا جو جبّہ وہ پہنے ہوئے تھا‘ میلا ہوتا گیا۔ فتح کے حصول تک وہ تدبیر میںرہا۔ بگولہ رقص میں رہتا ہے‘ صحرا میں نہیں رہتا۔ دوسری طرف بھی عالم یہی تھا۔ مورخوں نے‘ واعظوں نے موشگافیاں بہت کی ہیں۔ واقعہ یہ ہے خروج کی حمایت کے باوجود ‘ امام ابوحنیفہؒ اس لیے کوفہ میں مقیم رہے کہ نگرانی کرتے رہیں۔ جہاں کہیں رخنہ ہو‘ اسے دور کر سکیں۔
جیسی رعایا‘ ویسے حاکم۔ امام حسنؓ کی اولاد کو اقتدار مل جاتا تو عالم اسلام کی تقدیر بدل جاتی۔ اللہ کو مگر منظور نہ تھا۔ جیسا کہ بعد میں خروج کرنے والے ‘ تاریخ انسانی کے اعلیٰ ترین خاندان کے ایک بزرگ نے کہا تھا: اللہ سے ہم ہار گئے۔ ظاہر ہے کہ قوم اپنے اعمال کی سزا میں محروم رہ گئی ۔ جہاد کرنے والوں نے منصوبہ بندی میں اگرچہ کوئی کسر نہ چھوڑی تھی۔ امامؒ کے چاروں فرزند اور سارے بھائی تاریخ کی اس عظیم ترین سلطنت میں پھیل گئے تھے۔ دور دور تک چراغاں کردیا تھا۔ منصور کا حال یہ تھا کہ درجن بھر دروازوں پر سواری کے جانور ہمہ وقت مہیا رکھتاکہ ضرورت پڑے تو بھاگ کر'' رے ‘‘ چلا جائے۔ اس قدر بے یقینی اور خطرناک حالات کے باوجود‘ جان ہتھیلی پر رکھے‘ پچاس دن‘ پوری یکسوئی سے‘ جنگ کی وہ قیادت کرتا رہا۔ ''حالات فیصلہ کریں گے کہ میرا سر(مجاہدین کے جنرل) ابراہیم کے سامنے پیش کیا جاتا ہے یا اس کا سر میرے پاس لایا جاتا ہے‘‘۔اس نے کہا تھا ۔
کس چیز نے وزیراعظم کو روک رکھا ہے کہ بلوچستان کو اتنا وقت وہ دیا کریں جتنا کہ دینا چاہئے۔ ٹیلی ویژن کے مزاحیہ پروگرام دیکھنے کی فرصت انہیں میسر ہے۔ ''میرا سلطان ‘‘ایسے ڈرامے دیکھنے کو۔ امن و امان کے لیے کیوں نہیں؟اس سوال کا جواب بہت تلخ ہے۔ منصور کی وہ اپنی سلطنت تھی۔ اسی دیار میں اسے جینا اور مرنا تھا۔ وزیراعظم کی دولت کا بڑا حصہ اور اولاد ملک سے باہر ہے۔ ان کی حمایت کا ایک حصہ بھی۔ پاکستان کی سلامتی کے یقینا وہ آرزو مند ہیں مگر یہ ان کی واحد اور اوّلین ترجیح ہرگز نہیں۔
پولیس کو انہوں نے بہتر بنایا ہوتا۔ برصغیر کی تاریخ یہ کہتی ہے کہ کسی بھی علاقے کا اصل محافظ‘ اس کا تھانیدار ہوتا ہے‘ مقامی پولیس اسٹیشن۔ اسامہ بن لادن کو قتل کرنے والے آئے تو جو آدمی سب سے پہلے وہاں پہنچا وہ ایک پولیس انسپکٹر تھا۔ سول انٹیلی جنس کو بہتر بنایا ہوتا۔ جون 1995ء میں الطاف حسین کے دہشت گردوں کے خلاف عظیم کامیابی پولیس کی تھی مگر اتنی ہی انٹیلی جنس بیورو کی تھی۔ شریف خٹک کی تھی‘ محمد فواد کی بھی‘ شجاعت اللہ کی بھی۔ وزیراعظم بینظیر بھٹو‘ ہمہ وقت پولیس افسر کے ساتھ رابطے میں رہا کرتیں۔ وزیرداخلہ نصیراللہ بابر مہینے میں چار پانچ بار کراچی جایا کرتے۔ نیشنل ایکشن پلان ؟ماتم کافی ہو چکا‘ مزید سینہ کوبی سے حاصل کیا؟پیش کر غافل عمل کوئی اگر دفتر میں ہے ۔
سیاست اپنی جگہ‘ اختلافات بجا۔ قوم کے دفاع پر پوری کی پوری سیاسی قیادت میں ہم آہنگی ہونا چاہئے۔ سول اور فوجی قیادت میں تنائو کا مطلب تباہی کے سوا کچھ نہیں۔ وزیراعظم کے مشیر مشاہد اللہ خان کی شہادت واضح ہے:ایک صفحے پر دونوں کبھی نہ تھے۔ نریندر مودی سے وزیراعظم خوش دلی سے بات کرتے ہیں۔ اشرف غنی سے جنرل صاحبان اتنی ہی بشاشت کے ساتھ گفتگو کرتے رہے۔ وزیراعظم میاں محمد نوازشریف اور چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف سے‘ قوم سوال کرنے کا حق رکھتی ہے کہ باہمی اختلافات کو کم کرنے کی انہوں نے کتنی کوشش کی؟
انگریزی میں کہتے ہیں" "Someone Should cry halt۔ رک جائو خدا کے لیے اب تو رک جائو۔ اجیت دودل کا ہاتھ‘ ہماری شہ رگ تک آپہنچا ہے اور اس وقت آ پہنچا ہے‘ جب غنیم‘ ہم سے قوی ہرگز نہیں۔