تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     28-10-2016

دل ٹوٹے ٹوٹے ہو گیا

اتفاق سے میں اس نسل سے ہوں‘ جس نے مختلف تحریکوں کو شروع ہوتے‘ زور پکڑتے‘ کامیاب یا ناکام ہوتے دیکھا ہے۔ جب برصغیر میں تحریکِ آزادی کی کامیابی یقینی ہو چکی تھی‘ وہ میرے ہوش سنبھالنے کے دن تھے۔ عمر آٹھ‘ نو برس کے قریب تھی۔ جب ایسی تحریکیں اپنے عروج پر ہوتی ہیں تو آٹھ نو سال کے بچے بھی ان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا کرتے ہیں‘ بلکہ یہ کہوں تو زیادہ موزوں ہو گا کہ بڑوں سے زیادہ پُرجوش اسی عمر کے بچے ہوتے ہیں۔ ہر دور میں نوجوان بچیوں کا جلسوں اور جلوسوں میں آنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ بڑی باہمت ہوتی ہیں وہ بچیاں‘ جو والدین کے دبائو سے نکل کر جلسوں‘ جلوسوں میں حصہ لینے میں کامیاب ہو جاتی ہیں۔ ان کا جوش و جذبہ دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ برصغیر کی تحریکِ آزادی کے دوران‘ جلسوں جلوسوں میں لڑکیوں کی تعداد برائے نام ہوتی تھی۔ نئی نسل کو شاید یہ جان کر حیرت ہو کہ قائد اعظمؒ کی قیادت میں پاکستان کا مطالبہ پیش کیا گیا‘ تو اس وقت یہ نام سامنے نہیں آیا تھا۔ اہلِ فکر اور دانشور اپنے تحریری مباحثوں میں نئے ملک کے لئے جن نام پر بحث کیا کرتے تھے‘ ان میں سے ایک نام پاکستان بھی تھا۔ نئی مسلم ریاست کا جو تصور پیش کیا گیا‘ اسے قرارداد پاکستان کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ جب یہ قرارداد منظور کی گئی‘ تو لاہور سے اردو میں شائع ہونے والے دو ہندو اخباروں ''ملاپ‘‘ اور ''پرتاپ‘‘ نے اگلے روز کے شماروں میں سرخیاں لگائیں کہ 'مسلمانوں نے پاکستان کا مطالبہ کر دیا‘۔ اس طرح پاکستان کا نام پہلی مرتبہ ہندو پریس نے متعارف کرایا۔ یہی نام ہمیشہ کے لئے تاریخ کا حصہ بن گیا۔
میں پہلی مرتبہ جو نعرہ لگاتا ہوا مسلمانوں کے جلوس میں شامل ہوا‘ وہ یہ تھا: ''لے کے رہیں گے پاکستان‘‘۔ 1947ء میں‘ جب مجھے نعروں کی پہچان ہوئی‘ ''پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الااللہ‘‘ کا نعرہ زبان زد عام نہیں تھا۔ جب پاکستان کا بننا یقینی ہو گیا‘ تب خاص مکتبہ فکر کے بعض لوگ یہ نعرہ لے کر جلوسوں میں شامل ہونے لگے۔ مجھے ان دونوں نعروں میں کوئی فرق محسوس نہیں ہوتا تھا۔ میرے نزدیک ان دونوں کا ایک ہی مطلب ہوا کرتا تھا۔ بعد میں بزرگوں نے بتایا کہ دونوں نعروں کا مطلب ایک نہیں۔ قیام پاکستان کے بعد جب آئین سازی شروع ہوئی تو قرارداد مقاصد کے نام سے آئینی مطالبات پر مشتمل پمفلٹ اور ہینڈ بل تقسیم ہونے لگے‘ اور ایسے تقسیم ہوئے کہ ہمارے پاکستان ہی کو لے ڈوبے۔ مشرقی بنگال کی مسلم لیگ‘ پاکستان کے آئین کو ریاستی آئین کے طور سے مرتب کرنا چاہتی تھی جبکہ مغربی پاکستان میں مذہبی جماعتوں نے زور شور سے اسلامی آئین کا نعرہ بلند کر دیا‘ اور یہ اختلاف ہمارے ملک کی بنیادوں میں دراڑیں ڈال گیا۔ یہ ایک لمبی کہانی ہے کہ قائد اعظمؒ اور ان کے ساتھیوں کے سیاسی نظریات پر مذہبی تصورات حاوی ہونے لگے اور جب پاکستان کا پہلا آئین معرض وجود میں آیا تو پاکستان حاصل کرنے والی سرکردہ قیادت منظر سے غائب ہو گئی اور بعد میں جن لوگوں نے ملک کی باگ ڈور سنبھالی‘ وہ سیاسی اور ذہنی طور پر مذہبی حلقوں کے مقابلے میں زیادہ موثر نہیں تھے۔ یہ قرارداد مقاصد ایسی گلے پڑی کہ نہ ہم ریاستی آئین بنا پائے‘ اور نہ اسلامی۔ آج بھی مذہبی حلقوں سے پوچھ کر دیکھیے تو وہ ہمارے آئین کو اسلامی نہیں سمجھتے‘ اور جس سیاسی شعور سے پاکستان کے مطالبے نے جنم لیا تھا‘ وہ طاقت کے کھیل میں پسپا ہو گیا۔ مشرقی پاکستان میں مذہبی حلقے شکست کھا گئے۔ ردعمل میں سیکولر نظریات حاوی ہوتے گئے اور آج ہمارے مشرقی پاکستان کا نام بنگلہ دیش ہے۔ 
70ء کے عشرے میں مشرقی اور مغربی پاکستان‘ دستور سازی کے تنازعے میں ایسا الجھا کہ سیاسی کشمکش‘ عملی جنگ میں بدل گئی۔ مشرقی پاکستانیوں کی سیاسی قیادت بھارتی سامراج کی مدد سے اپنے حصے کے پاکستان کو بنگلہ دیش کے نام سے علیحدہ کرنے میں کامیاب ہو گئی اور ہم شکست کے زخموں سے چُور چُور‘ اپنا آئین بنانے میں کامیاب ہو گئے۔ یہاں ایک بات یاد دلانا چاہوں گا کہ سیاسی طور سے مشرقی اور مغربی پاکستان‘ دونوں مختلف سمتوں کی طرف چل پڑے۔ مشرقی پاکستان کی تمام سیاسی جدوجہد مغربی پاکستان کے طاقتور طبقوں سے اپنے حقوق حاصل کرنے کی راہ پر چل نکلی‘ جبکہ مغربی پاکستان کے طاقتور طبقے اقتدار میں اپنی بالادستی قائم رکھنے کی جنگ میں الجھ گئے۔ فوجی طاقت‘ قومی خزانہ‘ بیوروکریسی‘ صنعت کار‘ جاگیردار‘ سرمایہ دار‘ غرض وہ سارے طبقے‘ جو کسی ریاست کو طاقت مہیا کرتے ہیں‘ سب مغربی پاکستان میں تھے‘ جبکہ مشرقی پاکستان کے سیاسی عمل میں محنت کش‘ مزدور اور نوجوان سیاسی سرگرمیوں میں پیش پیش تھے۔ مشرقی پاکستان اپنی آبادی کے تناسب سے آئینی حقوق حاصل کرنے پر مُصر تھا‘ جبکہ مغربی پاکستان کے اقلیتی طاقتور طبقے اپنی بالادستی سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں تھے۔ ملک کے دونوں حصوں کی یہی سیاسی کشمکش ایک داخلی جنگ میں بدلتی گئی۔ اندھی طاقت کا نتیجہ یہ نکلا کہ آخرکار آئین سازی میں جمہوریت کے بنیادی اصول کو پامال کر دیا گیا۔
مشرقی پاکستان کی آبادی معمولی سے فرق کے ساتھ مغربی پاکستان سے زیادہ تھی۔ فرق صرف ایک دو فیصد کے درمیان تھا۔ جمہوریت کے جس اصول کے تحت بھی دیکھا جائے‘ اعداد و شمار کے بنیادی اصول کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ آپ اکاون افراد کو باون پر‘ جمہوریت کے تحت مساوی قرار نہیں دے سکتے۔ ہمارے ملک میں یہی ہوا۔ مغربی پاکستان کے طاقتور طبقے‘ مشرقی پاکستان کے کمزور سیاسی نمائندوںکو ریاستی طاقت کے بل بوتے پر مساوی منوانے میں کامیاب ہو گئے۔ دنیا میں غالباً پہلی مرتبہ جمہوریت کے تمام اصولوں کو پامال کرتے ہوئے تھوڑی آبادی کو بڑی کے مساوی قرار دے کر قومی اسمبلی میں دونوں کی نشستیں برابر کر دی گئیں۔ ہماری سوچوں پر آج بھی حکمران طبقوں کی ذہنیت مسلط ہے۔ مشرقی پاکستان میں آبادی کی اکثریت کو طاقت کے سامنے سرنگوں کرکے اقتدار میں اس کا جائز حصہ کم کر دیا گیا۔ اس ناانصافی کے نتیجے میں سارا پاکستان قائم نہ رہ سکا۔
سیاسی بدمعاشی کی انتہا یہ تھی کہ جب مغربی پاکستان کے حکمران طبقوں نے مشرقی پاکستان کے اکثریتی حقوق ہاتھ سے جاتے دیکھے تو انہوں نے فوراً آمرانہ اختیارات سے کام لیتے ہوئے پرانی جغرافیائی تقسیم بحال کر دی‘ یعنی مشرقی پاکستان کے حقوق سلب کرنے کے لئے جو ون یونٹ بنایا گیا تھا‘ اسے خود ہی توڑ دیا‘ اور جب ایک فرد ایک ووٹ کا اصول مان لیا گیا تو مشرقی پاکستان کے اکثریتی نمائندوں کی حکمرانی ناقابل برداشت ہو گئی۔ بعد کی ساری کہانی مغربی پاکستان کے حکمران طبقوں کی سازشوں پر مشتمل ہے۔ وہ حقیقی جمہوریت کو کسی صورت قبول کرنے کو تیار نہ تھے۔ یہ جو حربہ بھی عوامی لیگ کی اکثریت کو بے اثر کرنے کے لئے اختیار کرتے‘ عوامی لیگ فریب میں آنے سے انکار کر دیتی۔ شیخ مجیب کسی بھی عذر‘ بہانے اور چالاکی کی آڑ میں اپنے اکثریتی حق سے دستبردار ہونے پر آمادہ نہ ہوئے۔ اپنی مرضی کا آئین بنوانے کے لئے مغربی پاکستان کے حکمران طبقے نے آخری حربے کے طور پر‘ اپنے ہی ملک کے اکثریتی صوبے پر فوج کشی کر دی۔ یہ نا عاقبت اندیش حکمران طبقے پاکستان کی اصلی طاقت سے بے خبر تھے۔ حقیقی پاکستان کی اصل طاقت اس کی آبادی اور جغرافیائی پوزیشن تھی۔ آج کے حالات میں بحری طاقت جو پوزیشن حاصل کرتی جا رہی ہے‘ اس میں خلیج بنگال کا کردار انتہائی اہم ہے۔ آنے والا وقت بتائے گا کہ ہم نے مشرقی پاکستان گنوا کر کیا کھویا؟ اور مغربی پاکستان میں محدود ہو کے کیا پایا؟ قدرت کا انصاف دیکھئے کہ فوجی‘ اقتصادی‘ افرادی اور مالیاتی قوت کے بل بوتے پر ہم نے اکثریت کے حقوق سلب کرنے کی خاطر جو بے اصولیاں اور بد اخلاقیاں کیں‘ ان کے نتائج اب نئی شکل میں سامنے آتے دکھائی دے رہے ہیں۔ اسلحہ اور آبادی‘ دونوں طاقتیں پھر سے یکجا ہو گئی ہیں اور عوامی طاقت ایک نئے ابھرتے ہوئے لیڈر کے پیچھے متحرک ہو رہی ہے۔ میں ایک لیڈر یا ایک فرد کی بات نہیں کر رہا‘ اس تبدیلی کی بات کر رہا ہوں‘ جو نئے سیاسی حقائق اور قیادت کے زیر اثر انصاف کی قوت بحال کرے گی۔ موضوع وسیع تر ہوتا جا رہا ہے۔ جگہ میرے پاس ہوتی نہیں۔ ٹکڑے جوڑ کے کام چلانے کی کوشش کرتا رہتا ہوں۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved