تحریر : حبیب اکرم تاریخ اشاعت     28-10-2016

کوئٹہ ـ: آگے جانا منع ہے

''صاب میڈیا والوں کا آگے جانا منع ہے‘‘، پولیس ٹریننگ کالج کوئٹہ کے گیٹ پر کھڑے سنتری نے کہا اور میں اس چار دیواری کے باہر ہی رک گیاجس کے دوسری طرف چند گھنٹے قبل دہشت گردوں نے اکسٹھ نوجوان پولیس والوں کی لاشیں بچھادی تھیں۔ یہ عصر سے کچھ پہلے کا وقت تھا، سوچا کہ اندھیرا ہونے سے پہلے پہلے اس کالج کی چار دیواری کے باہر باہر ایک چکر لگالیا جائے سو گاڑی سے نکلا اور سرد ہوا میں کالج کی دیوارکے ساتھ ہولیا۔ سڑک کے ساتھ ساتھ چلتی ہوئی تقریبََادو کلو میٹر طویل دیوار کا بیشتر حصہ اتنا مضبوط اور بلند ہے کہ یہاں سے کسی شخص کا مدد کے بغیراندر جانا بہت مشکل ہے ۔ جہاں یہ پکی دیوار ختم ہوتی ہے وہاں ایک چھوٹی سی مسجد اور چند دکانیں ہیں اور اس کے ساتھ ہی بائیں ہاتھ پر گلی نما کچی سڑک اس کالج کی دیوار کے ساتھ ساتھ چلی جاتی ہے ۔ اگرچہ اس طرف بنی ہوئی دیوار کچی معلوم ہوتی ہے لیکن پاس جاکر دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ مٹی میں پتھر ملا کر بنائی گئی ہے اور اتنی مضبوط ہے کہ بغیر اوزاروں کی مدد کے توڑنا ممکن نہیں البتہ کالج کے اس جانب بلوچستان کی روایتی ویرانی اور سناٹا ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔ اس گلی اور کالج کی دیوار کے درمیان شاید لوگوں کی زمینیں ہیں جن میں سے کچھ نے چار دیواری کرکے اپنی حدملکیت واضح کررکھی ہے۔ یہ دیوار بھی تقریباََ دو کلومیٹر لمبی اور سات فٹ اونچی ہے ۔ سریاب روڈ سے آنے والی اس گلی میں دو سو قدم چلیں تو بائیں ہاتھ پر کالج کا وہ ہاسٹل نظر آجاتا ہے جسے دہشت گردوں نے اپنا ہدف بنایا تھا۔ ہاسٹل کے قریب ہی وہ بارہ فٹ اونچا ٹاور 
ہے جہاں کھڑے سپاہی نے دہشت گردوں پر فائرنگ کی تھی مگر وہ اندر داخل ہونے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ میں اس ٹاور کے پاس سے ہوتا ہوا چلتا جارہا تھا کہ ایک زیرتعمیر دیوار پر نظر پڑی جس پر چڑھ کر دیکھا تو کالج کے اندر کا منظر بالکل واضح ہوگیا۔ جتنی ویرانی باہر تھی اتنی ہی کالج کے اندر بھی تھی کہ یہاں اب کوئی زیرتربیت سپاہی موجود نہیں تھا۔ ہاسٹل کے ایک حصے کی کھڑکیوں کے شیشے ٹوٹے ہوئے تھے اور پیلی دیوار پر آگ لگنے کے سیاہ نشان واضح تھے۔ یہاں آنے سے پہلے سول ہسپتال میں ایک زخمی سپاہی مجھے بتا چکا تھا ''کہ دہشت گرد اپنے ساتھ سرچ لائٹ لے کر آئے تھے، جب ہم نے گولیوں کی آواز سن کر اندھیرا کرلیا اور دروازہ بند کردیا تو انہو ں نے بارودی مواد سے دروازہ توڑا اور آتے ہی ہم پر فائر کھول دیا، سرچ لائٹ کی روشنی میں ہماری آنکھیں چندھیا گئی تھی اور وہ ہمیں تاک تاک کر نشانہ بنا رہے تھے۔ اگر کوئی چارپائی کے نیچے جان بچانے کے لیے گھسا تھا تو اسے ڈھونڈ کر مارا‘‘۔ 
مجھے اس ویرانے میں گھومتے ہوئے خاصا وقت گزر چکا تھا ، اندھیرا ہوچکا تھا کہ واپسی کا سفر شروع کیا۔ یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ کالج کے ہاسٹل کے پاس صرف ایک لائٹ اس طرح لگی تھی کہ اس کی روشنی ہاسٹل پر پڑتی رہے۔ عام طور پر اس طرح کی جگہوں پر روشنی کا انتظام ایسا ہوتا ہے کہ پہرے پر کھڑے سپاہی چار دیواری سے باہر دور تک دیکھ سکیں۔ ایسا کوئی تکلف یہاں پر نظر نہیں آیا ، رات کی تاریکی میں پہریدار کو حملہ آور کا پتا اسی وقت چلے گا جب وہ سر پر آن پہنچے گا اور ایسا ہی ہوا۔ اس طرف دیوار کے ساتھ تین واچ ٹاور ہیں اور ان تینوں میں اتنا فاصلہ ہے کہ اگر ایک ٹاور پر کوئی حملہ ہو تو دوسرے ٹاور پر بیٹھے سپاہی تک اس کی آواز بھی مشکل سے ہی پہنچے گی۔ کوئی حملہ آور کسی ایک ٹاور پر بیٹھے سپاہی کو الجھا لے تودوسرے ٹاور والے کو صورتحال سمجھنے میں اتنی دیر لگے گی کہ پوری ایک بٹالین بڑے آرام سے اس دیوار کو پھلانگ کر اندھیرے میں گم ہوسکتی ہے ، دو تین یا دس دہشت گردوں کا داخلہ تو کوئی مسئلہ ہی نہیں۔ کوئٹہ کے اس تازہ سانحے میں بھی یہی ہوا کہ ایک واچ ٹاور کو انگیج کیا گیا اور دہشت گرد با آسانی اندر داخل کر ہمارے نوجوانوں کاشکار کھیلتے رہے ۔ 
کالج کی دیوار کچی ہے یا پکی ہے، اس کے لیے پی سی ون کس نے بنایا یا نہیں بنایا، پیسے بروقت کیوں نہیں ملے، ان پولیس والوں کو ایک بار ان کے اضلاع میں بھیج دینے کے بعد دوبارہ کیوں بلایا گیا وغیرہ وغیرہ جیسے سوالات اہم ہیں لیکن واقعے سے ان کا کوئی براہ راست تعلق نہیں۔ بنیادی سوالات یہ ہیں کہ چاردیواری کے ساتھ ساتھ روشنی کا بندوبست کس نے کرنا تھا؟کالج کی پہریداری کی ذمہ داری کس پر تھی؟ اگر فوری طور پر کنکریٹ کے ٹاور نہیں بن سکتے تھے تو بانسوں کی مدد سے کوئی مچان بنا کر ان پرسرچ لائٹ اور سپاہی کیوں نہیں لگائے گئے؟ کالج کے اندر پانی کی بلند ٹینکی پر کوئی سپاہی کیوں نہیں تعینات ہوا؟ایک ایسا کالج جہاں پہلے بھی کئی بار دہشت گردوں کے حملے ہوچکے ہوں وہاں یہ سارے انتظامات کیوں نہیں ہوئے؟ اس بے عملی اور نا اہلی کا ذمہ دار کون ہے؟ان سارے سوالوں کا جواب ایک ہی شخص دے سکتا ہے جس کا نام ہے کیپٹن (ر) طاہر نوید جو ایک سال سے اس کالج کا کمانڈنٹ ہے۔ ڈی آئی جی پولیس کے عہدے پر پہنچا ہوا یہ شخص طویل عرصہ کراچی میں کام کرتا رہا ہے اور مختصر عرصے کے لیے کراچی کا سی سی پی او بھی رہا ہے۔ موصوف کی شہرت اتنی اچھی ہے کہ اس کے ایک ماتحت افسر ڈی ایس پی نذیر ابڑو نے میڈیا پر آکر الزام لگایا کہ طاہر نوید رشوت لے کر ماتحتوں کے تبادلے اور ترقیاں کرتا ہے۔ فوجی ٹریننگ سے آراستہ اور پولیس کے ایک طویل تجربے کے بعد بھی اس شخص کو کالج کے حفاظتی اقدامات بہتر بنانے کا خیال نہیں آیا تو اس کا مطلب ہے اسے پولیس، دہشت گردی اور جرم کے بارے میں کچھ معلوم ہی نہیں۔ بقول مجیب الرحمٰن شامی صاحب' اس شخص کو تو الٹا لٹکادینا چاہیے‘۔ مجھے لگتا ہے کہ طاہر نوید کے ساتھ ساتھ ان سولہ پولیس افسروں کو بھی اسی کالج کے سامنے الٹا لٹکانا چاہیے جو اس سے پہلے اس کالج کے کمانڈنٹ رہے ہیں اور اس میں چندہزار روپے کی لائیٹیں نہیں لگوا سکے۔ ان سارے افسر وں کا تعلق پولیس سروس آف پاکستان ( پی ایس پی) سے تھا اور اگر یہ سروس ایسے نالائق جن رہی ہے تو پھر ہمیں اس کے بارے میں بھی کچھ سوچنا ہوگا ۔ 
پولیس ٹریننگ کالج کوئٹہ کے گرد گھومتے ہوئے اور اس کالج کے کمانڈنٹ کی نالائقی کا ماتم کرتے ہوئے مجھے یاد آیا کہ تین مارچ 2009ء کو جب لاہور کی لبرٹی مارکیٹ کے قریب سری لنکن کرکٹ ٹیم پر دہشت گردوں نے حملہ کیا تو میں پولیس کی نا اہلی کے بارے میں ہی تو سوچ رہا تھا۔ اس کے چند دن بعد لاہور میں ہی مناواں پولیس ٹریننگ سنٹر پر حملہ ہوا تو یہ نا اہلی کھل کر سامنے آگئی۔مجھے 6 مئی 2011ئکی صبح بھی یاد آئی جب میں ایبٹ آباد میں اس مکان سے کچھ فاصلے پر کھڑا تھا جہاں سے امریکی فوجیوں نے اسامہ بن لادن کو اٹھالیا تھا اور ہمیں پتا بھی نہیں چلا تھا۔ اس دن بھی ہوا چل رہی تھی ، اسامہ بن لادن کے واقعے کو چار دن گزر چکے تھے۔ میں نے اس گھر کے زیادہ قریب جانا چاہا تو ایک سپاہی نے مجھے روک لیا اور کہا ''صاب میڈیا والوں کا آگے جانا منع ہے‘‘۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved