لکھنا توپلڈاٹ کے بارے میں تھا کہ یہ این جی او کب وجود میں آئی‘ کس طرح کام کرتی ہے‘ اسے سرمایہ کون سا ملک فراہم کرتا ہے اور اس کے تار کون ہلاتا ہے؟ میں نے الیکشن کمیشن پر بھی لکھنا تھا تاکہ وہ بند آنکھیں کھول کر دیکھ سکے کہ پنجاب کے چیف سیکرٹری اور قائم مقام انسپکٹر جنرل پولیس کی جانب سے پولیس اور انتظامیہ کے سو کے قریب مخصوص افسران کی مختلف اضلاع میں تعیناتیاں کیوں کی جا رہی ہیں؟ لیکن اپنے ہم وطنوں کے قتل عام کی چلنے والی خونخوار لہر نے مجھے مجبور کر دیا کہ میں اپنے بھائیوں‘ بچوں اور مائوں بہنوں کے قاتلوں کا نام کھل کر لے سکوں۔کراچی میں شاہ زیب کے قتل پر سول سوسائٹی باہر نکل آتی ہے، لیکن ہر روز قتل ہونے والے سینکڑوں پاکستانیوں کے لئے تمام این جی اوز اور سول سوسائٹی مفلوج ہو کر رہ جاتی ہیں۔ لاپتہ افراد کے لئے سیفما اور ہیومن رائٹس کی این جی اوز بے چین ہو جاتی ہیں لیکن ہزاروں بے گناہوں کی لاشوں پر ان کی زبانیں گنگ ہو جاتی ہیں۔ کوئی اصل قاتلوں کا نام نہیں لے رہا ‘ کوئی ان کے سرپرستوں کی نشاندہی نہیں کر رہا اور سارا ملبہ منگنی کی ایک تقریب پر ڈال دیا جاتا ہے۔ اس سے پہلے ملک بھر میں جو ہزاروں قتل ہوئے کیا اس وقت بھی منگنیاں ہو رہی تھیں؟ قاتلوں کے سرپرستوں کے چہرے چھپانے کے لئے یہ کیسا جواز ڈھونڈا گیا ہے؟
وطن کے ایک بیٹے کی حیثیت سے اپنے پاک وطن پر حملہ آور ہونے والوں کے چہرے بے نقاب کرنا میرا ہی نہیں ہر پاکستانی کا
فرض ہے۔ اگر کوئی کبھی کبھار امداد دیتا ہے، پٹرول ادھار پر عنایت کر دیتا ہے تو اسے آقا اور مالک نہیں ہمارا دوست بننا چاہیے۔ اس کو ہمیں غلام نہیں سمجھنا چاہیے۔ بہت ہو چکا، ہمیں خیرات ٹھکرا کر بھوک برداشت کرنی ہو گی۔ ہمیں ایک بار پھر شعب ابی طالب کی یاد تازہ کرنا ہو گی کیونکہ اسی بھوک اور پیاس کے بعد منزلیں آسان ہونی شروع ہوئی تھیں ۔ کوئی تو پرچم ہاتھ میں لے کر اٹھے! چاروں طرف سناٹا ہے‘ دیوانے یاد آتے ہیں۔۔۔۔ نہ جانے وہ کہاں چلے گئے۔ خدا پاکستان کو اس کے گوربا چوفوں سے بچائے! میرا وطن آج امریکی، برطانوی، بھارتی، عربی اور عجمی سیاست کی بھینٹ چڑھ رہا ہے۔ اس وقت بلوچستان میں امریکی‘ بھارتی اور کچھ عرب ممالک کی مدد اور بھاری سرمائے سے پنپنے والے دہشت گردوں کی جانب سے فوج، پولیس، ایف سی کے علا وہ پاکستان کا نام لینے والے پنجابیوں‘ پختونوں اور ہزارہ قبائل کا قتل عام جاری ہے۔ قوم کو بتایا ہی نہیں جا رہا کہ دس دن قبل آسٹریلوی حکومت نے پاکستان کے پچیس سو ہزارہ خاندانوں کو سیاسی پناہ دینے کی پیشکش کی ہے۔ یہ لوگ سیاسی پناہ لینے کے لئے آسٹریلیا کے علاوہ دوسرے یورپی ممالک کی طرف بھاگ رہے ہیں، جبکہ ہمارے ملک کے گوربا چوف بے خبر پڑے سو رہے
ہیں۔ جب دنیا بھر کے ممالک کے سفارت خانوں کے سامنے پاکستان کے مختلف علاقوں سے بھاگ کر آنے والے لوگوں کی طویل قطاریں نظر آئیں گی تو اس کے اثرات انتہائی تباہ کن ہوں گے۔ ملک میں جاری فرقہ وارانہ دہشت گردی اور اب سریاب کے قتل عام نے مجبور کر دیا ہے کہ پاکستانیوں کو بتا دوں کہ ان پر حملہ کرنے والے کون ہیں اور کہاں سے آ رہے ہیں؟
وجہ گوادر بھی ہے اور چین بھی، لیکن سب سے بڑی وجہ امریکہ کا اس خطے میں 2015 ء میں تیار کردہ کا نقشہ ہے۔ ایک ملک کے حکمران تشریف لائے تھے اور انہوں نے کثیر سرمایہ پاکستان میں صرف کرنے کا وعدہ کیا تھا لیکن اس شرط کے ساتھ کہ''گوادر کو رہنے
دیں‘‘۔ لیکن گوادر کی تعمیر شروع ہو گئی جس کے بعد بلوچستان کے چند سرداروں کی مدد سے '' بلوچ عوام کے حقوق‘‘ کا وہ کھیل شروع ہو گیا جس کی سزا آج پوری پاکستانی قوم بھگت رہی ہے ۔ قطر جو اس وقت امریکی کارروائیوں کا سب سے بڑا اڈہ بن چکا ہے، افغانستان میں امن کے لئے طالبان کا مرکزی دفتر وہاں قائم کرایا گیا ہے اور ان سے مذاکرات بھی وہیں ہو رہے ہیں۔ دو سال قبل بلوچستان میں جب بین الاقوامی دہشت گردی عروج کی طرف بڑھنے لگی تو الجزیرہ ٹی وی جو قطری حکومت کی ملکیت ہے (قطر کے بارے میں کون نہیں جانتا کہ یہ امریکہ اور سعودی عرب کے زیر اثر ہے) اس نے بلوچستان کے دہشت گردوں کے ساتھ اپنے رپورٹروں کے گزارے ہوئے تین دنوں کی ایک رپورٹ نشر کی تھی جو بعد میں دنیا بھر کے چینلز پر دکھائی جاتی رہی۔ ان دہشت گردوں کے شب و روز اور ان کی تخریبی کارروائیوں کی فلم میں پاکستانی فوج کے بارے میں زہریلی زبان استعمال کی گئی اور بلوچوں پر ''پنجابی فوج‘‘ کے ظلم کی داستانیں بیان کرتے ہوئے جس طرح کا پروپیگنڈہ پھیلایا گیا اس پر فرانس کے اخبار 24 کی رپورٹ میری آنکھوں کے سامنے لہرانے لگی اور ساتھ ہی لیبیا، شام اور مالی میں خفیہ ہاتھ کی کہانی بھی ذہن میں گھوم گئی۔ فرانس کے اس اخبار کی رپورٹ میں یہ سوال اٹھایا گیا ہے کہ ''کیا شمالی مالی میں دہشت گردی کی تمام کارروائیوں کو قطر کی حکومت مدد فراہم کر رہی ہے؟‘‘ اور کیا ''مغربی افریقہ میں امریکہ اور برطانیہ کے کہنے پر MNLA القاعدہ کے ایک گروپ سے منسلکANSAR DINE اور MUJAO جیسی جہادی اور عسکری تنظیموں کو قطری حکومت کی آشیر باد حاصل ہے؟‘‘ اور اس حقیقت کو اب کوئی چھپائے بھی تو نہیں چھپا سکتا کہ القاعدہ کا ایک نیا گروپ امریکہ، برطانیہ اور کچھ عرب ممالک کی مدد سے امریکہ کے ''ARAB SPRING‘‘ کو کامیاب کر رہا ہے۔ یہ بات اب کوئی راز نہیں رہی کہ بلوچستان اس وقت امریکہ کی ہٹ لسٹ پر ہے۔
امریکہ کی وزارت خارجہ نیشنل انڈوومنٹ برائے جمہوریت، بلوچستان میں براہ راست مداخلت کرتے ہوئے جمہوریت اور انسانی حقوق کے نام پر پاکستان کے سب سے بڑے دشمن زلمے خلیل زاد کی زیر نگرانی کام کرنے والے بلوچستان انسٹیٹیوٹ برائے ڈویلپمنٹ کو بھر پور مدد فراہم کر رہا ہے۔ اب یہ بھی راز نہیں رہا کہ امریکہ کی طرف سے قائم کیا گیا ادارہ BFID پاکستان کے خلاف زہر اگلنے والے وائس آف بلوچستان سمیت میڈیا سے متعلق کن لوگوں کو اور کس لیے بھاری سرمایہ فراہم کر رہا ہے؟ آج ہی میرے موبائل پر ایک پیغام آیا ہے: ''پاکستانی فوج کے نام۔۔۔۔فاٹا میں خون، پشاور اور خیبر پختونخوا میں خون، کوئٹہ اور بلوچستان میں خون، سندھ اور کراچی میں خون‘‘۔ جس قوم کے ایک ایک پیسے سے آپ کا بجٹ بنتا ہے اسے بچانے کی ذمہ داری کس کی ہے؟ آرٹیکل 6 کی خلاف ورزی کی سزا موت ہے اور وطن بچاتے ہوئے موت کو گلے لگانا پڑتا ہے۔