فیض صاحب نے کہا تھا ؎
انہی کے فیض سے بازارِ عقل روشن ہے
جو گاہ گاہ جنوں اختیار کرتے رہے
مزہ آ گیا۔ منتخب جمہوری حکومت نے فوجی آمر پرویز مشرف کی یاد تازہ کر دی‘ 12 مئی 2007 ء کو چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کراچی ایئرپورٹ سے باہر نہ نکل پائے تھے۔ جمعہ کے دن عمران خان بنی گالہ میں محصور رہے۔ فوجی آمریت اور جمہوریت میں امتیاز من و تو مٹ گیا۔حکومت کا جبر و اختیار اور تحریک انصاف کا جنون آمنے سامنے تھا اور پہلے رائونڈ میں تحریک انصاف کامیاب رہی۔
میاں نوازشریف کی شہرت ایک متحمل مزاج اور نرم گو شخص کی ہے۔ میاں نوازشریف کو سب سے زیادہ جسمانی‘ ذہنی اور نفسیاتی کوفت جنرل پرویز مشرف نے پہنچائی۔ اقتدار سے معزول کرنے کے بعد کئی روز تک قید تنہائی میں رکھا‘ اٹک قلعہ کی سیر کرائی جہاں بقول شخصے انہیں ڈرانے کے لیے سانپ بچھو چھوڑے جاتے‘ مگر میاں صاحب نے عوامی اجتماعات میں پرویز مشرف کا ذکر حقارت سے نہ کیا جس کا مستحق وہ عمران خان کو سمجھتے ہیں۔ تیسری بار وزیراعظم بننے والے متحمل مزاج سیاستدان کی اعصاب شکنی میں عمران خان محض تلخ کلامی کی وجہ سے کامیاب نہ ہوا‘ 2014ء کا دھرنا بھی اس کا سبب نہیں‘ بار بار سیاسی غلطیوں کے باوجود عمران خان اپنی مقبولیت اور حکومت پر دبائو برقرار رکھنے میں کامیاب رہا اور پاناما سکینڈل کو سات ماہ تک زندہ رکھا ‘حکمرانوں کے اعصاب شل ہو گئے۔
اسلام آباد میں تحریک کے یوتھ کنونشن پر پولیس کا دھاوا‘ اسلام آباد ہائیکورٹ کے واضح احکامات کی خلاف ورزی‘ دفعہ 144 کا نفاذ اور راولپنڈی میں کنٹینروں کی بہار‘ حکومت کی بدحواسی‘مایوسی‘ خوف اور پریشانی کا مظہر ہے۔ پابندیوں‘ رکاوٹوں‘ گرفتاریوں اور سیاسی کارکنوں بالخصوص خواتین کی مارکٹائی کے علاوہ بھی کئی اقدامات سے حکومت کا اندرونی خوف عیاں ہے۔ مثلاً الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر تشہیری مہم جس میں گڈانی پاور پراجیکٹ اور نندی پور پاور پراجیکٹ جیسے بجلی کے ناکارہ منصوبے شامل ہیں۔ اوّل الذکر منصوبہ کروڑوں روپے خرچ کرنے کے بعد بند کرنا پڑا اور موخر الذکر گرمیوں میں چلتا نہیں‘ جب عوام کو بجلی کی سخت ضرورت ہوتی ہے۔ چیئرمین نیپرا نے گزشتہ روز حکومت سے استفسار کیا کہ بجلی سستی ہونے کے بعدمصنوعی لوڈشیڈنگ کیوں کی جا رہی ہے جبکہ ستمبر میں سستی بجلی پیدا کرنے والے پلانٹ بند کرکے مہنگی بجلی پیدا کرنے والے پاور پلانٹ چلائے گئے۔ میاں نوازشریف کی طرح اسحاق ڈار بھی تلخ نوائی پر اُتر آئے ہیں جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ عمران خان کی چوٹ سخت ہے اور حکومت گھبرا کر اُن ہتھکنڈوں پر اُتر آئی ہے جو جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور میں مسلم لیگیوں کو بہت بُرے‘ آمرانہ اور سنگدلانہ لگتے تھے۔
اسلام آباد میں یوتھ کنونشن پر پولیس ایکشن‘ مارکٹائی اور گرفتاریوں کا سلسلہ اس وقت شروع ہوا جب آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف‘ وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خاں اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی ملاقات ختم ہوئی‘ حکومت اور عوام کی محبت کے مرکز قومی ادارے کے بعض بدخواہوں کو خواہ مخواہ شکوک و شبہات پیدا کرنے کا موقع ملا کہ حکومت ڈان لیکس پر بندۂ خاکی کا غصّہ ٹھنڈا کرنے میں کامیاب رہی اور تھپکی ملنے کے بعد سارا غصّہ تحریک انصاف کے کارکنوں پر نکالا۔ ملاقات کسی اور پس منظر میں ہوئی مگر حکومت نے ٹائمنگ کا
فائدہ اٹھایا اور سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات کی بہتری کا تاثر دیا۔ یوتھ کنونشن کے شرکاء پر پولیس کے لاٹھی چارج اور پکڑ دھکڑ کے موقع پر تحریک انصاف کے رہنمائوں مخدوم شاہ محمود قریشی اور اسلام آباد سے قومی اسمبلی کے رکن اسد عمر نے انتہائی غیر سیاسی طرزعمل کا مظاہرہ کیا۔ پولیس کے تشدد کا نشانہ بننے والے کارکنوں کی ڈھال بننے اور پولیس کی لاٹھیاں کھانے کے بجائے یہ دونوں رہنما آئی جی اسلام آباد سے ملاقات کا بہانہ بنا کر موقع سے غائب ہو گئے جسے اگر بزدلی نہیں تو غیر دانشمندی ضرور قرار دیا جائیگا ۔اگر یہ دونوںنازک مزاج منتخب ارکان خاتون سماویہ طاہر کی طرح دو چار لاٹھیاں کھا لیتے تو کارکنوں کا حوصلہ بڑھتااور پولیس بھی شاید پسپائی پر مجبور ہوتی۔ ان دونوں کے برعکس شیخ رشید احمد نے جمعہ کے روز پولیس کو چکرا دیاواقعی تجربے کا کوئی نعمل البدل نہیں‘ فائیو سٹار پجیرو سوار سیاستدانوں اور تھڑا چھاپ سیاسی کارکن میں یہی فرق ہے۔ تحریک انصاف کے کارکنوں نے تو ممی ڈیڈی اور برگر کلاس کا لیبل اُتار دیا ہے مگر بعض نازک اندام لیڈر اب تک اس ماحول سے نہیں نکلے ۔خیر یہ جملہ معترضہ تھا۔ تحریک انصاف کے کارکنوں نے ایک ایسی مضبوط حکومت کو بدحواس کر دیا ہے جس کا دعویٰ ہے کہ عوام کی تائید و حمایت اُسے حاصل ہے‘ ساڑھے تین سال میں اس نے ملک میں دودھ شہد کی نہریں بہا دی ہیں۔سرکاری خرچے پر تشہیری مہم سے یہی تاثر ملتا ہے اور 2018ء کا انتخاب بھی وہ جیتے گی۔مُنہ زور میڈیا کی موجودگی میں حکومت کے اقدامات اپوزیشن کی کامیابی کا اعلان ہیں‘ اب تعداد اہمیت رکھتی ہے نہ لیڈر کی ہجوم میں موجودگی۔
مولانا فضل الرحمن نے گزشتہ روز شیر کو گیڈروں سے نہ ڈرنے کی تلقین کی مگر اُن کے الفاظ ابھی سماعتوں سے محو نہ ہوئے تھے کہ خوفزدہ شیرنے ریاستی اہلکاروں کے علاوہ قومی وسائل ''گیڈروں ‘‘کے مقابلے میں جھونک دیئے۔ جمعہ کے روز جب پورے پنجاب اور اسلام آباد میں تحریک انصاف کے کارکنوں اور لیڈروں کی مار پٹائی اور پکڑ دھکڑ جاری تھی‘ میاں نوازشریف عمران خان کے بقول خیبر پختونخوا کے شہرکوہاٹ میں عوامی اجتماع سے خطاب کر رہے تھے جہاں دفعہ 144 نافذ تھی نہ مسلم لیگی کارکنوں کو جلسہ گاہ میں جانے سے روکا جا رہا تھا نہ حفاظتی انتظامات کے بہانے کنٹینر لگائے گئے تھے‘ اس کے باوجود میاں صاحب للکار رہے تھے کہ کہاں ہے تبدیلی؟ وفاقی اور پنجاب کی صوبائی حکومت کا مخالف سیاسی کارکنوں سے ''حسن سلوک‘‘ اور خیبر پختونخوا حکومت کی فراخدلی‘ پنجاب اور خیبر پختونخوا پولیس کے طرز عمل میں نمایاں فرق اور لال حویلی و بنی گالہ کا محاصرہ دیکھ کر بھی تبدیلی نظر نہ آئے تو آدمی کیا کہہ سکتا ہے؟ اسلام آباد ہائیکورٹ کے احکامات حکومت اور تحریک انصاف دونوں کے لیے تھے۔ تحریک انصاف اپیل کرنے کا ارادہ رکھتی ہے مگر حکومت نے جڑواں شہروں کے علاوہ پنجاب کے کئی شہروں میں پولیس گردی کا مظاہرہ کر کے یہ احکامات کوڑے دان میں پھینک دیئے۔
جمعرات کی صبح تک اپوزیشن کی جماعتیں اور غیر جانبدار حلقے تحریک انصاف کے لاک ڈائون کی مخالفت میں متحد تھے‘ اسے اسلام آباد کے شہریوں کے ساتھ زیادتی اور قانونی حدود سے متجاوز قرار دیا جا رہا تھا مگر چند گھنٹوں میں حکومت نے بازی پلٹ دی اور ہر جمہوریت پسند‘ غیر جانبدار اور انسانی حقوق کے علمبردار شہری کی انگلیاں حکومت پر اٹھنے لگیں‘ اب عمران خان اور تحریک انصاف سے کوئی کہہ نہیں سکتا کہ وہ 2 نومبر کو آگے نہ بڑھے اور ایک ایسی حکومت کے خلاف دھرنا نہ دے جسے قانون کی پروا ہے نہ سیاسی و جمہوری اقدار و روایات کا پاس اور نہ جو اپنے آپ کو عوام کے سامنے جوابدہ سمجھتی ہے۔ عمران خان کا مقدمہ پہلے بھی مضبوط تھا۔تنازعہ یہی ہے کہ حکمرانوں کو شہر بند‘ کرپشن کے ریکارڈ قائم اور قانون کو موم کی ناک بنانے کا حق حاصل ہے یا نہیں؟ جمعرات کی شام اور جمعہ کے دن حکومت اپنا اخلاقی و سیاسی مقدمہ ہار گئی۔ پاناما سکینڈل سے جان چھڑانے کی حکومتی کوششوں کو عوام پسند کرتے ہیں نہ حکمرانوں کو ہر طرح کے احتساب سے بالا سمجھتے ہیں‘ ویسے بھی جب حکمرانوں کے ہاتھ صاف ہیں تو وہ پاناما لیکس اور سانحہ ماڈل ٹائون کی شفاف تحقیقات سے گھبراتے کیوں ہیں اور جواب طلب کرنے والوں کو اسلام آباد آنے سے روکنے کا کیا جواز ہے؟
راولپنڈی اور اسلام آباد میں تحریک انصاف‘ عوامی تحریک‘ عوامی مسلم لیگ اور مسلم لیگ (ق) کے کارکنوں نے رکاوٹوں‘ لاٹھی‘ گولی‘ آنسو گیس اور گرفتاریوں کی پروا نہ کرتے ہوئے یہ ثابت کیا ہے کہ پاکستان میں مخلص‘ جانثار اور پرجوش کارکن ختم نہیں ہوا۔ مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی نے اپنے کارکنوں کو مراعات‘ مناصب اور دھن دولت کی لت لگائی ‘بُرا کیا مگر ایک نئی قسم کا پڑھا لکھا‘ باشعور‘ بے لوث اور بہادر سیاسی کارکن میدان میں ہے‘ وہ جبر و اختیار کے موسم کو جنوں کا‘ طوق ودار کا موسم بنانے پر تُلا ہے۔ انہی مخلص اور وفا شعار کارکنوں کے بارے میں فیض صاحب نے کہا تھا ؎
اُنہی کے فیض سے بازارِ عقل روشن ہے
جو گاہ گاہ جنوں اختیار کرتے رہے
ڈاکٹر طاہر القادری موقع کو غنیمت جانیں اور وطن واپس آ کر حکومتی ظلم و زیادتی‘ منہ زوری کے خلاف عمران خان کی تحریک میں حصہ لے کر قصاص کی دیرینہ خواہش پوری کریں۔ عوامی جذبات تحریک میں شامل ہیں۔