تحریر : عرفان حسین تاریخ اشاعت     29-10-2016

پلیز،کبوتر کو تو رہا کردیں

انڈیا ایک بلین سے زیادہ آبادی، فروغ پاتی ہوئی معیشت، طاقتور فوج، قدیم تہذیب اور عالمی ہم آہنگی رکھتا ہے۔ دنیا کے دارالحکومتوں میں اُس کی آواز سنی جاتی ہے۔ اُس کے سائنسدان مریخ کے مدار میں سیارچہ بھیجنے میں کامیاب رہے ۔ اس کی دنیا میں پوزیشن کیا ہے لیکن وہ اس کا اظہار کس طرح کرتا ہے ؟ وزیر ِاعظم نریندر مودی کے لیے مبینہ طور پردھمکی آمیز پیغام لے جانے والے کبوتر کو ''گرفتار‘‘ کرکے؟اسی طرح اس نے پاکستانی ہائی کمیشن کے ایک اہل کار کو جاسوسی کے الزام میں ملک بدر کردیا ۔ اخبار 'دی ہندو‘ کے مطابق اختر نے پاکستان کے لیے جاسوس کرنے کے لیے دوبھارتیوں کو تیار کیا تھا۔ ان میں سے ایک مولانا رمضان خان، جو کہ کسی گائوں کی مسجد کی دیکھ بھال کرنے والے مبلغ ہیں، اور دوسراسبھاش جانگیر (Subhash Jangir)، جو ایک چھوٹے سے کریانہ سٹور کا مالک ہے ۔ اس طرح یہ دونوں افراد کسی طور پر جیمز بانڈ کی صلاحیتوں کے حامل دکھائی نہیں دیتے ۔ 
سچی بات یہ ہے کہ تیز ترقی اور اپنے حجم کے باوجود بھارت بہت حد تک ایک غیر محفوظ اور خوفزدہ ملک ہے ۔ اگرچہ میں جب بھی پاکستان کے معروضی حالات پر تنقیدی کالم لکھتا ہوںتو میرے بھارتی دوست اُنہیں سراہتے اور میری تعریف کرتے ہیں ، لیکن جب میں اُ ن کے ملک کی کسی منفی چیز کو اجاگر کرتا ہوں تو میرا ان باکس مشتعل پیغامات سے بھر جاتا ہے ۔ 
گویا پاکستانی صحافیوں کو اُن کے ملک کے بارے میں بات کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ صرف پاکستانی ہی نہیں، چند سال پہلے میری ملاقات نئی دہلی میں اپنے فرائض سرانجام دینے والے ''دی اکانومسٹ ‘‘ کے نمائندے سے ہوئی، جو عام انتخابات کی رپورٹنگ کرنے کے لیے لاہور آئے ہوئے تھے ۔ میں نے قدرے مزاحیہ انداز میں اُن سے کہا کہ وہ یہاں پاکستان آکر بہت بوریت محسوس کررہے ہوں گے کیونکہ دہلی میںآج کل پارٹی سیزن ہے ۔ اُنھوں نے مجھے یقین دلایا کہ وہ پاکستان آنا پسند کرتے ہیں کیونکہ اگرچہ وہ بھارت میں رہتے ہیں لیکن جب بھی بھارت پر کوئی تنقیدی مضمون لکھتے ہیں تو بھارتی قارئین اُن پر چڑھ دوڑتے ہیں۔ دوسری طرف پاکستان کے بارے میں لکھے گئے تنقیدی مضامین پر پاکستانی قارئین کا رویہ بہت سلجھا ہوا ہوتا ہے۔ اُن میں سے اکثر اُن کے ساتھ اتفاق بھی کرتے ہیں ۔ 
پندرہ سال پہلے جب میں نئی دہلی میں تھاتو دی ٹائمز آف انڈیا نے مجھے اپنے ایڈیٹوریل سٹاف سے گفتگو کی دعوت دی۔ دوران ِ گفتگو میں نے اس بات کی نشاندہی کی کہ پاکستان میں فوجی مداخلتوں کی طویل تاریخ کے باوجود مرکزی پریس میں لکھنے والوں کے ایک چھوٹے گروہ نے افغانستان پر ریاست کی پالیسی پر ہمیشہ تنقید کی ہے ۔ اس کے علاوہ ہم نے کشمیر اور ایٹمی پروگرام کا بھی ناقدانہ جائزہ لیا ہے ۔ دوسری طرف بھارتی میڈیا قومی اورقوم پرستی کے ایجنڈے میں اپنی حکومت کے ساتھ کھڑا دکھائی دیتا ہے ۔ میٹنگ میں موجود کسی صحافی نے میرے خیالات کو چیلنج نہ کیا۔ تاہم ایک لکھاری نے نشاندہی کی کہ مرکزی پریس کے دولت مند مالکان اپنے سرکاری روابط اور اپنے سسٹم کو اپ سیٹ نہیں کرنا چاہیے ۔ 
تاہم بھارتی قارئین کی طرف سے دکھایا جانے والا رد ِعمل ظاہر کرتا ہے کہ مسئلہ صرف میڈیا مالکان کا نہیں، کہیں زیادہ گہرا ہے ۔ ارون دھتی رائے کے کیس کو دیکھیں، وہ انتہائی باصلاحیت لکھاری ہیں جن کے فکشن کو عالمی سطح پر پذیرائی 
حاصل ہوئی، اور معاشرے کے پسے ہوئے طبقے کے لیے اُن کی رپورٹنگ کو بھی سراہا گیا، لیکن جب ایک دومواقع پر میں نے اُن کے کام کااپنے کالموں میں حوالہ دیا تو میرے میل باکس میں مس رائے کی مذمت کرنے والے بھارتی قارئین کی میلز کا تانتا بندھ گیا ۔ اُن میں سے بعض نے مجھے باور کرایاکہ مس رائے کا حوالہ دیتے ہوئے میں نے اپنی ساکھ تباہ کرلی ہے ۔ یقینا بھارتی قارئین ارون دھتی رائے کے دلیرانہ اظہار یے کو برداشت نہیں کرپائے تھے جس میں وہ بھارتی سکیورٹی فورسز کی زیادتیوںپر روشنی ڈالتی ہیں، نیز بزنس گروپس کی معاشرے کے ستم زدہ طبقے کی حق تلفی کو بھی منظر عام پر لاتی رہتی ہیں۔ یقینا بھارتی اشرافیہ اور پھیلتا ہوا درمیانہ طبقہ ایسی سچائی کو برداشت کرنے کی تاب نہیں رکھتا۔ 
حالیہ دنوں پاکستانی فلم سٹازاورموسیقاروں پربھارت میں پرفارمنس دکھانے پرپابندی عائد کردی گئی ہے ۔ یہ پابندی اُس قوم پرستی کے شدید جنون کی عکاسی کرتی ہے جس نے ملک کو گھیرے میں لیا ہوا ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ سب کچھ اُڑی حملے ، جس میں بھارتی فوج کا بھاری جانی نقصان ہوا، کے پس ِ منظر میں ہوا ،لیکن کیا ثقافتی روابط ہمیشہ کے لیے انتہا پسندوں کے ہاتھ گروی رکھے جاچکے ہیں؟شرم کی بات ہے کہ ہم نے بھی اس کے رد ِعمل میں بھارتی فلموں اور ٹی وی چینلوں پر پابندی لگادی۔ اگر ہمارے رہنمائوں میں رتی بھر معقولیت ہوتی تو وہ اپنی سابق پالیسی پر گامزن رہتے ہوئے بھارتی جنون کا جواب جنون سے نہ دیتے ، لیکن افسوس، سرحد کے دونوں طرف معقول رویوں کا قحط ہے ۔ 
تو پھر زیادہ تر بھارتیوں نے اپنے کندھوں پر کو ن سے ستارے سجائے ہوئے ہیں۔ کیا وہ اپنے ملک کی ثقافتی قدروں اور تاریخ اور جغرافیائی تنوع پر نازاں ہونے کا کوئی جواز رکھتے ہیں؟وہ تو کبھی کبھار کی گئی تنقید پر بھی آگ بگولہ ہوجاتے ہیں۔ کیا وہ توقع کرتے ہیںکہ عالمی برادری ہمیشہ اُنہیں سراہتی رہے گی؟اگرچہ میرے پاس ریسرچ سے حاصل کردہ کوئی مواد نہیں ، لیکن میرا خیال ہے کہ بھارتی قارئین کی طرف سے ظاہرکردہ تنک مزاجی کی وجہ شاید غیر ملکی تسلط کی تاریخ ہے ۔ افغانستان اور وسطی ایشیا سے آنے والے مسلمان فاتحین نے انڈیا پر کم و بیش اٹھ سوسال حکومت کی تھی۔ اس کے بعد چند سوسال تک برطانیہ کی حکومت رہی ۔ چونکہ جنوبی انڈیا بہت حد تک مسلمان بادشاہوں سے آزاد رہا، اس لیے وہاں کے لوگ نسبتاً زیادہ پراعتماد اور باصلاحیت ہیں۔ کئی سال پہلے جب میں وہاں گیا تو مجھے اکثر یہ بیانیہ سننے کو ملا کہ اگر جنوبی انڈیا نئی دہلی کے ساتھ نہ جڑا ہوتا تو وہ بہت زیادہ ترقی کرسکتا تھا۔ مجھے احساس ہے کہ میں ہاتھ میں سرخ رومال پکڑ رہا ہوں۔ اس سے پہلے کہ میرا میل باکس کھولتی ہوئی ای میلز سے سلگ اٹھے، بھارتی حکام سے استدعا ہے کہ پلیز ، بے زبان کبوتر کو تو رہاکردیں۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved