تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     30-10-2016

ٹاٹ سکول سے آکسفورڈ یونیورسٹی تک۔۔۔۔!

کافی دیر سے کچھ لکھنے کی کوشش کر رہا ہوں، یقین کریںکچھ لکھا نہیں جا رہا۔
وجہ بلاول زرداری کی پریس کانفرنس ہے جو انہوں نے پانچ سو ارب روپے سکینڈل کے مرکزی ملزم ڈاکٹر عاصم حسین سے ہسپتال میں ملاقات کے بعد کی۔ فرماتے ہیں، ڈاکٹر عاصم سیاسی قیدی ہیں، اچھے انسان ہیں، ان کی بے پناہ خدمات ہیں، ان کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے۔ بارہ مئی کے مرکزی ملزم کے بارے میں کہا کہ اسے فوراً رہا کرو۔ 
میں سنتا رہا اور دکھی ہوتا رہا کہ کیا ہم سب ساری عمر ایک نسل کے بعد دوسری نسل کے ہاتھوں بیوقوف بنتے رہیں گے؟ کیا بلاول کو جوکچھ بھی پڑھا دیا جاتا ہے وہ اسی کا رٹا لگا کرکیمروں کے سامنے پڑھ کر سنا دیتا اوراپنے اردگرد کھڑے لوگوں سے داد وصول کرتا ہے؟ اسے علم ہے کہ اس قوم پر ایک سو سال سے زیادہ عرصہ انگریزوں نے حکمرانی کی، لہٰذا غلام ذہنیت کے لوگ اپنے آقائوں کی زبان میں گفتگو سن کر زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ دیہات میں بھی وہ لوگ الیکشن جیت جاتے ہیں جن کے پاس تین چار بڑی گاڑیاں ہوں۔گائوںکے لوگ حسرت سے ان گاڑیوں کو تکتے ہیں اور انہیں ووٹ ڈال کر سمجھتے ہیں کہ اتنا بڑا آدمی ان کے گھر چل کر آیا ہے، ایک ووٹ ہی کی تو بات ہے۔ جو جتنا بڑا آدمی ہے وہ اتنا زیادہ عوام کی نفسیات پر حاوی ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ 
اگر بلاول کو بھی نہیں پتا کہ ڈاکٹر عاصم حسین نے اپنے دور میںکیا کیا کھیل کھیلے ہیں تو پھر باقی کیا بچتا ہے؟ چلیں بلاوہ مجھ جیسے بدخواہ کی بات پر یقین نہ کرے، خورشید شاہ کی پبلک اکائونٹس کمیٹی کے سامنے آڈیٹر جنرل کی پچھلے سال کی آڈٹ رپورٹ ہی منگوا کر پڑھ لے کہ موصوف نے کتنے جعلی میڈیکل کالجوں کی منظوری دی تھی، جو پاکستانی قوم کے بچوں کے مستقبل کے ساتھ کھیلیںگے۔کسی وقت وہ اپنے سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف سے پوچھ لیںکہ آخری دنوں میں کتنے سی این جی پمپ کی منظوری دی گئی اورکیوں دی گئی اور اس کے بدلے میںکیا کھیل کھیلا گیا؟
بلاول بھٹو کسی دن ای سی سی کے آخری دو اجلاسوں کے منٹس پڑھ لیں تو پتا چل جائے گا کہ ان کے پیارے انکل ڈاکٹر عاصم حسین نے کیسے کیسے کھیل کھیلے۔ تیس ایجنڈا آئٹمز میں سے بیس سے زیادہ ڈاکٹر عاصم حسین کے تھے جبکہ پیپلز پارٹی حکومت ختم ہونے میں صرف ایک ہفتہ باقی تھا۔ 7 اور8 مارچ 2013ء کو ہونے والے مسلسل دو دن کے اجلاسوںکی تفصیل نرگس سیٹھی بہتر بتا سکتی ہیں، جنہوں نے کوئی اعتراض نہ کیا تھا کہ آخری ہفتے میںکیوں منڈی کھول دی گئی تھی! لوٹ مارکا بازارگرم تھا! وہ کابینہ کی سیکرٹری تھیں اور بھاگ بھاگ کر مدد فرما رہی تھیں۔ آج کل موصوفہ سی ایس ایس امیدواروںکے انٹرویوز فرماتی ہیںکہ ملک کو مزیدکرپٹ بیوروکریٹ کیسے چن کر دیے جائیں۔ وزیراعظم گیلانی سے اس وعدہ پر پرنسپل سیکرٹری کا عہدہ لیا تھا کہ ان پرکوئی مقدمہ نہیں بنے گا۔ لیکن اب موصوف درجنوں بھگت رہے ہیں اور موصوفہ خود ریٹائرمنٹ کے بعد بھی اعلیٰ عہدے پر براجمان ہیں۔ 
مجھے یاد ہے، جب میں نے وزیر پٹرولیم ڈاکٹر عاصم حسین کے خلاف سکینڈلز فائل کرنے شروع کیے تو وہ میرا مذاق اڑاتے تھے۔ جب ان کا موقف لینے کے لیے فون کرتا تو وہ مذاق اڑاتے اور ہنستے تھے کیونکہ وہ زرداری کی ناک کا بال تھے۔ فرماتے، آپ کا کیا خیال ہے، آپ کی خبروں کی وجہ سے میں وزارت سے ہٹا دیا جائوںگا یا مجھے جیل ہوجائے گی؟ 
قدرت کے اپنے کھیل ہوتے ہیں، اپنا رنگ ہوتا ہے،کسی کو علم نہیں ہوتا کہ کس وقت کا بڑا بول انسان کو کہاں لے جائے۔ جس دن ڈاکٹر عاصم حسین گرفتار ہوئے، اس دن میں نے گڑگڑا کر اپنے گناہوں کی معافی مانگی تھی۔ اس دن سے میں نے نظریں نیچی کر کے چلنا شروع کیا ہے۔ اپنے اندر زبردستی انکساری پیدا کی ہے۔کیا پتا کب فرعون دریا میں غرق ہو جائے اور آدمی آسمان سے زمین پر جاگرے!
بلاول زرداری اب فرماتے ہیںکہ انکل عاصم بہت اچھے ہیں۔ ویسے تو انکل عاصم کی مدد وردی والے بھائی لوگ بھی کر رہے ہیں، جنہوں نے اسے دہشت گردوںکے سہولت کار کے طور پرگرفتارکیا تھا، جب انہیں ایک غیر ملکی سفارت خانے لے جا کر اپنی ساری جائیداد اپنے برخودارکے نام پر منتقل کرنے کی قانونی اجازت دے دی تھی۔ مقصد یہ تھا کہ کل کلاں اگر ان پر پانچ سو ارب روپے کے قریب کرپشن کا مقدمہ ثابت ہوجائے تو کہیں عاصم حسین کی جائیداد ہی ضبط نہ ہو جائے۔ لہٰذا وردی والے بھائی لوگ بھی اس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ اگر کوئی سیاسی شکرا انہوں نے پکڑ لیا ہے تو اسے اتنا نقصان نہ پہنچایا جائے کہ وہ دوبارہ کھڑا ہی نہ ہو سکے۔ ملک میں کسی نے نہیں پوچھا کہ ڈاکٹر عاصم کوکیسے آپ نے پاکستان سے لوٹی ہوئی دولت اپنے بیٹے کے نام منتقل کرنے کی اجازت دے دی؟ اگر ڈاکٹر عاصم حسین اپنی جائیداد بیرون ملک ٹرانسفرکر سکتے ہیں تو پھراسے پکڑا ہوا کیوں ہے؟ انہیں جانے دیں۔۔۔۔ جہاں باقی لٹیروں کو آپ نے جانے دیا، اسی طرح انہیں بھی جانے دیں تاکہ واپس آکر وہ دوبارہ لُوٹے۔ 
اب بلاول عاصم حسین کی بیگم کو ساتھ کھڑا کر کے فرما رہے ہیں کہ اسے کینسر ہے۔کیا اس کی بیگم نے کبھی اپنے میاں سے پوچھنے کی کوشش کی تھی کہ کرپشن کی اتنی کہانیاں چھپ رہی ہیں،کہیں اس کا عذاب اس کے خاندان پر تو نہیں گرے گا؟ بیوی سے زیادہ کون جانتا ہے کہ اس کا خاوند ایماندار ہے یا کرپٹ۔ جب دولت گھر آ رہی ہو تو بیوی نہ پوچھے اور جب شوہر پکڑا جائے تو اپنی بیماری کا رونا دھونا کر کے لوگوں کی ہمدردیاں سمیٹنے کی کوشش کرے! میرے ایک دوست نے یہی بات فہمیدہ مرزا کے بارے میں کہی کہ اسے بھی کینسر ہے، اس لیے اس پر تقنید نہیں ہونی چاہیے۔ ویسے آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ فہمیدہ مرزا امیرترین خاتون ہیں، لیکن انہوں نے تیس لاکھ روپے عوام کے ٹیکسوں سے لے کر امریکہ جا کر علاج کرایا اور چوراسی کروڑ روپے کا بینک قرضہ بھی معاف کرایا۔ صرف یہی نہیں، سپیکر کا عہدہ ختم ہونے سے پہلے اپنے لئے تاحیات مراعات بھی منظورکرا لیں۔ اس وقت انہیں خوف خدا نہ رہا۔ اپنی جیب سے ایک روپیہ بھی اپنی بیماری پر خرچ نہ کیا۔ اب وہ بھی بیماری کے نام پر ہمدردیاں سمیٹنا چاہتی ہیں۔ 
بلاول زرداری اپنے آپ کو ضائع کر رہا ہے۔ میرے جیسے لوگوں کی اس سے کچھ امیدیں وابستہ تھیں کہ شاید آکسفورڈ میں پڑھنے کے بعد وہ پاکستان کی بہتر انداز میں خدمت کر سکے گا۔ وہ سندھ اور سندھیوں کو ترقی دلوائے گا۔ لیکن کیا ہوا؟ اسے علم ہی نہیں کہ سندھ میں،جہاں اس کی پارٹی کی حکومت ہے، پچھلے آٹھ برس کے دوران شرح خواندگی چار فیصد کم ہوگئی ہے۔ سندھ کی مجموعی حالت بھی پہلے سے بھی بدتر ہوگئی۔ لاڑکانہ میں نوے ارب روپے کے بجٹ کا کسی کو کوئی علم نہیں۔ نوے ارب روپے کون کھا گیا، بلاول کو جاننے میں دلچسپی ہی نہیں۔ ذوالفقار مرزا نے انکشاف کیا تھا کہ موجودہ وزیراعلیٰ مراد علی شاہ ہر سال سندھ کے ترقیاتی بجٹ میں سے اربوں روپے زرداری کو دبئی بھیجتے ہیں۔کبھی بلاول نے پوچھنے کی کوشش کی کہ اتنی دولت کا وہ کیا کریں گے؟ یہ اربوں روپے بینظیر بھٹو کے کب کام آئے تھے کہ وہ بلاول کے کام آئیں گے! ذوالفقار علی بھٹو پر بہت الزامات لگتے ہیں، لیکن کوئی یہ نہیں کہ سکتا کہ انہوں نے وزیر اعظم ہوتے ہوئے اربوں روپے دبئی یا لندن میں بھیجے۔ ان کے وزیروں پر لانچوں کے ذریعے ڈالرز دبئی یا گھروں کی بیسمنٹ میں سے نکلنے کی خبریںکبھی سننے میں نہیں آئیں۔
کیا بلاول نے کبھی خود تنہا بیٹھ کر سوچا ہے کہ اس کی پارٹی کے چند لوگوں پر کرپشن کے الزامات لگتے ہیں، باقی پرکیوں نہیں لگتے؟ اسے کرپٹ لوگوں کا دفاع کرنے کا کیا فائدہ ہو رہا ہے؟ ہر دفعہ کہتا ہے کہ پنجاب میں کرپٹ لوگوں کو نہیں پکڑا جاتا لیکن سندھ میں پکڑا جاتا ہے۔ آپ پانچ سال اقتدار میں تھے، ایف آئی اے کے ذریعے پکڑ لیتے۔ ایف آئی اے نے مونس الٰہی کو عدالت کے حکم پر پکڑ لیا تھا اور اسے چھڑانے کے لیے اس وقت کے وزیرداخلہ نے کیا کچھ نہیں کیا تھا؟ ایف آئی اے کے حکام کا تبادلہ گوادرکر دیا تھا۔
بلاول کی پریس کانفرنس، جس میں اس نے 12 مئی 2007ء کے ذمہ داروں اور ڈاکٹر عاصم حسین کے مبینہ جرائم کا دفاع کیا ہے، اس سے مجھے مایوسی ہوئی ہے۔کیا فائدہ آکسفورڈ یونیورسٹی میں پڑھنے کا، اگر آپ نے وہاں سے لوٹ کر بارہ مئی کے قاتلوں اور ڈاکٹر عاصم حسین جیسے کرپٹ اور دہشت گردوں کے سہولت کار کا دفاع کرنا ہے!اس سے تو ہمارے جیسے ٹاٹ سکولوں سے پڑھے دیہاتی بہتر ہیں جو قاتلوں اورکرپٹ ایلیٹ کا دفاع نہیں کرتے بلکہ ان سے لڑتے ہیں، عدالتوں میں مقدمے اور پیمرا میں پیشیاں بھگتتے ہیں لیکن اس ملک کو لوٹنے اور تباہ کرنے والی کرپٹ ایلیٹ کا حصہ نہیں بنتے۔بلاول کو اتنی جلدی پاکستانی سیاست کے رنگ میں نہیں ڈھلنا چاہیے۔ اسے کچھ عرصہ ہمارے جیسے بیوقوف اور آئیڈیالزم کے مارے لوگوں کو مایوس نہیں کرنا چاہیے۔
آج بلاول کی باتیں سن کر مجھے برسوں پہلے اپنے پس ماندہ گائوں کے استاد گل محمد ونجھیرہ، استاد نذیرقریشی اور جمن شاہ کے ہیڈ ماسٹر طالب حسین شاہ پر فخر محسوس ہو رہا ہے جنہوں نے ٹاٹ پر بٹھاکر ہمیں پڑھایا اور ڈنڈے مارکر علم دیا۔ بلاول کے آکسفورڈ والے پروفیسروں پر ترس آ رہا ہے جو اپنے شاگرد کو ہزاروں پونڈ فیس لے کر بھی کرپٹ، دہشت گرد وںکے ساتھی، لیٹروں، قاتلوں اور ایک سیاسی قیدی کا فرق نہ سمجھا سکے! انہوں نے اپنے شاگرد کی ایسی تربیت کی جو سرے کائونٹی، دبئی کے محلوں اور سوئس بنکوں میں منی لانڈرنگ کے چھ ارب روپے کے بارے میں سوال ہی نہیں کر سکتا! کیا فائدہ آکسفورڈ یونیورسٹی کا! 
علموں بس کریں او یار۔۔۔! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved