تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     28-10-2016

ٹوٹے اور خانہ پُری

غریبی ختم
ہمارے محبوب وزیر اعظم نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ہم ملک سے غریبی ختم کرنے کے لیے پرعزم ہیں ہم چونکہ نئے نئے حکومت کے مدح خوانوں میں شامل ہوئے ہیں اس لیے قدرتی طور پر پرجوش بھی زیادہ ہے‘ اگرچہ حکومت کی طرف سے ہمارے بارے میں کوئی ہلچل نظر نہیں آتی‘ تاہم ہم حکومت سے مایوس ہرگز نہیں ہیں۔ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ حکومت نے اب تک جس معاملے پر بھی پرعزم ہونے کا دعویٰ کیا ہے‘ یا تو وہ ٹھس ہو گیا ہے یا لٹک گیا ہے‘ لوڈشیڈنگ کو ہی لے لیجیے جس کے بارے میں صاحب موصوف نے الیکشن‘ سے پہلے چھ ماہ میں ختم کرنے کے لیے پُرعزم ہونے کا اعلان کیا تھا‘ وہ نہایت ڈھٹائی سے اب تک جاری ہے بلکہ بعض اوقات اس میں اضافہ بھی ہو جاتا ہے‘ اس لیے وزیر اعظم کو آئندہ کسی بھی کام کے لیے پُرعزم ہونے کا عندیہ نہیں دینا چاہیے بلکہ اس کی بجائے یہ کہنا چاہیے کہ اگر خدا نے چاہا تو یہ ہو جائے گا کیونکہ اس طرح ذمہ داری صرف اللہ میاں کی ہو جاتی ہے۔ امید ہے اس مخلصانہ مشورے پر غور کیا جائے گا‘ ہیں جی؟
دفاتر مُقفّل
خبر ہے کہ اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ کونسل نے فنڈز نہ ہونے کی وجہ سے اپنے دفاتر مقفل کر دیے ہیں اور کہا ہے کہ جب تک فنڈز اور اختیارات نہیں دیے جاتے‘ یہ دفاتر نہیں کھلیں گے۔ ہمیں تو یہ بھی عمران خاں کی شرارت معلوم ہوتی ہے کہ ایک طرف وہ اسلام آباد بند کرنے جا رہا ہے تو دوسری طرف یہ دفاتر بند کیے جا رہے ہیں‘ حالانکہ اگر ان معززین کے پاس کرنے کا کوئی کام نہیں ہے تو حکومت اور وزیر اعظم کے لیے دعائے خیر ہی کرتے رہیں کہ ثواب کا ثواب ہے اور خدمت کی خدمت جبکہ حکومت اپنے ارکان اسمبلی کے لیے معاشی مسائل پیدا نہیں کرنا چاہتی‘ ہر منصوبے کی لاگت کا چھ فیصد جنہیں گھر بیٹھے ہی موصول ہو جاتا ہے‘ چنانچہ اگر یہ منصوبے بلدیاتی ارکان نے خود مکمل کرنے ہیں تو ارکان اسمبلی بے چارے تو مارے جائیں گے جو کروڑوں روپے خرچ کر کے منتخب ہوئے ہیں‘ اس لیے جہاں تک اختیارات کا تعلق ہے تو وہ خاطر جمع رکھیں بلکہ ہر طرح کے منصوبے بھی ڈی سی اوز مکمل کرایا کریں گے تاکہ کچھ دال دلیا ان کے لیے بھی میّسر آتا رہے۔
ایں گلِ دیگر شگفت
لوجی ‘ اور سنو‘ اے ڈی بی کے صدر تاکیہکہ ناکوانے بھی ہمارے ذاتی بلکہ گھریلو معاملات میں یہ کہہ کہ ٹانگ اڑانے کی کوشش کی ہے کہ پاکستان کو حکومتی معاملات بہتر کرنے کے لیے کرپشن کو ختم کرنا ہو گا۔ ظاہر ہے کہ یہ سب دشمنوں اور بدخواہوں کے پروپیگنڈے کا اثر ہے ۔ورنہ کرپشن اگر کہیں ہوتی تو ہمیں بھی نظر آتی جبکہ خادم اعلیٰ نے تو کرپشن کے جھوٹے الزامات پر عمران خاں کے خلاف عدالت میں جانے کا بھی اعلان کر دیا ہے جبکہ جہانگیر ترین اور علیم خاں نے بھی موصوف کے خلاف الگ الگ اربوں روپے کے ہرجانے کا دعویٰ کرنے کا اعلان کر دیا ہے ہماری دعا ہے کہ خدا کرے تینوں کامیاب ہو جائیں جس سے کم و بیش ایک کھرب کی وصولی ہو گی یعنی کسی بھی مقدمہ میں کرپشن ثابت نہیں ہو گی اور تینوں شخصیات نہائے دھوئے گھوڑے بن جائیں گے اور اے ڈی بی کے پریذیڈنٹ سمیت سارے چغل خور دیکھتے کے دیکھتے رہ جائیں گے اور آئندہ انہیں ایسی بے پرکی اڑانے کی جرأ ت ہی نہیں ہو گی۔
سپریم کورٹ کا فیصلہ
عدالت عظمیٰ نے پلی بارگینگ کرنے والے افسروں کے خلاف کارروائی کا حکم دے دیا ہے ۔ ہم اس پر تنقید تو نہیں کر سکتے لیکن مایوسی کا اظہار کرنا ضروری سمجھتے ہیں کیونکہ یہ ایک اچھے بھلے سلسلے میں رکاوٹ ڈالنے کے مترادف ہے کیونکہ ایسے افسران پلی بارگیننگ کرنے کے بعد پھر اپنے عہدوں پر متمکن ہو جاتے ہیں اور نہایت خشوع و خضوع کے ساتھ یہ نیک کام دوبارہ شروع کر دیتے ہیں جس سے حکومت کو بھی مستقل طور پر آمدنی ہوتی رہتی ہے‘ نیب کے متعلقہ افسروں کی بھی کچھ مدد ہو جاتی ہے‘ اس کمر توڑ مہنگائی میں جن کا تنخواہوں میں گزارا ہونا بہت مشکل ہو چکا ہے چنانچہ اصل میں تو اسے عمومی فلاح و بہبود ہی کا ایک ذریعہ سمجھنا چاہیے جس سے کئی فریقوں کا بھلا ہو جاتا ہے اور جملہ افسران ملک کی خدمت بھی کرتے رہتے ہیں کہ یہ جذبہ انہیں حکومتی انداز ہی سے ورثے میں ملا ہے۔ امید ہے جملہ ستم رسیدہ فریقین اس فیصلے کے خلاف جو کافی حد تک ظالمانہ بھی ہے‘ ریویو کی درخواستیں ضرور دیں گے۔
لال حویلی پر نوٹس بے دخلی
ایک خبر کے مطابق متروکہ وقف املاک بورڈ نے شیخ رشید کو راولپنڈی میں لال حویلی سے ملحقہ 10مرلے پر مشتمل پراپرٹی خالی کرنے کا نوٹس دیا ہے۔ ہم تو اسے دیر آید درست آید ہی کہیں گے کیونکہ نیک کام میں اگرچہ دیر کرنے کا حکم نہیں ہے تاہم یہ جس وقت بھی ہو جائے اس کی قدر کرنی چاہیے جبکہ شیخ صاحب کو ان کے تخریبی عزائم کا مزہ چکھانا بھی ضروری تھا جو وہ دھرنے کے حوالے سے بڑھ چڑھ کر سرانجام دے رہے ہیں بلکہ ہم تو کہتے ہیں کہ اگر یہ قبضہ ناجائز ہے تو لال حویلی پر قبضہ کیسے جائز ہو سکتا ہے‘ اس لیے شیخ صاحب کو وہاں سے بھی چھٹی کرانے کی ضرورت ہے تاکہ وہ صحیح معنوں میں عبرت پکڑ سکیں اصولی طور پر تو یہ کام بہت پہلے ہونا چاہیے تھا کہ نہ ہوتا بانس اور نہ بجتی بانسری۔ تاہم جن سرکاری املاک پر سرکاری عمائدین نے قبضہ کر رکھا ہے‘ انہیں پریشان کرنا مناسب نہیں ہو گا کہ وہ حضرات خود بھی سرکاری ہیں‘ مثلاً رانا ثناء اللہ اور‘ اب خانہ پری کے لیے یہ تازہ غزل:
جہاں پہ ہو نہیں سکتا کوئی‘ وہاں کوئی ہے
کہ داستاں نہیں اور زیب داستاں کوئی ہے
میں دل کے باہر ابھی تک قطار میں ہوں لگا
کہ دستیاب جہاں پر ہے وہ دکاں کوئی ہے
اب اس نواح میں مشکل ہے سانس لینا بھی
کہ آگ بھی نہیں موجود اور دھواں کوئی ہے
یہ رات وہ ہے کوئی گھر میں جاگتا بھی رہے
اسی پہ تکیہ نہ کرنا کہ پاسباں کوئی ہے
ہنسی خوشی تو بہت پھر رہے ہو‘ یاد رکھو
کہ اس زمین کے اوپر بھی آسماں کوئی ہے
میں جس حصار میں رہتا ہو کھویاکھویاسا
کسے خبر ہے کہ یہ رنجِ رفتگاں کوئی ہے
یہ شہر دیر سے خالی پڑا ہے اور اس میں
نہ کوئی قبل ازیں تھا نہ بعدازاں کوئی ہے
یہ صبح و شام بسیرا ہے بجلیوں کا جہاں
کسی شجر پہ ہمارا بھی آشیاں کوئی ہے
کِسی کے دل میں ہیں کمرے بھی‘ کھڑکیاں بھی‘ ظفر
وہاں میں رہ نہیں سکتا‘ مگر‘ مکاں کوئی ہے
آج کا مطلع
دُنیا رُکی رہی نہ زمانہ رُکا رہا
اپنا جو قافلہ تھا روانہ‘ رُکا رہا

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved