اب تو کسی ہم عمر دوست کے ہاں فون کرتے ہوئے بھی ڈر لگتا ہے کہ کہیں سے یہ جواب نہ آ جائے کہ اُن کا تو انتقال ہو چکا ہے‘ لیکن یہاں تو فون کرنے کی نوبت بھی نہیں آئی اور برادرم شاکر حسین شاکر کے کالم سے پتا چلا کہ مُشتاق شیدا بھی گزر گئے۔ وہ وکیل‘ شاعر‘ ادیب اور ایک جہاں گرد آدمی تھا۔ اُس نے لاء میرے ساتھ ہی کیا تھا۔ پھر اس کی شادی میرے شہر ہی میں ہو گئی اور اس کے سسرال والے نہ صرف ہمارے گھر کے قریب ہی رہتے بلکہ ان کے ساتھ ہمارے گھریلو تعلقات بھی تھے۔ کوئی سال ڈیڑھ سال پہلے اس کا فون آیا کہ وہ لاہور آ گیا ہے اور ایک بار وہ میرے پاس آیا بھی۔ فون پر اکثر رابطہ رہتا اور بات چیت میرے کسی کالم یا شاعری کے حوالے سے ہوتی۔ قرۃ العین حیدر کا عاشق تھا اور اس سے بھارت جا کر ملاقاتیں بھی کرتا رہا۔ اس کی بیٹی صباحت افسانے لکھتی ہے اور اس کے مجموعے کا دیباچہ بھی مس حیدر کا لکھا ہوا ہے۔ وہ پہلی اور آخری کتاب تھی جس کا انہوں نے دیباچہ لکھا تھا۔ ان ملاقاتوں کا احوال اُس نے قلمبند بھی کر رکھا تھا اور اس سلسلے میں اُس سے کچھ مواد میں نے بھی حاصل کر کے ایڈیٹر ''دُنیا زاد‘‘ کو بغرض اشاعت بھجوایا تھا۔ میرے یارِ غار نصراللہ خان کا انتقال ہوا تو مجھے یوں لگا کہ ایک چوتھائی اس کے ساتھ میں بھی مر گیا ہوں۔ اس کے بعد میری اہلیہ کا انتقال ہوا تو جیسے میں اپنے آپ کے چوتھے حصے سے مزید محروم ہو گیا۔ اب مُشتاق شیدا کی خبر آئی ہے تو لگتا ہے گویا میں ایک چوتھائی ہی باقی رہ گیا ہوں۔ وہ نوجوانی ہی میں امریکہ چلا گیا تھا‘ کچھ عرصہ وہاں بے روزگار بھی رہا۔ مجھے بتایا کہ میرے پاس ناشتے کے لیے پیسے نہیں ہوا کرتے تھے تو میں سڑکوں پر لگے سیب کے درختوں سے سیب توڑ توڑ کر اپنا پیٹ بھرا کرتا تھا۔ واپس آ کر اس نے اپنے آبائی شہر ملتان ہی میں پریکٹس شروع کر دی جو چل بھی نکلی کہ ذہین وہ بلا کا تھا۔ قبض کا دائمی مریض تھا۔ یہ عارضہ مجھے بھی تھا چنانچہ وہ اس میں سہولت کے لیے مجھے ٹپس بتایا کرتا تھا جو کارگر بھی ہوا کرتے۔
شاعر وہ شوقیہ ہی تھا لیکن فکشن کے حوالے سے نہ صرف اس کی معلومات زیادہ تھیں بلکہ وہ اس موضوع پر مسلسل گفتگو بھی کر سکتا تھا۔ اس نے اپنے نثر پارے مجھے دکھائے بھی‘ لیکن انہیں مجتمع صورت میں شائع کرنے کی اسے فرصت نہ ملی‘ البتہ اس کی کتاب تھوڑا عرصہ پہلے شائع ہوئی تھی جس کا ذکر شاکر حسین نے اپنے کالم میں کیا ہے اور جس کا عنوان ہے ''بس اتنا ہی تھا میرا کار جہاں‘‘ مس حیدر کے ساتھ اس کی لمبی گفتگوئیں اور تصاویر بھی تھیں۔ باتیں کرنے میں اس کی طبیعت زیادہ رواں تھی۔ کوئی دو ماہ پہلے اس نے فون پر کہا کہ میں تمہیں ملنے کے لیے آئوں گا۔ میں نے کہا کہ میں تو شہر سے خاصا دور فارم ہائوس پر ہوتا ہوں تو بولا کہ میں وہاں بھی آ جائوں گا۔ میں نے کہا کہ جس دن تم نے آنا ہو مجھے فون کر دینا، میں گاڑی بھیج کر تمہیں منگوا لوں گا۔ اس کے ساتھ میرا جتنا بھی کم وقت گزرا‘ اس کے ساتھ تعلق اتنا ہی زیادہ گہرا تھا۔
ابھی اس نے بہت کچھ کرنا تھا۔ اس نے ایک ڈرامہ بھی لکھ رکھا تھا جسے فلمانے کے لیے وہ سید نور سے بھی ملا تھا۔ وہ بجائے خود ایک چلتی پھرتی کتاب تھا اور ایک بے چین رُوح۔ ان کی بیٹی نے بتایا کہ اس کتاب کو ان کی سوانح حیات بھی کہہ سکتے ہیں جس میں کچھ اُن سفروں کے احوال ہیں جو انہوں نے کئے‘ کچھ لوگوں کے خطوط ہیں جن میں خالد حسن اور مس حیدر کے خطوط اور وہ خطوط بھی جو انہوں نے مختلف مشاہیر کو لکھے‘ کچھ اپنے دوستوں کا تذکرہ کیا ہے اور کچھ ملتان کے دوستوں کے ہیں‘ میں نے صباحت سے یہ کتاب منگوائی ہے‘ اس دلچسپ کتاب کی آپ کو سیر بھی کرائوں گا۔ عین غنیمت ہے کہ وہ اپنی زندگی ہی میں یہ کام کر گئے۔ سانولا چہرہ ہمیشہ مسکراہٹ سے سجا ہوتا۔ مجھے نہیں یاد کہ میں نے کبھی مسکراہٹ کے بغیر بھی یکھا ہو۔ تاہم‘ ایک عجیب بات یہ ہے کہ اس کا جسم شروع سے لے کر آخر تک ایک ہی جیسا رہا‘ سمارٹ اور ہلکا پھلکا۔ اس کی وفات اسلام آباد میں ہوئی جہاں صباحت ملازمت کرتی ہے جبکہ اس کی میت کو ملتان لے جا کر اس کی والدہ کے پہلو میں دفن کیا گیا جس کے بارے میں اس نے وصیت اور نشاندہی کر رکھی تھی ؎
جو بادہ کش تھے پُرانے وہ اُٹھتے جاتے ہیں
کہیں سے آبِ بقائے دوام لے ساقی...
مُشتاق شیدا کو بچوں کے حوالے سے بے فکری تھی۔ صباحت اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد میں پڑھاتی ہیں۔ ایک بیٹی انگلینڈ میں ہے اور ایک امریکہ میں‘ بیٹا بھی وہیں سرکاری ملازم ہے۔
اور اب مجید امجد کے حوالے سے مُشتاق شیدا کی یہ نظم :
ساہیوال کے لیے ایک بدُدعا
زمانے‘ او زمانے
تیری سرحد سے نکل کر کھو گیا
اک بے نوا
جس کے ذمے نا کسی کا قرض تھا
اور نا تری آلائشوں کے واجبات
اُس کی ساری کائنات
اک شب رفتہ کا گریہ
شام کے خاموش بے آہٹ اندھیرو
جامنوں کے سرنگوں پیڑو
سفیدے کے درختو
اب نہ گزرے گا تمہارا منتظر اس راہ سے
شہر کے دانشورو
کیا وہ صلیب اس شہر میں اب بھی پڑی ہے
جس پہ اک عیسیٰ نفس شاعر کے
ہاتھوں‘ پائوں میں کیلیں گڑی تھیں
اور جسے اس شہر کا مدفن مقدر میں نہ تھا
بے مروّت شہر‘ تجھ کو یاد ہے
جب لبِ جُو کچھ شجر کاٹے گئے
تو اُن کے لاشوں پر وہ رویا تھا
اُن کا نوحہ بھی لکھا تھا
لیکن اُس کی لاش پر کوئی بھی نوحہ خواں نہیں تھا
تیرے طول و عرض میں اُس کے لیے
مدفن کی کوئی جا نہ تھی
سفاک شہر‘ شہرِ ساہیوال
او سفاک شہر
تُو قبولہ ہے، یہی تیری سزا ہے
تُو سدا جلتا رہے
اور ترے چاروں طرف
ہر دم دُھواں اُٹھتا رہے
آج کا مطلع
یہ شہر چھوڑ دے کہ شرافت اسی میں ہے
رُسوائے شہر! اب تری عزت اسی میں ہے