تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     28-10-2016

باقی ان کی مرضی

ایک سوال تو بلوچستان کے اہلِ دل اور اہلِ نظر کی خدمت میں پیش کر دیا ، باقی ان کی مرضی۔ 
ایک مسئلہ صابن کی ٹکیا کا تھا ۔ کسی بھی طرح کی ایک چھوٹی سی یا باقی ماندہ ٹکیا ۔ جس سے ہاتھ دھوئے جا سکیں ۔ دوسرا یہ تھا کہ کوئٹہ سے مجھے اسلام آباد واپس جانا ہے یا لاہور ۔ ٹکٹ صرف میزبان ہی مہیا کر سکتا تھا ۔ ہر دفعہ جب درخواست کی جاتی تو جواب ملتا : آپ کو اسلام آباد واپس جانا ہے ، فکر مت کیجیے۔ تھوڑی دیر میں ٹکٹ بھی مل جائے گا۔ ان دونوں سے زیادہ دبائو ڈالنے والی چیز تالیوں کا بے پناہ شور تھا ۔ سردار بہادر خاں ویمن یونیورسٹی کوئٹہ کے سیمینار میں ۔ پیچیدہ سا موضوع تھا ۔ خلاصہ جس کا یہ تھا کہ میڈیا کے بدلتے ہوئے رجحانات کیا ہیں ۔ تھوڑی سی تیاری اس پہ کر رکھی تھی ۔ یہاں پہنچ کے مگر معلوم ہوا کہ عنوان پاکستان کے قومی ذرائع ابلاغ کا روّیہ ہے ، بلوچستان کے بارے میں ۔ 
دلائل کی یلغار تھی ۔ تالیوں اور سیٹیوں کا طوفان، جو ہر ایک آدھ منٹ کے بعد پھوٹ بہتا۔ کان پھاڑ دینے والی آوازیں ۔ اللہ نے مظلوم کو اونچی آواز میں بولنے کا حق دیا ہے ، میں نے سوچا۔ پھر یہ کہ پرجوش طالبات اگر اپنے گھر میں بھی کھل کر، ڈٹ کر جذبات کا اظہار نہ کریں تو اور کہا ں کریں ۔ بات بس اتنی تھی کہ پچھلے ستائیس گھنٹے میں ساٹھ ستر منٹ ہی میں سو سکا تھا ۔ خود کو میں نے یاد دلایا کہ یہ وقت صبر کا طالب ہے ۔ 
گھن گرج کے ساتھ سٹیج سے تقاریر جاری تھیں ۔ بلوچستان کو نظر انداز کرنے پہ میڈیا کی مذمت کا سلسلہ ۔ وہ چینل جنہیں اپنے کاروباری مفادات عزیز ہیں ۔برسوں جنہیں الطاف حسین نے یرغمال بنائے رکھا ۔ کراچی ، بلوچستان اور قبائلی امن کی بجائے مزاحیہ پروگرام جنہیں زیادہ عزیز ہیں ۔ ایک ٹی وی میزبان کے اس جملے کو مقررین نے دانتوں سے پکڑ لیا کہ پروگرام اگر مقبول نہ ہو تو اشتہار کیسے ملیں گے ۔ اشتہار نہ ملیں گے تو میڈیا زندہ کیسے رہے گا ۔بعض نے ٹی وی میزبانوں کو غیر سنجیدہ قرار دیا۔ ایک آدھ نے کچھ کو غیر ملکی ایجنڈے کا پیروکار ۔ 
محرومی اور بے بسی میں راستہ جب سجھائی نہیں دیتا ۔ معلومات جب مکمل نہیں ہوتیں تو خیال ہمیشہ سازش پہ لپکتا ہے ۔ مبتلا اسی میں آسودگی پاتا ہے ۔ اعصاب شکن آوازیں الگ ، ہال کا سائونڈ سسٹم بجائے خود اذیت ناک ۔ آدھی بات سنائی دیتی اور آدھی مہمل سی ہو جاتی ۔ آخری بلند بانگ مقررسابق سینیٹر جناب لشکری رئیسانی نے سلیم بخاری اور اس ناچیز کو بار بار متوجہ کیا ۔ مودب ہم سنتے رہے ۔ مکالمہ اسی صورت میں ثمر بار ہوتاہے جب کھل کر بات کی جائے ۔ بلوچستان کو نظر انداز کرنے پہ ، ان کا موقف قابلِ فہم تھا ۔ ایسا ہی ہوتا آیا ہے اور مستقبل میں بھی اندیشہ یہی ہے ۔ 45فیصد رقبہ ،پورے صوبے کی آبادی کراچی سے ایک تہائی ۔ صنعت کا نام و نشان تک نہیں ۔ تزویراتی اعتبار سے بلوچستان ملک کا اہم ترین صوبہ سہی ۔ بے شک اس کے ساحل پر انسانی تاریخ کی عظیم ترین بندرگاہ تعمیر ہونے والی ہے ۔ بے شک تاریخ میں پہلی بار بحیرہ عرب کے گرم پانی تک چینیوں کے قدم پہنچیں گے۔ بے شک بلوچستان ہی پاکستان کا مستقبل ہے۔ اعتراضات درست ہیں مگر میڈیا تو ایک زکوٹا جن ہے ۔ ہر روز اسے اپنا پیٹ بھرنا ہے ۔ بھوکا وہ رہ نہیں سکتا ۔
سامنے آرام دہ صوفے پر بیٹھے ، میرے ذہن میں خیالات کے متصادم لشکر باہم الجھتے رہے ۔ مجھے لگا کہ آج بھد اڑے گی ۔ مصلحت سے کام لوں تو ایک ناقابلِ برداشت بوجھ اٹھا کر گھر پہنچوں ، مدتوں جو پریشان کرتا رہے گا۔ پوری بے تکلفی سے اپنا نقطۂ نظر بیان کروں تو آب گینوں کو ٹھیس لگے ۔ کیا کیجیے ، کیا کیجیے؟ اچانک چائے کے وقفے کا اعلان ہوا ۔ وقفے کے بعد سیمینار کا آخری سیشن ۔ نصف گھنٹے تک سکرین پر ایک امریکی پروفیسر کا ریکارڈ شدہ خطبہ ۔ وہی گھسی پٹی اصطلاحات ۔ بلندی سے وہی خطاب اور وہی مغربی تناظر ۔ تنگ آکر محترمہ وائس چانسلر صاحبہ سے پوچھا : کب تک ؟ یہ وعظ کب تک جاری رہے گا ۔ اوریا مقبول جان کھلکھلا کر ہنسے ، جو زیادہ غور سے دیکھ رہے تھے اور یہ کہا: کمال ہنرمندی سے آپریٹر نے تقریر آگے بڑھادی ہے ، کسی نے غور ہی نہ کیا ۔ وائس چانسلر صاحبہ کو شاید معلوم تھا ۔ بولیں ، بس یہی ایک آدھ منٹ ۔ پندرہ بیس سیکنڈ کے بعد اذیت رسانی کا سلسلہ ختم ہو گیا ۔ صاحبِ صدر اور مقررین کو سٹیج پر بلالیا گیا ۔ خواہش تو یہ تھی کہ جلدی سے نمٹا کر ایک آدھ خبر تلاش کی جائے ، کالم لکھا جائے ۔ ایک بہت ہی قابلِ اعتماد ذریعے سے درخواست کر رکھی تھی ۔ بار بار وہ فون کرتے لیکن پائے رفتن نہ جائے ماندن۔ ایک اور مقرر نمودار ہوا ۔ بلوچستان کی محرومیوں کا ایک اور نوحہ۔ وفاق کی بے نیازی کا ایک اور قصہ ۔ جذبات سے مغلوب ایک اور آواز ۔ ایک اور فریاد ۔ کئی نکات ایسے کہ سو فیصد اتفاق کے سوا چارہ نہیں ۔ بین السطور سازش کی وہی کہانی اور وہی اندیشہ۔ وائس چانسلر سے گزارش کی کہ مزید انتظار اب ممکن نہیں۔ فوراً ہی بات کرنے کی اجازت دی جائے ۔ اس کے بعد ہوائی اڈے پر پہنچنا ہے ۔ بہت دنوں کے بعد گھر جانا ہے ۔ 
ارادہ تھا کہ اپنا مشاہدہ اور اپنا تجزیہ ساتھ ساتھ بیان کر دیا جائے ۔ احتیاط ملحوظ رہے ، ریاکاری سے مگر کام نہ لیا جائے ۔ بات شروع کی تو ماجرا وہی ، جواسد اللہ خاں غالبؔ کو درپیش ہوا تھا ۔ دل میں پھر گریہ نے ایک شور اٹھایا غالب ؔ۔ جو قطرہ نہ نکلا تھا سو طوفاں نکلا۔ 
عرض کیا : تین برس تک اکیلا میں چیختا رہا کہ محروم بلوچستان کے لیے بجٹ کا حصہ محض آبادی نہیں ، ساتھ ساتھ رقبے اور غربت کو ملحوظ رکھتے ہوئے مختص کیا جائے ۔ تین برس تک کسی ایک بلوچ لیڈر ، کسی ایک بلوچ سردار کو بھی اس آواز میں اپنی آواز شامل کرنے کی توفیق نہ ہوئی ۔ 2013ء کے الیکشن سے بہت پہلے مستقبل کے وزیرِ اعلیٰ ڈاکٹر عبد المالک اور کئی دوسرے قوم پرست بلوچ سرداروں سے عرض کیا کہ قومی دھارے میںان کی شرکت کے لیے حالات اب سازگار ہیں ۔ کوئی سن کر نہ دیتا تھا۔ 
افراد یا اقوام ، انسانوں کو اللہ نے پیدا ہی آزمائش کے لیے کیا ہے ۔ اس نکتے کو آپ لوگ یکسر نظر انداز کیسے کر دیتے ہیں ۔ زندگی کو اللہ نے آویزش میں برپا کیا ہے ۔ روئے زمین پر کوئی قوم ایسی نہیں ، جو ابتلا سے گزری نہ ہو ۔ آزمائش سے گزر کر ہی خطے عروج پاتے ہیں ، بشرطیکہ سبق وہ سیکھ لیں ۔ تکلیف بری ہوتی تو اللہ کے محبوب بندوں کو کبھی نہ پہنچتی ۔ پیغمبرؑ تکلیف دہ آزمائش میں نہ ڈالے جاتے ۔ جتنی اقوام سرخرو ہوئی ہیں ، ابتلا سے گزر کر ہوئیں۔ انگلستان پر وائی کنگز نے حکومت کی ، رومن غالب آئے ، نارمن، حتیٰ کہ فرانسیسی ۔ سب سے بڑی عالمی طاقت ریاست ہائے متحدہ کبھی انگریز کی غلام تھی ۔ چین صدیوں تک پامال رہا ۔ آج نہایت تیزی سے انکل سام کا وہ مد مقابل بنتا جا رہا ہے ۔ ایک ہزار برس تک ہندوستان غلام رہا۔ ناکامی اچھی ہے ، اگر سبق دے سکے ۔ کامیابی بری ہے ،حد سے زیادہ اگر آسودہ کر دے ۔ ایک سوال اور بھی اٹھانے کی جسارت کی ۔ شمالی علاقہ جات اور آزاد کشمیر والوں کی کامیابی سے آپ سبق کیوں نہیں سیکھتے ۔ اپنے باقی مطالبات پر قائم رہ کر کچھ نہ کچھ وہ حاصل کرتے ہی رہے ۔ تعلیم میں ، روزگار میں ، ترقیاتی منصوبوں میں۔ بلوچستان کی سیاسی پارٹیوں کو کس نے روک رکھا ہے کہ اتفاق رائے سے رکوڈک میں شفاف کان کنی کا مطالبہ کریں ۔ تین چار برس میں شاید پانچ بلین ڈالر ، پھر دس بلین اور ممکن ہے کہ پندرہ بیس برس میں چالیس بلین ڈالر سالانہ ملنے لگیں ۔ اندازہ ہے کہ دو ہزار بلین ڈالر کا ذخیر ہ ہے ۔ کبھی کبھی ، کہیں کہیں تالیاں بجیں مگر اس ولولے کے ساتھ نہیں ۔ دو دن میں لیکن شاید یہ واحد تقریر تھی ، جو پوری توجہ سے سنی گئی ۔ عرض کیا ، خود رحمی (Self Pitiness)ہلاک کرتی ہے ۔ دل کا بوجھ ہلکا کرنے سے نہیں ، زندگی عمل سے برگ و بار لاتی ہے ۔ دانائی سے ، منصوبہ بندی سے۔ایک سوال تو بلوچستان کے اہلِ دل اور اہلِ نظر کی خدمت میں پیش کر دیا ، باقی ان کی مرضی۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved