مودی کے پاکستان کو تنہائی سے دوچارکرنے کے دعوے سے قطع نظر، پاکستان نے حالیہ مہینوں کے دوران کشمیر کو عالمی ریڈار سکرین پر دیرینہ حل طلب مسئلے کے طور پر نمایاں کرکے باور کرا دیا ہے کہ یہ مسئلہ فوری طور عالمی برادری کی توجہ چاہتا ہے تاکہ کشمیریوںکی خواہشات کے مطابق اس کا حل تلاش کیا جاسکے۔ اپنے اس روایتی موقف کوکہ ''دونوں قومیں اپنے اختلافات کو بھول کر امن کے ساتھ، بقائے باہمی کے اصولوں کے تحت آگے بڑھیں‘‘ ایک طرف رکھتے ہوئے وزیر اعظم نواز شریف نے یہ واضح کر دیا ہے کہ ''بھارت اور پاکستان کے درمیان امن‘‘ تنازعۂ کشمیر کے حل کے بغیر ممکن نہیں۔
مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے دیرینہ موقف کی تائید کرتے ہوئے نواز شریف صاحب بہرحال اپنے امن کے راگ کو بھلا نہ سکے اور کہا کہ پاکستان بھارت کے ساتھ ''سنجیدہ اور بامقصد مذاکرات ‘‘ کے لیے تیار ہے تاکہ کشمیر سمیت تمام دیرینہ مسائل کا حل تلاش کیا جاسکے۔ بالکل درست، ایسا ہونا چاہیے۔ کشمیریوں نے اُن کے جنرل اسمبلی میں خطاب کا خیر مقدم کیا تھا۔ اب وہ اقوام ِمتحدہ، جسے انسانیت کی آخری امید کی کرن قرار دیا جاسکتا ہے، کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ وہ، چلیں تاخیر سے ہی سہی، اُنہیں انصاف فراہم کرے، جیسا کہ یو این سکیورٹی کونسل کی قراردادوں کے ذریعے اُن کے ساتھ وعدہ کیا گیا تھا۔ کشمیری بھی پاکستان کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ وہ کس طرح مضبوط اور جاندار کشمیر پالیسی کو داخلی اور خارجی سطحوں پر آگے بڑھاتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ نیویارک سے واپس آنے پر وزیر اعظم نواز شریف نے سیاسی اتفاق ِرائے حاصل کرنے کے لیے فوری پیش رفت کی تاکہ ملک کی کشمیر پالیسی کو واضح خطوط پر آگے بڑھایا جا سکے۔ اُنھوں نے کُل جماعتی کانفرنس بلائی، اس کے بعد پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں قرارداد کے ذریعے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کی مذمت کی اور پاکستان کے اس موقف کا اعادہ کیا کہ وہ بھارت کے ساتھ ''بامقصد اور نتیجہ خیز مذکرات ‘‘ کے لیے تیار ہیں تاکہ جموں اور کشمیر تنازع سمیت تمام مسائل کا حل تلاش کیا جاسکے۔ پارلیمنٹ کے فلور پر جو کچھ بھی ہوا، اس سے قطع نظر، سوال یہ ہے کہ پس چہ بایدکرد۔ اب ہمارے سامنے لائحہ عمل کیا ہو؟
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ ہمیں جنرل اسمبلی میں کی گئی تقریر کے وجد سے باہر آ جانا چاہیے۔ اس مسئلے کے لیے عمل کی راہ درکار ہے، ہمیں اس پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔ شیکسپیئر کے مطابق الفاظ کھوکھلے اور عمل بامعنی ہوتا ہے، لیکن ایکشن سے مرادکوئی جسمانی مشق نہیں۔ اس مرتبہ کشمیری، خاص طورپر اس کے نوجوانوں نے گلیوں میں نکل کر معاملے کو اپنے ہاتھ لے لیا ہے۔ یہ اس تحریک کی نسلی تبدیلی دکھائی دیتی ہے۔ ان نوجوانوںکو اپنے عوامی احتجاج کی طاقت کا اندازہ ہونا شروع ہوگیا ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ وہ سر اٹھا کر، باوقار طریقے سے اپنے حق کی بات کرنے اور اپنے حق ِخود ارادیت کے مطالبے کو دہرانے کے قابل ہوگئے ہیں۔ ریاستی ظلم و جبر اب اُنہیں اُن کے حق سے محروم نہیں رکھ سکتا۔ حتیٰ کہ موت کا خوف بھی اُن کے ارادوںکی راہ میں حائل نہیں ہوسکتا۔ یہ اُن کا قانونی حق ہے جو وہ ہر قیمت پر لینے کا عزم کرچکے ہیں۔ وہ گزشتہ تین ماہ سے زیادہ عرصے سے قتل وغارت، کرفیو، میڈیا بلیک آئوٹ اور بدترین ریاستی جبر کا سامنا کر رہے ہیں۔ بھارت نے ہر ستم ڈھا کر دیکھ لیا، اس کاکوئی فائدہ نہیں ہوا۔ اس مرتبہ بھارتی حکومت کشمیریوں کی آواز دبانے میں کامیاب نہیں ہوئی۔ کشمیری نوجوان گلیوں میں جانیں دے رہے ہیں۔ اُن کا مطالبہ ملازمتیں یا تعلیم یا کتابیں نہیں، وہ آزادی مانگ رہے ہیں۔ ان کا نعرہ ہے ''ہمیں صرف اور صرف آزادی چاہیے‘‘۔ اب یہ نعرہ وادی میں پھیل چکا ہے۔ یہ نعرہ لگاتے اور پاکستانی پرچم لہراتے ہوئے وہ ایک واضح پیغام دے رہے ہیں۔ وہ بھارتی تسلط سے آزادی کے سوا اور کچھ نہیں چاہتے۔
ایک حوالے سے بھارت کا بھی بھلا اسی میں ہے کہ وہ نوشتہ ٔ دیوار پڑھ لے، جیسا کہ کسی نے بجا طور پر کہا: ''بھارت کو کشمیر سے آزادی چاہیے، جیسے کشمیریوں کو بھارت سے‘‘۔ یہ بات بھارت کے بھی مفاد میں ہے کہ اپنے مستقبل کو بہتر بنانے اور بطور سب سے بڑی جمہوریہ، دنیا کے سامنے اپنی ساکھ مستحکم کرنے کے لیے کشمیریوں کی آواز پر کان دھرے۔ اُسے علم ہونا چاہیے کہ مقبول عوامی تحریکوں کو طاقت سے نہیں دبایا جاسکتا۔ اس وقت دنیا کی واحد سپرپاور نے بھی اپنی آزادی طویل جنگ کے بعد ہی حاصل کی تھی۔ انڈیا اپنے تاریخی حقائق کو نظر انداز یا مسخ نہیں کرسکتا۔ یہ 1857ء کی جنگ ِ آزادی تھی جس نے بھارت کی بطور ریاست آزادی کی پہلی اینٹ رکھی۔ انڈیا طاقت کے ذریعے کشمیر کو اپنے کنٹرول میں رکھنا چاہتا ہے جبکہ کشمیریوں کو بھارت سے کوئی سروکار نہیں۔ انڈیا کے لیے ضروری ہے کہ وہ انصاف اور منصفانہ طرز عمل اپنائے اور معقولیت کے تقاضوں پر دھیان دے۔ جہاں تک وزیر اعظم نوازشریف کا تعلق ہے، اُنھوں نے جنرل اسمبلی اور پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اچھی باتیں کی تھیں۔ یہ دونوں تقاریر تحریر شدہ تھیں۔ تاہم کشمیریوں کو بیانات کے علاوہ بھی کچھ درکار ہے۔ اس وقت روایتی بیان بازی کام نہیں دے گی اور نہ ہی اس سے کشمیریوں کا کچھ بھلا ہوگا۔
شروع سے ہی ہماری کشمیر پالیسی مختلف جہتیں تبدیل کرتی رہی۔ تاہم اس میں ایک غیر متبدل عامل یہ تھا کہ یواین چارٹر کے تحت کشمیریوں کو حق ِ خود ارادیت دیا جائے۔ ہمیں اسی پوزیشن پر قائم رہنا چاہیے۔ دنیا کی توجہ کشمیریوں کی ناقابل ِبیان تکالیف کی طرف مبذول کراتے ہوئے ہمیں کشمیرکے مسئلے کو تقویت دینی چاہیے۔ اس کے لیے مربوط اور منظم سفارتی کوشش درکار ہوگی تاکہ دنیا کے اہم دارالحکومتوں میں ہم اپنی بات کہہ سکیں۔ اس کے لیے موجودہ اور ریٹائرڈ سفارت کاروں کی خدمات حاصل کی جائیں اور یہ کام جنگی بنیادوں پر کیا جائے۔ دنیا کو علم ہونا چاہیے کہ کشمیر کا واحد، قانونی اور اخلاقی حل وہی ہے جو اقوام ِ متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں ہو۔
کشمیر کاز میں ہمارا عزم قانونی اور اخلاقی دونوں پہلو رکھتا ہے۔ اسے محض اچھے تعلقات قائم کرنے کی خواہش کی بھینٹ نہیں چڑھایا جاسکتا۔ ہمارے خطے میں امن ''مشکوک پس پردہ ڈیل‘‘ کے ذریعے کبھی بحال نہیں ہوگا، اس لیے کھلے ماحول میں مثبت اور بامقصد مذکرات کرنے پڑیںگے۔ جس امن کی ہمیں تلاش ہے، وہ اپنے قومی مقاصد سے انحراف کے راستے پر نہیں ہے۔ ہم اپنے قومی مفاد کو سرنڈر نہیں کرسکتے۔ اس کے لیے ہمیں طاقتور پوزیشن پر رہتے ہوئے مذکرات کی میز پر مساوی طور پربیٹھنا ہوگا۔ یہ مقصد کمزوری سے حاصل نہیں ہوگا۔ چنانچہ اپنی داخلی کمزوری کا اظہار کرنے کی بجائے ہمیں اتنی تاب و تاب حاصل کرنی اور دکھانی ہے، جس کے ذریعے ہم کشمیر کے بارے میں اپنے موقف کو واضح کردیں۔ اس وقت بھارت اسے دہشت گردی کے ساتھ گڈ مڈ کرنے اور عالمی رائے عامہ کو گمراہ کرنے کی کوشش میں ہے۔ ہم اس مسئلے سے صرف اس صورت میں ہی نمٹ سکتے ہیں جب بھارت کا غرور توڑا جائے اور وہ بات چیت کے میز پر بیٹھنے کے لیے آمادہ ہو۔ اس کے لیے ہمیں سفارتی کوششیں جاری رکھنی چاہئیں۔ انڈیاکی طرف بے مقصد دوستی کا ہاتھ بڑھانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ اس دوران صدر اوباما، جن کی مدت تمام ہوا چاہتی ہے، کو بھی سرینگر کی گلیوں سے آنی والی بارود کی بو سونگھنی چاہیے۔ یہ اُن کے پاس اپنے نوبل انعام برائے امن کو درست ثابت کرنے کا آخری موقع ہے۔
(کالم نگار پاکستان کے سابق سیکرٹری خارجہ ہیں)