پاکستانی بچوں کی طرف سے دہشت گردوں کے خلاف لکھے گئے ایک قومی ترانے کے چند مصرعوں کا تھوڑا سا ردوبدل کر کے دیکھا جائے‘ تو آج کے بچوں کے لئے ایک نیا ترانہ بنایا جا سکتا ہے۔
میں آنے والا کل ہوں وہ مجھے کیوں آج مارے گا
یہ اس کو وہم ہو گا کہ وہ ایسے خواب مارے گا
تمہارا خون ہوں نا اس لئے اچھا لڑاکا ہوں میں
میں اس قوم سے ہوں جس کے وہ بچوں سے ڈرتا ہے
بڑا حاکم بنا پھرتا ہے جو بچوں سے ڈرتا ہے
راولپنڈی میں شہید ہونے والے ایک چار روزہ بچے کا سانحہ‘ نہ جانے کتنے شاعروں اور ادیبوں کی یادوں کا حصہ بن کر رہ جائے گا ؟ ان کی تخلیقات میں کب تک جھلکے گا؟ اور کب تک ان کے پڑھنے والے اس نئے درد کو دہرائیں گے؟ جو ایک حالیہ المیے کا ساتھی بن کر آنے والی نسلوں کے جذبات میں زندہ رہے گا۔ ہم محاورۃً زندگی کو چار روزہ لکھتے ہیں۔ لیکن سپاہ سرکار کے ایک شیردل اہلکار نے‘ اس محاورے کو حقیقت میں بدل دیا۔ جنگوں میں عورتیں‘ بچے‘ بوڑھے سب اسلحے کا استعمال کرتے ہیں۔ لیکن ہدف نامعلوم دشمن ہوتا ہے۔ ایسا دشمن ‘ جس کے ساتھ ان کا ذاتی عناد نہ ہو۔ اس طرح کے سانحے ان جنگوں میں ہوتے ہیں‘ جنہیں ہم قومی سمجھ کر لڑتے ہیں۔ قوموں کے فیصلے ان کے لیڈر کرتے ہیں۔ جب قوموں کے درمیان کوئی تنازعہ پیدا ہوتا ہے‘ تو یہ دونوں ‘ تینوں یا درجنوں کے درمیان ‘ہونے والی جنگوں کی صورت میں بدلتا ہے اور جب ایسا ہو جائے‘ تو ہرمتعلقہ قوم کے لیڈر‘ اس تنازعے کے حل کے لئے‘ آبادیوں کو انسانی خون میں ڈبو دیتے ہیں۔ یہ پرانے زمانے کی باتیں ہیں‘ جب خون بہانے کے سوا‘ جنگ لڑنے کے جدید طریقے اور ذرائع سامنے نہیں آئے تھے۔ تیروں‘ تلواروں اور نیزوں کی جگہ بارود نے لے لی اور بارود نے وہ جلوے دکھائے کہ صرف خالی توانائی بن کر رہ گیا۔ ان دنوں ہم اسے ایٹمی اسلحہ کہتے ہیں۔
قرون اولیٰ تو کیا قرون وسطیٰ کی کسی جنگ کا تصور کریں‘ تو اس میں شریک ہونے والوں نے جنگ کا جو بھی تصور کیا ہو گا‘ اس میں تڑپنے اور خون بہا کر لڑنے والوں کے سوا کوئی منظر سامنے نہیں آتا ہو گا۔ تلوار سے کٹی ہوئی گردنوں اور دست و بازو یا جسم کے مختلف حصوں میں لگے زخم‘ جہاں سے فوارے کی صورت یا بوند بوند ٹپکتا ہوا لہو‘ زندگی کو جنگلوں‘ صحرائوں یا کھیتوں کی مٹی پر نچھاور کرتا اور نئی زندگیوں کی فصلوں کو جنم دیتا ہے۔مگر یہ گیس‘ توانائی اور بارود کا زمانہ ‘موت کو اسی طرح محسوسات کے دائرے سے نکال چکا ہے‘ جیسے ذرے کو توانائی میں بدل دیتا ہے۔ میں اس معصوم بچے کی موت کو ‘کس دور کی موت کے عہد میں دیکھوں؟ تیر تلوار کے زمانے کی؟ بارود کے زمانے کی؟ یا توانائی کے دور کی؟ اس سے اگلے زمانے کی موت ‘گیس پر سوار ہو کے نازل ہوتی ہے۔ یہ زمانہ گزشتہ صدی کے ساتھ شروع ہوا اور نہ جانے کب تک جاری رہے گا؟ میں تو ابھی تک ایٹمی موت کا تصور کرنے سے قاصر ہوں۔ ایٹمی تباہی کی نذر ہونے والے انسان کا جسم کیا شکل اختیار کرتا ہو گا؟ وہ مٹی‘ راکھ یا ازسرنو زندگی کی نئی نئی شکلوں میں دوبارہ نمودار ہو تا ہو گا۔ ایٹمی اسلحہ سے نکلی ہوئی توانائی انسانی یا حیوانی زندگیوں کو کیا صورت دیتی ہو گی؟ نئی طرح کی توانائی؟ مگر یہ توانائی اپنے رہنے کے لئے کوئی وجود تلاش کرے گی یا محض تلاش؟ کیا تلاش کے اندر رہنا ہی اس کی زندگی ہو گی؟ زندگی بھی ہو گی یا کسی اور طرح کی چیز؟
میں بھی کہاں نکلتا جا رہا ہوں؟ میں چار دن کے بچے کے وجود میں ‘چند لمحے گزار کے رخصت ہو جانے والی زندگی کے ‘چند لمحوں میں سمٹے ہوئے عرصے کو لوگ کیا کچھ کہتے ہوں گے؟ کیا اس حکومت کے دشمن کی صورت میں؟ جسے رشتوں کی دنیا میں قدم رکھنے کا موقع ہی نہیں ملا ہو گا۔ اس نے کب اور کیسے جانا ہو گا؟ اس کا باپ کون ہے؟ اس کی ماں کیا ہے؟ اس کے بہن بھائی کیسے ہیں؟ اس کے دوست اور دشمن کون ہیں؟ وہ غذا کیا ہے‘ جو اس کے نصیب میں لکھی تھی؟ لیکن وہ کھا نہیں پایا۔ پیار کے وہ بوسے کیسے ہوتے ہیں؟ جو ماں باپ اور بہن بھائیوں کی طرف سے‘ اس کے نرم و نازک گالوں کو لمس کی پہلی لذت دیتے ہیں۔ روایتی کہانیوں میں حاکموں اور بادشاہوں کو ‘رعایا کے پالن ہار کہا جاتا ہے۔ مگر جب رشتوں کی یہ نوعیت ہوا کرتی تھی‘ وہ زمانے کب تھے؟ کب آئے؟ کب گزر گئے؟ اور پھر کیوں گزر گئے؟ اگر ان زمانوں میں کوئی پیار تھا‘ تو وہ رخصت کیوں ہو گیا؟ اگر اس زمانے میں کسی طرز کے رشتے تھے‘ تو وہ طرز کہاں ختم ہو گئی؟ جو سوال میرے ذہن میں آ رہے ہیں‘ وہ چار دن کا بچہ‘ ایسے کروڑوں سوال ذہن میں لایا ہو گا؟ ان سوالوں کا جواب ڈھونڈنے کے لئے اس کی قوت تخلیق کیسے کیسے معرکے سر کرنے والی تھی؟ شاید وہ زندگی دینے والی کوئی دوا یجاد کر لیتا۔شاید وہ نئی غذائیں ایجاد کر لیتا۔ شاید وہ محسوسات کی لامحدود اقسام ایجاد کر جاتا۔ جتنا کچھ ہم اپنے گردونواح میں دیکھ رہے ہیں‘ یہ کسی نہ کسی بچے نے‘ عالم شباب میں آنے کے بعد ہی تلاش کیا ہو گا۔
ہمارے حاکم‘ ہمارے محبوب ‘ ان کے باہمی رشتے ‘نسل انسانی کو راحتیں اور آسودگیاں دینے والے ذرائع و آلات ‘ خوشیوں کے نئے نئے سانچے‘ موت کے دکھ کو محسوسات کے نئے رنگ روپ میں بدلنے والا کوئی طرز احساس ۔ یہ دنیا بہت چھوٹی تھی۔ شاید ذرے کے برابر۔ یا ذرے سے بھی کم۔ یہ پوری کائنات جو مسلسل پھیل رہی ہے‘ یہ بھی تو ایک ذرے ہی سے وجود میں آئی یا شاید اس ذرے سے برآمد ہونے والی توانائی۔ کسی کو کچھ نہیں پتہ۔ ہر نیا جنم لینے والا بچہ‘ اپنے ساتھ دریافتوں کی کون کون سی اورکیسی کیسی وسعتیں ‘ آنے والی نسلوں کے لئے لے کر آیا ہو گا؟زندگی اللہ تعالیٰ کی دین ہے۔ موت بھی اللہ تعالیٰ کی دین ہی ہے۔ لیکن یہ چار دن کا بچہ؟ اسے نہ تو زندگی ملی اور نہ موت۔ ہر قاتل کا کوئی نہ کوئی مقصد اور کوئی نہ کوئی خوف ہوتا ہے۔ مگر اس چار روزہ معصوم بچے کے ہاتھوں سے مرنے کا خوف کس کو تھا؟ بڑا حاکم بنا پھرتا ہے جو بچوں سے ڈرتا ہے۔وہ کونسا خو ف ہے‘ جو چار دنوں کے بچے پرزہریلی گیس چلوا دے؟چار دنوں کے بچے سے خوفزدہ آدمی کی بھی کوئی زندگی ہے؟