تحریر : ڈاکٹر اکرام الحق تاریخ اشاعت     28-10-2016

پاکستانی شہریوں پر ٹیکس ڈاکہ

حکومت ِ پاکستان، عالمی مالیاتی ادارے اور کئی ایک این جی اوز، روزانہ کی بنیاد پر پاکستانیوں کو ٹیکس چورکہنے کی مہم میں مصروف ہیں ۔ یہ سلسلہ کئی برسوںسے جاری ہے ۔ چنانچہ اب بڑے بڑے ''ماہر‘‘ ٹی وی اینکرز بھی اپنے پروگراموں میں اس کا واویلا کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ستم بالائے ستم ، عوام کو پتہ ہی نہیں کہ وہ کس قدر ٹیکس ادا کرتے ہیں اور کتنا ایڈوانس انکم ٹیکس حکومت ِ وقت سے واپس لینے کے حقدار ہیں۔ 
حکومت ِ پاکستان کا محکمہ ایف بی آر اربوں روپے کا ایڈوانس انکم ٹیکس موبائل فون صارفین سے وصول کرتا ہے مگر کبھی اس کا تذکرہ نہیں کرتا ۔ ان کی تعداد چھ کروڑ کے قریب ہے ۔ گویا پاکستان میں انکم ٹیکس ادا کرنے والوں کی تعداد کل آبادی کے تیس فیصد سے کم نہیں ۔ اس میں سے بڑی تعداد اُن لوگوں کی ہے جو قابل ٹیکس (چار لاکھ روپے) آمدنی نہیں رکھتے ۔ پاکستان میں ایف بی آر کے مطابق انکم ٹیکس گوشوارے جمع کرانے والے لوگوں کی تعداد محض دس لاکھ ہے ۔ یہ تعداد 2003 ء میں پچیس لاکھ کے قریب تھی ۔ حیرت کی بات ہے کہ پچھلے دس سے تیرہ سال کے اندر پندرہ لاکھ ٹیکس گوشوارے جمع کرانے والے ہی غائب ہوگئے۔ ایڈوانس انکم ٹیکس ادا کرنے والوںکی تعداد تین کروڑ سے چھ کروڑ ہوگئی(موبائل صارفین کی صورت میں)، مگر گوشوارے جمع کروانے والے ایک تہائی رہ گئے۔ یہ ہے محکمہ ایف بی آر کی کارکردگی، جس پر ہمارے محترم وزیر ِ خزانہ ہر وقت نازاں رہتے ہیں اور فخریہ انداز میں ٹیکس کولیکشن میں بیس فیصد شرح نمو کاذکر فرماتے ہیں۔ 
ٹیکس کے اعدادوشمار میں کیا گھپلے میں، اس کا ذکر کئی مرتبہ ان کالموں میں کیا جاچکا ہے ۔ 300 ارب سے زیادہ کے ریفنڈز روک کر کارکردگی دکھانے اور 150 ارب سے زیادہ کے ایڈوانس لینے کا نتیجہ یہ ہے کہ اب رواں مالی سال میں ایف بی آر کی حالت انتہائی ناگفتہ بہ ہے ۔ اہداف کے پورے نہ ہونے پر ہر طرف سے افسران ہدف ِ تنقید ہیں مگر اصل مجرم جنہوں نے ریفنڈز روکنے اور ایڈوانس لینے کے لیے غیر قانونی احکامات جاری کیے ، پردوں کے پیچھے چھپے ہوئے ہیں۔ آنے والے دنوں میںمہنگے قرضے لے کر ریفنڈز واپس کیے جائیں گے ۔ مزید ایڈوانس لے کر بیس فیصد اضافے کا راگ الاپا جائے گا۔ جھوٹ کا بازار ایسے ہی گرم رہے گا اور ٹی وی پر آکر محترم وزیر ِ خزانہ محب وطن ہونے کا احسان فرماتے رہیں گے ۔ محنتی یا محب ِوطن ہونے کا تذکرہ اپنی جگہ پر، اصل کارکردگی تو سب پر عیاں ہے ۔ 250 ارب روپے کے نئے اور مہنگے قرضے اور ٹیکس ڈکیتی جس میں برآمدکنندگان کے اربوں کے ریفنڈز کا روکنا کس کو معلوم نہیں؟
مالیاتی اور تجارتی خسارہ اب بھی درد ِ سر کا باعث ہے ۔ نہ نئی صنعتیں اور نہ روزگار کے نئے مواقع ، اور پھر بھی بڑے بڑے دعوے کے معیشت کو کامیاب کردیا۔ یہ کامیابی کتنی حقیقی اور کتنی مصنوعی ہے، اس کا احوال سب جانتے ہیں۔ اس کالم میں بطور خاص تاریخ کی بھیانک ترین ٹیکس ڈکیتی کو اجاگر کرنے کا ارادہ ہے ، جس کے لیے مندرجہ ذیل اعدادوشمار کافی ہوں گے۔ 
(1) موبائل صارفین کی کل تعداد13 کروڑ ہے ، اورسب کے سب چودہ فیصد پیشگی انکم ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ اگر ایک سے زائد سم رکھنے والوں کی تعداد کو منہا کردیا جائے تو پھر بھی چھ کروڑ افراد ایسے ہیں جو حکومت ِ پاکستان کو چودہ فیصد ایڈوانس انکم ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ پچھلے مالی سال میں ایف بی آر نے اس مد میں 53 ارب روپے حاصل کیے ۔ اس میں سے محض دس لاکھ لوگوں نے انکم ٹیکس کے گوشوارے جمع کرائے ۔ جن افراد کی آمدنی چار لاکھ سے کم تھی، وہ گوشوارے کے جمع کرانے کے پابند نہیں، اور ان کی رقم سرکار نے بطور بھتہ وصول کی۔ وہ جن کی آمدنی بہت زیادہ تھی، مگر اُنھوں نے گوشوارے جمع نہیں کرائے ، اور محض ایڈوانس ٹیکس دیا، ایف بی آر کے حقیقی دوست ہیں۔ ان کا پتہ چلانا ایف بی آر کے لیے کیا مشکل تھا؟موبائل فون کمپنیوں سے معلومات حاصل کی جاسکتی تھیں کہ کس نے بیس ہزار سے زیادہ بل ادا کیا۔ ایسے لوگوں کو گوشوارہ جمع کرانے پر مجبور کیا جانا چاہیے تھا مگر ایف بی آر نے ناقص کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ 
(2) بنکوں سے منافع لینے والے دوکروڑ لوگوں نے دس فیصد کے حساب سے انکم ٹیکس ادا کیا، جو بنکوں نے منہا کر کے ایف بی آر کو دے دیا۔ان لوگوں کے لیے سال 2015-16 ء میں یہ حتمی ٹیکس تھا، لہٰذا اگر کوئی اور آمدنی نہیں تو مزید کوئی ٹیکس ادا نہیں کرناتھا۔ 
(3 ) تنخواہ دار طبقے نے مالی سال 2015-16ء میں 82.6 ارب کا ٹیکس ادا کیا ۔ اس سے پہلے 2014-15 ء میں اس طبقے کا ادا کردہ ٹیکس 79.4 ارب روپے تھا۔ 
(4) بجلی کے بلوں کے ساتھ انکم ٹیکس ادا کرنے والوں کی تعداد تیس سے چالیس لاکھ تھی، اور 2015-16 ء میں کل ایڈوانس انکم ٹیکس بتیس ارب روپے کے لگ بھگ تھا۔ 2014-15ء میں یہ ٹیکس 27.5ارب روپے تھا۔ 
یہ تمام اعدادوشمار ظاہر کرتے ہیں کہ اگرچہ پاکستان میں قابل ِ ٹیکس آمدن کمانے والوں کی تعداد ایک کروڑ سے زائد نہیں مگر اس سے چھ گنا زیادہ تعداد میں افراد انکم ٹیکس ایڈوانس کے طور پر جمع کراتے ہیں۔ حکومت خوش ہے کہ 90 فیصد انکم ٹیکس بھی پیشگی وصول ہوجاتا ہے ۔اس سے میں سے کچھ یا تو withhold کر لیا جاتا ہے یا بطور ایڈوانس وصول کر لیا جاتا ہے ۔ دولت مند طبقہ خوش ہے کہ وہ اپنی اصل آمدن پر ٹیکس کی بجائے محض پیشگی ٹیکس ادا کرکے بچ جاتے ہیں۔ غریب اور درمیانے طبقے کے لوگوں کو پتہ ہی نہیں کہ اُن کے ساتھ کیسی ڈکیتی ہورہی ہے ۔ 
یہ ڈکیتی سرکاری سطح پر ہورہی ہے ۔ اسے ڈکیتی کا نام ا س لیے دیا گیا ہے کہ حکومت اُن سے بھی ٹیکس وصول کررہی ہے جن پر ٹیکس واجب ہی نہیں۔ اس پر مستزاد، زہریلا پروپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ پاکستانی عوام ٹیکس چور ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ حکومت صرف امیر افراد کے لیے ہے ، غریب طبقہ صرف ووٹ دینے اور ہر قسم کے مصائب اور طعنے برداشت کرنے کے لیے ہے ۔ یہ ہے آج کا طرز ِ حکمرانی جسے بادشاہت سے بھی بدتر کہنا غلط نہ ہوگا۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved