تحریر : سعدیہ قریشی تاریخ اشاعت     30-10-2016

ابسرڈ

اسلام آباد میں جاری صورت حال دیکھ کر خیال آتا ہے، گویا سیاسی منظر نامے پر تھیٹر آف ابسرڈ (Theatre of Absurd) جیسا کوئی کلاسیکل ڈرامہ سٹیج ہو رہا ہے۔۔۔۔ بے معنی‘ مضحکہ خیز‘ بے نتیجہ‘ تھکا دینے والا! اس سے ایک سوال ضرور ابھرتا ہے کہ کرپشن جیسے ناسور کے خلاف پی ٹی آئی کے کھلاڑی میدان میں ہیں اور حکومتی مشینری کے ساتھ دُو بدُو محاذ آرائی پر آمادہ‘ تو پھر ایسی انقلابی تحریک جو نیا پاکستان بنانے نکلی ہو وہ مضحکہ خیز کیونکر ہو سکتی ہے؟ اس سوال کا جواب ہی تو یہ ساری صورت حال ہے، جس کی مضحکہ خیزی جمعے کے روز اور بھی دو چند ہو گئی تھی، جب پی ٹی آئی کے ورکرز پولیس کے ڈنڈے کھا رہے تھے اور پی ٹی آئی کی نفیس و شائستہ لیڈر شپ بنی گالہ میں چیئرمین کے ساتھ میٹنگ پر میٹنگ کر رہی تھی یا بہت ہوا تو یہ نفیس پی ٹی آئی رہنما ٹی وی ٹاک شوز میں اپنے خیالات کا اظہار کرنے کے لیے ٹیلی فون پر یا پھر بہ نفسِ نفیس موجود تھے۔ مگر سڑکوں پر جہاں ان کے ورکرز نیا پاکستان بنانے کی جدوجہد میں ڈنڈے کھا رہے تھے، وہاں یہ لیڈر موجود نہیں تھے۔
تفصیل میں جانے سے پہلے ذرا سموئیل بیکٹ کو یاد کر لیتے ہیں۔ یہ آئرش ڈرامہ نگار انگریزی ادب میں تھیٹر آف ابسرڈکا بڑا نام تھا۔ 1969ء کا نوبیل پرائز بھی بیکٹ نے اپنے نام کیا۔ اس کا عالمی شہرت یافتہ ڈرامہ ویٹنگ فارگوڈو (Wating for Godot) پہلی بار 1953ء میں پیرس میں سٹیج ہوا۔ سموئیل بیکٹ خود بھی تھیٹرکا ایک کہنہ مشق ہدایت کار تھا۔ ہمارے دارالحکومت اسلام آباد میں جاری سیاسی کشمکش کو دیکھ کر ویٹنگ فار گوڈو کا خیال اس لیے آیا کہ اس ڈرامے کے دو کردار آغاز سے انجام تک ایک بے معنی سی سرگرمی میں گزار دیتے ہیں۔ ایک خزاں رسیدہ درخت کے نیچے بیٹھے ہوئے‘ ولادی میر اورایسٹرجن زندگی کی بے معنویت کا بُری طرح شکار ہیں۔ وہ بار بار ایک ہی ڈائیلاگ دہراتے ہیں: Nothing Happens اور کچھ نہ کرنے اور نہ ہونے کا یہ تھکا دینے والا احساس ڈرامے کے کرداروں سے ڈرامہ دیکھنے والے شائقین تک کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ دونوں کردار ایک تیسرے کردار گوڈو کے لاحاصل انتظار میں ہیں، جس کے آنے سے ان کی زندگی کی تمام تمنائیں بر آئیں گی، مگر گوڈو کا انتظار لاحاصل ہی رہتا ہے۔ نقاد حیرت زدہ ہیں کہ جب یہ ڈرامہ سٹیج ہوا تو اندازہ یہ تھا کہ شائقین اسے زیادہ نہیں سراہیں گے کیونکہ آغاز سے انجام تک اس میں کوئی سرگرمی نظر نہیں آتی۔ بس ایک انتظار ہے، مگر ایسا لگتا ہے 
کہ کچھ ہونے والا ہے‘ کچھ بہت اہم تبدیلی رونما ہونے والی ہے۔ اسی ایک خیال سے جڑے شائقین ڈرامے کو شروع سے آخر تک مبہوت ہو کر دیکھتے ہیں۔ Nothingness۔۔۔اس ڈرامے کا اہم موضوع ہے۔ اس ''نہ ہونے سے‘‘ کسی تبدیلی کی امید پیدا ہونے کا خیال ہی وہ سحر ہے جو ڈرامے کے قاری اور شائقین کو اپنے ساتھ باندھے رکھتا ہے۔
مجھے لگتا ہے‘ ہم پاکستانی بھی تھیٹر آف ابسٹرڈ کے ایسے ہی شائقین ہیں جو کچھ پاکستان میں ہو رہا ہے، اس سے کیا نتیجہ نکلے گا۔ اسی جماعت کا دو سال پہلے 126دنوں کا دھرنا تو سب کو یاد ہے۔ اس کے پیچھے الیکشن میں ہونے والی دھاندلی اور الیکشن کے عمل کو شفاف بنانے کے اقدامات جیسے اہم موضوع شامل تھے۔ وہ دھرنا اے پی ایس کے سانحے کے بعد ختم ہوا مگر 126دنوں تک جو ایک تماشا جاری رہا اس سے پاکستان کو ملا کیا؟ چار سیٹوں پر پی ٹی آئی کو اعتراض تھا۔ ان میں ایک اہم ترین سیٹ سپیکر ایاز صادق کی تھی جس پر الیکشن دوبارہ ہونے پر بھی ایاز صادق ہی کامیاب ہوئے۔ اصل بات یہ تھی کہ الیکشن کے عمل کو شفاف بنانے کے لیے اقدامات اور سفارشات پر عملدرآمد کا مرحلہ ابھی درمیان میں ہے۔ اب خان صاحب ایک اور ایشو پر میدان میں ہیں۔ پلڈاٹ کے احمد بلال محبوب کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن کے ساتھ بنیادی میٹنگز ہو چکی ہیں۔ تمام زاویوں سے سیر حاصل بحث ہو چکی ہے۔ ابھی اس ساری سرگرمی کو نچوڑ کر قانونی شکل دینے کے لیے جو اقدامات کرنے چاہئیں ہمارے لاء میکر اس میں سنجیدہ نہیں ہیں۔ اگلا الیکشن سر پر پہنچ چکا ہے۔ کپتان چونکہ صرف ایجی ٹیشن کے شوقین ہیں اس لیے ان کی توجہ اس سارے معاملے کو نتیجہ خیز بنانے سے ہٹ گئی ہے، جس کے لیے انہوں نے 126دن اسلام آباد پر قبضہ کیے رکھا تھا۔
پاکستانی عوام اپنی ٹی وی سکرینوں سے جڑے ہیں۔ وہ سرشام دھرنا پارٹی کے سحر میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور یوں لگتا ہے کہ ابھی کچھ ہونے والا ہے، ایمپائر کی انگلی اٹھنے والی ہے مگر گوڈو کے انتظار کی طرح لاحاصل اور بے نتیجہ! ان دنوں پھر سے ایجی ٹیشن عروج پر ہے۔ 2 نومبر کو کپتان اسلام آباد کو لاک ڈائون کرنے کے عزم کا برملا اظہار کر چکے ہیں۔ ایک بار پھر ہم تبدیلی، کچھ ہونے کے انتظار میں ہیں۔ ویٹنگ فار گوڈو جیسی صورت حال سے دوچار ہیں۔ جمعے کے روز اس سارے ڈرامے میں ایک سنسنی خیز منظر ضرور تھا جس سے شائقین میں جوش کی کیفیت پیدا ہوئی۔ منظر کی یکسانیت کو موٹر سائیکل پر سوار فرزند راولپنڈی شیخ رشید کی باکمال پرفارمنس نے توڑا۔ وہ تمام رکاوٹوں اور پہروں کوتوڑ کر بھاگتے ہوئے ایک ٹی وی وین کے اوپر چڑھ گئے اور فاتحانہ انداز میں سگار پیا۔ یوں چینلز کی بھی چاندی ہو گئی، انہیں بھی تبصروں‘ تجزیوں کے لیے کچھ دلچسپ صورت حال ہاتھ آ گئی اور شائقین ڈرامہ کو بھی دیکھنے کو کچھ دلچسپ مواد ملا۔
خیر ڈرامہ تو ابھی جاری ہے اور حکومت کی بوکھلاہٹ‘ جھنجھلاہٹ اور ہڑبڑاہٹ نے ڈرامے میں کئی رنگ پیدا کر دیے ہیں۔ مضحکہ خیزی میں اور اضافہ ہو چکا ہے۔ ادھر پاکستان کے عوام بھی اس ڈرامے کے سحر میں مبتلا ہیں اور کچھ ہونے کا انتظار کر رہے ہیں۔ ایمپائر کی انگلی اٹھنے یا تبدیلی کا انتظار بھی ویٹنگ فار گوڈو کی طرح لاحاصل اور بے معنی لگتا ہے کیونکہ دونوں طرف مفاد اور اقتدار کی لڑائی ہے۔ پلڑا کس کا بھی بھاری رہے گا‘ کون کامران ٹھیرے گا لیکن اصل سوال یہ ہے کہ اس ڈرامے کے اختتام پرعوام کو کیا ملے گا!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved