تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     31-10-2016

جمہوری نازی اِزم

بڑے نے دوسرے نمبر کو انٹر کام پر بلایا۔ کہا نمبر 2، Come in۔۔۔ لیدر کی سبز رنگ والی میز کے اوپر''پلان‘‘ پڑا تھا۔ وہ داد طلب نظروں سے بولا یہ ''ٹیلنٹڈ‘‘ چھوٹے نے تیار کیا ہے۔ پھر فاتحانہ تمسخرکے ساتھ کہنے لگا، اب فیصلہ ہو جائے گا اچھا کون، پاپولر کون اور لیڈر کون! اسے کہتے ہیں اصلی سرجیکل سٹرائیک! پھر کہا جاؤ انہیں سبق سکھلاؤ جو پوری دنیا کو سدا یاد رہے۔ دوسرے درجے سے فوراًََ فون ملایا گیا جس کے تھوڑی دیر بعد متعلقہ وزیرِ باتدبیر ہانپتا اور سانسیں بحال کرتا ہوا دونوں ہاتھ باندھے سامنے آ کھڑا ہوا اور التجا کے انداز میں منمنایا، کیا حکم ہے؟ دوسرے درجے سے جواب کی بجائے اسے پلان اٹھانے کا اشارہ کیاگیا اور ساتھ حکم ملا ابھی کرو۔ اس نے اپنے دستِ راز''آر-ٹی‘‘ کو فون کیا۔ آر- ٹی نے فوراًََ تین رپورٹرز سے بات کی اور انہیں بریکنگ نیوز''عطا‘‘ کرنے کا عندیہ دے کر بلا لیا۔ ایک معتبر انگریزی رپورٹر نے آر-ٹی سے کہا مجھے اس خبر کی دو جگہ سے کنفرمیشن اور ساتھ ہی ری کنفرمیشن چاہیے ہو گی۔ دوسرے دو رپورٹر خاموشی سے خبر اٹھا کر دفتروں کو دوڑ پڑے۔ اس طرح پہلی رات گزر گئی۔ دوسرے دن معتبر انگریزی رپورٹر مسٹر 'کے‘ نے اپنے نام سے خبر نہ چلانے کا فیصلہ سنا دیا۔ 'اے بی‘ نام کا رپورٹر بے چارہ اس قدر جلدی میں تھا کہ لفٹ کے دروازے سے پیر اٹکا بیٹھا، دھڑام سے گرا پھر بھی اس کی جلدی ختم نہ ہو سکی۔ وہ رپورٹر اپنے انچارج '' آر -جے‘‘ کے پاس چوتھے فلور پر پہنچا، جس نے خبر کو حیرانگی اور غور سے دیکھا اور رپورٹر کو باہر کھڑے ہوجانے کا سگنل دیا۔ تھوڑی دیر بعد 'آر-جے‘ نے رپورٹر کو مایوس کرتے ہوئے ایسی خبر نشرکرنے سے انکار کر دیا، جو 'آر۔جے‘ کے خیال میں بے تکی تھی۔ ایک دوسرے دفتر میں 'آر۔ٹی‘ گزشتہ رات کی ناکامی پر وزیرِ باتدبیر سے پہلے ہی ڈانٹ کھا چکا تھا۔ اس نے دوسرا رپورٹر پکڑا اور پارلیمنٹ ہاؤس میں وزیرِ باتدبیر کے چیمبر میں اسے ملوانے اپنے ساتھ لے گیا۔ وزیر ِباتدبیر نے رپورٹرکو دیکھتے ہی کہا میرا شیر آ گیا۔ آپ کو معلوم نہیں آپ کی خبر ''خاکیوں‘‘ پر کتنی بڑی استری پھیر دے گی۔ اس رپورٹر نے بھی ہلکے پھلکے انداز میں کنفرمیشن کا مطالبہ کیا۔ لیکن ساتھ ہی اصولی طور پر طے کر لیا کہ وہ خبر '' بائی لائن‘‘ چلانے کے لئے تیار ہے۔ اس دوران وزیر ِ باتدبیر، 'آر۔ٹی‘ اور رپورٹر کے درمیان مسلسل ٹیلیفون اور ٹیکسٹ پیغامات کا تبادلہ بھی ہوتا رہا۔ اگلے دن Mission Imposible پورا کر کے 'آر۔ٹی‘ نے رپورٹر کوپھر ساتھ لیا اوردوبارہ دونوں وزیرِ باتدبیر کے چیمبر میں شاباش '' وصول‘‘ کرنے پہنچ گئے۔ اس طرح ایٹمی راز رکھنے والی ریاست کے 'مڈ نائٹ جے کالز‘ نے اپنا عالمی مشن مکمل کر دیا۔
اگلے روز ایک صاحب میرے چیمبر میںملنے آئے۔کہنے لگے یہ واقعاتی شہادت کسے کہتے ہیں؟ عرض کیا انگریزی میں واقعاتی شہادت کو Circumstantial Evidence کہتے ہیں۔ دنیا کے بے شمار عدالتی فیصلوں میں اس کی تشریح ان الفاظ میں کی گئی ہے:It starts from the seen of crime and its chain ends at the neck of the accused / culprits.۔۔۔۔ واقعاتی شہادت کرائم سین سے شروع ہوتی ہے اور اس کی زنجیر مجرموں کی گردنوں تک جا پہنچتی ہے۔
خواتین و حضرات اوپر دی گئی تفصیل شہرِ اقتدار کے سب سے بڑے گھر میں سٹیج ہونے والے سازشی ڈرامے کا سکرپٹ نہیں بلکہ ہولناک واقعات ہیں، جن کے تکنیکی، صوتی اور سینما ٹوگرافک ''کھرے‘‘ موجود ہیں۔ ایسے ہولناک واقعات جن کی دوسری کوئی مثال شاید ہی کسی ایٹمی ملک کے ٹاپ ایگزیکٹو ہاؤس لیکس سے ڈھونڈی جا سکے۔ آپ سوچ رہے ہوں گے ڈرامے کے کرداروں کے نام نہ لکھنے سے ان کے نام ظاہر نہیں ہوں گے، تو یقین جانیے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا،کیونکہ نام تو ظاہر ہونے ہی ہیں، جو ہو کر رہیں گے۔ نام چھپانے والوں کا 'ترلا‘ پروگرام ناکام ہو چکا ہے۔
ویسے آپس کی بات ہے، دل پشوری کرنے کے لئے اس حرکتِ شریف کو جمہوریت کا حسن کہنا چاہیے۔ جمہوریت بھی ایسی حسین جس کے آگے آنچل سمیت عفت مآب خواتین پاکستان کے پہلے سیف سٹی میں پولیس کی دست درازی کا شکار ہو گئیں، وہ بھی دفعہ 144کے نام پر۔ جلسے، اجتماع، جلوس یا ریلی کو روکنے کے لئے دفعہ 144کے تحت پابندی لگائی جا سکتی ہے اور وہ بھی یوںکہ تین سے زائد افراد پبلک مقامات پر اکھٹے نہ ہوں، لیکن دفعہ 144جو 1898ء میں فرنگی نے بنائی تھی۔ سیف سٹی پہنچ کر اس کے انداز نرالے ہو گئے۔گولڑہ شریف، حالیہ سیکٹر E-11کے بغل میں واقع ایک شادی ہال کو پوری دنیا نے دفعہ 144کے بے رحم نشانے پر دیکھا۔ 30 سے زیادہ خواتین سیف سٹی کے رکھوالوں کی مردانہ وار دست درازی کی زد میں آئیںاور انہیںدھکے مارکر گاڑیوں میں ڈال لیا گیا۔ نون لیگی سرکار کی لانگری ٹیم نے فوراًََ اعلان کیا کہ شادی ہال میں جمہوریت کے خلاف سازش ہو رہی تھی۔ اسلام آباد کی ایک بہادر بیٹی نے جرائم پیشہ لوگوں کے آگے دم دبا کر بھاگنے والی فورس کی مردانگی کو خوب للکارا۔ یوتھ ونگ کے کنونش پر دھاوا بولنے کے لئے اسلا م آباد پولیس، باہر کی پولیس اور ملیشیا استعما ل ہوئی۔ شاباش ہے آزاد میڈیا کو جس نے جمہوری 'نازی ازم‘ کا شکار ہونے والے خالی ہاتھ سیاسی کارکنوں کی پہلی داد رسی کر دی۔ 
دوسری جانب نون لیگی سرکار کا لانگری گروپ کہتا رہا کہ گولڑہ (E-11) کے شادی ہال میں جمہوریت کے خلاف سازش ہو رہی تھی، یعنی 2 نومبرکے دھرنے کی منصوبہ بندی۔ پاکستان کے فوجداری قانون کے مطابق صرف مسلح ڈکیتی کی نیت سے جمع ہو کر واردات کا پلان بنانا قابلِ دست اندازی پولیس جرم ہے۔ اگر ہم بغیر کسی دلیل یا بحث کے سرکار ی مؤقف درست مان لیں، تب بھی دھرنے یا جلسے کے لئے کسی احاطے، چاردیواری، گھر یا بند جگہ میں جمع ہونا کوئی جرم نہیں بنتا۔ اسی طرح نہ ہی سڑک پر پرامن مقاصد کے لئے نکلنا، اکٹھے ہونا یا کھڑے ہونا کوئی جرم ہے۔کسی جرم کا آغاز تب ہوتا ہے جب کوئی قانون اپنے ہاتھ میں لے،کسی دوسرے شخص کو نقصان پہنچائے یا سرکاری پراپرٹی تباہ کرے۔ لیکن جمہوریت کا حسن یہی ہے کہ اس کا حسن بار بار لشکارے مارے۔ پہلا لشکارا 7 پاکستانیوں سمیت شاہراہِ دستور پر مارا گیا۔ دوسرا اور تیسرا ماڈل ٹاؤن لاہور میں 2 خواتین سمیت 14 بے گناہوں کے قتلِ عام سے ظاہر ہوا جبکہ چوتھا اور تازہ ترین جمہوری لشکارا گھریلو عورتوں پر مردانہ وار حملہ آور ہوکر سیف سٹی کی پولیس نے مارا۔
اسی روز ایک اور''حسن ِ اتفاق‘‘ بھی سامنے آیا کہ جب ایک یار نے لائن آف کنٹرول اور ہمارے شکر گڑھ پر تین جگہ مسلسل گولہ باری کی۔ دوسرے یار نے سیف سٹی کو جمہوری جدوجہد کرنے والے سیاسی کارکنوں کے لئے 'اَن سیف‘ کر کے بے رحمی سے چاند ماری کی۔
ہٹلر کے نازی جرمنی میں دو چیزیں بڑی مشہور تھیں۔ پہلا نازی ازم کے محافظ ''گھس ٹاپو‘‘ کا شعبہ جو جرنیلوں سے لے کر نومولود بچوں تک سب کی فون کالز ٹیپ کرتا، پھر 'گریٹ فیوہرر‘ کے سامنے ان گفتگوؤں میں سے 'نازی ازم‘ کے شکار ڈھونڈے جاتے۔ آج پاکستان میں پہلی جمہوریت برسرِ اقتدار ہے، جس نے مخالفوں کے فون ٹیپ کروانے کے لئے ایک سویلین ادارے میں ریٹائرڈ 'گُلو‘ بھرتی کر رکھے ہیں۔ دوسرا مخالفوں کو ریاستی طاقت سے دبانے کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ، جس میں پولیس مقابلے، قتل، جھوٹے پرچے، برسرِ عام گھسیٹنا اور اپنے رعب کا خوف قائم رکھنے کے لئے خالی ہاتھ مخالفوں کے خلاف سرکار کے خرچ پر پلنے والے اداروں کے ذریعے مسلح حملے۔ قومی آمدن پر ایک پارٹی کا قبضہ اور جھوٹے پروپیگنڈے پر اربوں روپے کی اشتہار بازی۔
جس دن عمران خان کے لئے پنڈی، اسلام آباد میں دفعہ 144 قیامت کا منظر پیش کر رہا تھا، اسی دن آبپارہ چوک میں ہزاروں افراد نے جلسہ منعقد کیا اور عمران خان کی حکومت والے صوبے کے پی کے میں نواز شریف نے وفاقی محکموں کے سرکاری ملازموں کا کامیاب جلسہ منعقد کیا۔ پرامن بھی اور دفعہ 144 سے آزاد بھی مگر لاٹھی چارج جیسی بنیادی سہولت سے محروم۔
میرے 'لذیذ‘ ہم وطنو! آپ اس جمہوری ماحول کو عین جمہوریت کہہ لیں۔ اس کے بعد ہٹلر کے شخصی نظام کے ساتھ موازنہ کریں یا کسی بادشاہ کی رعایا کا حال دیکھیں، ہے یہ 100فیصد جمہوری نازی اِزم۔۔۔!
نوٹ: میں نے یہ کالم ہفتہ کے روز تین بج کر سات منٹ پر اخبار کو ای میل کر دیا تھا۔ پرویز رشید سے وزارت واپس لینے کی خبر اس کے دو گھنٹے بعد میڈیا پر نشر ہوئی۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved