تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     30-10-2016

سرخیاں‘ متن اور اکبر معصوم

اسلام آباد کسی کو بند نہیں کرنے دیں گے۔ نواز شریف
وزیر اعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ''اسلام آباد کسی کو بند نہیں کرنے دیں گے‘‘ اور یہ جو ہماری پولیس اور انتظامیہ نے اسلام آباد کو ہر طرف سے پہلے ہی بند کر دیا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ کسی چیز یا شہر کو بند کرنے اورکھولنے کا اختیار اور طاقت صرف اور صرف ہمارے پاس ہے، لہٰذا اگر کسی کو اس بارے میں کوئی شبہ ہے تو وہ اپنے دل سے نکال دے‘ اور یہ جو عدلیہ نے پھرتی دکھائی ہے تو یہ بھی ہماری نظر میں ہے کہ آخر اتنی جلدی لارجر بنچ بنانے کی کیا ضرورت تھی لیکن چونکہ دنیا میں ہر بیماری کا علاج موجود ہے‘ اسی طرح ہر مسئلے کا حل بھی موجود ہے جو ہم بروئے کار لا بھی رہے ہیں کیونکہ منتخب حکومت یا وزیر اعظم کو بند کرنا بھی اتنا ہی خلاف قانون ہے جتنا کہ دارالخلافے کو بند کرنا؛ چنانچہ عزیزی شہباز شریف کو ہدایت کر دی گئی ہے کہ حسب سابق اپنے جانثار اور دیگیں تیار رکھیں کیونکہ منتخب وزیر اعظم کو پریشان کرنا ملکی مفاد کے سخت خلاف ہے اور حکومت ایسا ہرگز نہیں ہونے دے گی‘ چاہے اسے جس حد تک بھی جانا پڑے کیونکہ سیاستدانوں کی طرح جج بھی آتے جاتے رہتے ہیں اور کوئی چیز بھی مستقل نہیں ہوتی ماسوائے حکومت کے عزم کے‘ جو وہ ایک بار کر لے تو اس سے کبھی پیچھے نہیں ہٹتی ۔ سنا ہے کہ اصغر خان کیس کی جلد سماعت کے لیے بھی 
درخواست دے دی گئی ہے حالانکہ گڑے مردے اُکھاڑنے کوکوئی بھی اچھا نہیں سمجھتا اور اس نازک مرحلے پر اس کیس کی جلدی سماعت کا مقصد بھی خواہ مخواہ خاکسار کو پریشان کرنا بلکہ پریشانیوں میں اضافہ کرنا ہے۔ اوپر سے جنرل صاحب بھی متنازعہ خبر کے حوالے سے اپنی ضد پر اڑے ہوئے ہیں اور کوئی رعایت دینے کے لیے تیار نہیں ہیں حالانکہ ضد کوئی اچھی بات نہیں ہوتی اور اتنے بڑے عہدے پر فائز شخص کے لیے درگزر نہ کرنا نہایت نامناسب بات ہے۔ مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق ہم نے بھی اپنا دفاع کرنے کا پختہ ارادہ کر لیا ہے اور جو ہو گا دیکھا جائے گا کیونکہ مقولہ مشہور ہے کہ جان بچانا فرض ہے اور ہم اپنے فرائض سے کبھی غافل نہیں ہوئے‘ اس لیے ایسا لگتا ہے کہ دمادم مست قلندر سے ہی کام لینا پڑے گا کیونکہ سیانوں کا قول ہے کہ سیدھی اُنگلیوں سے گھی نہیں نکلتا‘ اس لیے انگلیوں کا رخ مجبوراً تبدیل کرنا پڑے گا کیونکہ گھی نکالنا بھی ازبس ضروری ہے کیونکہ اس عمر میں رُوکھی روٹی بہرحال نہیں کھائی جا سکتی جبکہ مسئلہ صرف یہ ہے کہ ہم ملک کی مزید خدمت کرنا چاہتے ہیں اور اس عزم سے 
ہمیں کوئی نہیں روک سکتا۔ اس لیے ہمیں بھی انتہائی اقدام پر مجبور نہ کیا جائے ورنہ نتائج کے ہم ذمہ دار نہیں ہوں گے جبکہ ہم تو چاہتے ہیں کہ ملکی نظام اسی طرح چلتا رہے اور عدلیہ سمیت جملہ ادارے اپنا اپنا کام کرتے رہیں۔ ہم کسی کو دھمکی نہیں دے رہے بلکہ اپنی مجبوریاں بیان کر رہے ہیں کیونکہ ایک مجبور انسان کچھ بھی کر سکتا ہے اور تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے جس میں ہماری اپنی تاریخ بھی شامل ہے جسے اپنے کو دہرانے کی بہت بُری عادت ہے اور عادت تو قبر تک ساتھ دیتی ہے جبکہ بنیادی طور پر ہم عدلیہ کا بے حد احترام کرتے ہیں اوراس کے انہی احکامات اور فیصلوں پر عملدرآمد کرتے ہیں جو ملکی مفاد کے مطابق ہوتا ہے کیونکہ ملکی مفاد پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا‘ سمجھوتہ کرنے کے لیے بے شمار معاملات موجود ہیں اور الحمد للہ ایسا کیا بھی جاتا ہے جو کہ تیز رفتار ملکی ترقی کے لیے بے حد ضروری ہے جو مخالفین کو ہضم نہیں ہو رہی‘ جس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے ہاضمے کا علاج کروائیں اور خاکسار کے ہاضمے کی مثال اپنے سامنے رکھیں اور عبرت حاصل کریں اور نہایت افسوس کا مقام ہے کہ ہمارے ہاں لوگوں نے عبرت حاصل کرنا بالکل ہی چھوڑ دیا ہے جس پر جتنا بھی اظہار تشویش کیا جائے‘ کم ہے۔ پتا نہیں اس قوم کو عقل کب آئے گی اور یہی وجہ ہے کہ ہماری تمام تر کوششوں کے باوجود یہ ملک ترقی نہیں کر رہا اور ہمیں صرف اپنی ہی ترقی پر اکتفا کرنا پڑ رہا ہے‘ ہیں جی؟ آپ اگلے روز کوہاٹ میں ایک جلسہ عام سے خطاب کر رہے تھے۔ 
اور اب سانگھڑ سے اکبر معصومؔ کی تازہ شاعری:
یوں ہماری طرح دلدار کہاں ہوتے ہیں
سب خرابے چمن آثار کہاں ہوتے ہیں
جن کو خوابوں میں بناتے ہیں بنانے والے
ان گھروں کے درو دیوار کہاں ہوتے ہیں
کبھی آتا ہے زمانوں میں کوئی ان کو پسند
آئینے سب کے گرفتار کہاں ہوتے ہیں
ان کے آنے کی خبر سن کے بہار آتی ہے
ورنہ گلزار بھی گلزار کہاں ہوتے ہیں
رنگ بیتاب تو ہوتے ہیں بکھرنے کے لیے
جس طرح آپ ہیں تیار کہاں ہوتے ہیں
یہ نگیں پھیر کے لے جائیے بازاروں میں
دل کے اتنے بھی خریدار کہاں ہوتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔
یوں کوئی چپ کی تان لگتی ہے
جی نہیں‘ اس میں جان لگتی ہے
کوئی گاہک نہ ہو تو کیا کیجیے
روز دل کی دکان لگتی ہے
کیا کہیں‘ شہر کی خموشی بھی
آپ ہی کا بیان لگتی ہے
پہلے کچھ کچھ یقیں تھا دُنیا پر
اب تو یکسر گمان لگتی ہے
نائو سی یاد کی کوئی، معصومؔ
رات کو دل سے آن لگتی ہے
آج کا مطلع
کوئی نظارہ کھلتے بند ہوتے باب سے دیکھا
نظر سے خواب کو دیکھا، نظر کو خواب سے دیکھا

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved