تحریر : ڈاکٹرویدپرتاپ ویدک تاریخ اشاعت     01-11-2016

اقتدار اور مال کی دیوانی

گزشتہ سنیچر کو میں نے لکھا تھا کہ سپریم کورٹ ہندوپن پرنہیں‘ تھوک ووٹ پر بحث چلائی جائے۔ مجھے خوشی ہے کہ سات ججوں کے بنچ نے اپنے فیصلے میں بالکل انہی لفظوں کو دہرایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا کام صرف دوسوالوںکا جائزہ لینا ہے۔ ایک تو یہ ہے کہ کیامذہب‘ ذات‘ فرقہ اور زبان کے نام پر (تھوک) ووٹ مانگے جا سکتے ہیں؟ دوسرا یہ کہ اگر کوئی امیدوار کسی دوسرے مذہب ‘ ذات ‘ فرقے اور زبان کے نام پر ووٹ مانگے تو کیا اسے بھی نااہل ٹھہرایا جا سکتا ہے؟ کیا ایسے لوگوں پر قانون کے آرٹیکل 123 کے تحت بدعنوان ہونے کی کارروائی کی جا سکتی ہے؟ جہاں تک 'ہندوپن‘ یا 'ہندوواد‘ لفظ کے غلط استعمال کا سوال ہے‘ اپنے 1995ء کے فیصلے میں سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ یہ لفظ کسی مذہب کا نہیں‘ بھارتیوں کے زندگی بسر کرنے کے طور طریقے کی علامت ہے۔ عدالت کا کام یہ دیکھنا ہے کہ اس لفظ کا استعمال کرکے کوئی امیدوار نفرت تو نہیں پھیلا رہا ہے۔ یہ ماننا غلط ہے کہ ان دونوں الفاظ کا استعمال کرکے ہی وہ امیدوار ایک ایسے ہندو مذہب کی بات کرنے لگا ہے ‘ جو دوسرے مذاہب سے مختلف ہے۔ اسی فیصلے میں 1994ء کے ایک دوسرے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے عدالت نے کہا تھا کہ 'ہندوپن‘ لفظ کومذہبی 'ہندوواد‘ سے جوڑنا غلط ہوگا۔
سپریم کورٹ کی یہ فکر نہایت ہی ملکی مفاد میں ہے۔ تھوک ووٹوںکے لیے مذہب، ذات ‘ فرقہ اور زبان کو ہتھیار نہ بنایا جائے۔ لیکن ہم سب جانتے ہیں کہ تھوک ووٹ بٹورنے کے لیے لیڈر لوگ ان معاملات کو ہتھیار توہمیشہ بناتے ہی ہیں ‘ کئی دیگر بدعنوان طریقوں کو بھی اپناتے ہیں۔گزشتہ ساٹھ برس کے دوران ہوئے انتخابات میں ‘ مَیں نے نہ تو ایسا کوئی امیدوار دیکھا اور نہ سنا ‘ جو یہ کہتا ہو کہ مجھے مذہب ‘ ذات ‘ فرقے یا زبان کے نام پر ووٹ نہیں چاہیے ‘ مجھے صرف میری خدمت اور کردار کی بنیاد پرووٹ دیجیے۔
کبھی کبھی نظریات اور کبھی لہر (اندرا لہر یا مودی لہر)کے بنیاد پر بھی تھوک ووٹ (یا اندھا ووٹ) پڑ جاتا ہے۔کیا اسے قانونی طور پر روکا جا سکتا ہے؟ یہ عقل پر جذبات کی سواری ہے۔ نظریات پر مِلا تھوک ووٹ اتنا برانہیں ہے‘ لیکن آج کس پارٹی کے پاس نظریہ ہے؟ آج کی سیاست کے پاس تو نظریات کا بھی ٹوٹا ہے۔ وہاں تو صرف نوٹ اور ووٹ کی دیوانگی ہے۔ ووٹ حاصل کرنے کے لیے ہر ہتھ کنڈا اسے صحیح لگتا ہے۔
دہشت گردوں کا صفایا 
پاکستان کے شہرکوئٹہ میں ہوئی دہشت گردی خطرناک تھی۔ اس حملے میں ساٹھ سے زیادہ کیڈٹس ہلاک ہوئے۔ یہ لوگ کون تھے؟ اگر وہ زندہ رہتے تو تربیت لے کر پولیس والے بنتے۔ اس پولیس ٹریننگ اکیڈمی پر حملے کا مطلب کیا ہے؟دہشت گردوںنے صرف پاکستانی فوج کو ہی اپنا دشمن قرار نہیں دیا‘ بلکہ پولیس والوں کا شمار بھی دشمنوں میں ہونے لگا ہے۔ پشاور کے فوجی سکول کے قریب 150 بچوں کی ہلاکت ان دہشت گردوں نے کچھ وقت پہلے کی تھی۔ سچ پوچھا جائے تو یہ دہشت گرد فوج اور پولیس کے نہیں ‘ پورے پاکستان کے دشمن ہیں۔ آج پاکستان میںکوئی بھی اپنے آپ کو محفوظ نہیںسمجھتا۔ ہر مشہور آدمی اپنے ساتھ باڈی گارڈ لے کر گھومتا ہے۔ کوئی سکول ‘ ہسپتال ‘ سینما گھر محفوظ نہیں ہے۔ آج پاکستان میں دہشت گردی کے سبب جتنے لوگ مارے جارہے ہیں ‘اتنے دنیا میں کہیں نہیں مارے جا رہے‘ لیکن پھر بھی پاکستان کے حکمران کوئی سبق نہیں لے رہے ہیں۔
سری لنکا کے تامل دہشت گرد ‘ پاکستان کے طالبان ‘ افغانستان کے مجاہدین اور شام کے جہادی یہی کچھ کر رہے ہیں۔ جنہوں نے ان کو آگے بڑھایا ‘انہی کو تباہ کر دیا۔ پاکستان جب تک پوری طرح سے دہشت گردوں کو صفا یا کرنے کا عزم نہیں کرے گا، اسے کوئٹہ اور پشاور جیسے حادثوں سے گزرنا پڑے گا۔ دہشت گردوںکا مقابلہ صرف بندوق سے نہیں ہوگا، ان کے ساتھ بیٹھ کر بات کرنی ہوگی۔ انہیں سمجھانا ہوگا کہ تشدد کا راستہ انہیں کہیں نہیں پہنچائے گا۔
فلمی دنیا پر دہشت گردی کا سایہ
اڑی کے دہشت گردانہ حملے کے بعد اب ممبئی فلموںپر حملہ شروع ہوگیا ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ دہشت گردی کی ایک کارروائی کا جواب دوسرے دہشت گردانہ حملے سے دینا کہاں 
تک ٹھیک ہے؟ کیا جو پاکستانی فنکار ہماری فلموں میں کام کر رہے ہیں‘ان کا دہشت گردوں سے کوئی تعلق ہے؟ کیا انہوں نے کبھی دہشت گردوں کی حمایت کی ہے؟ ان پر دہشت گردی کا الزام لگانا اورا نہیں نکال باہر کرنے کی بات کرنا سراسر وہم ہے۔ یہ کہنا کہ ملک میں بھارت پاک جنگ کا ماحول ہے اور اس ماحول میں مہاراشٹر نونرمان سینا ممبئی کی دھرتی پر پاکستانی فنکاروں کو برداشت نہیں کریگی‘خالص دماغی دیوالیہ پن کا ثبوت دینا ہے۔ فوجی سرجیکل سٹرائیک جو ایک اکثر ہونے والا معمولی واقعہ ہے‘ اس کو جنگ کہنا پاگل پن کی حد ہے۔ جس سرکار نے یہ سرجیکل سٹرائیک کروائی ہے ‘وہ بھی پاکستانی اداکاروں کے خلاف کوئی پابندی نہیں لگا رہی، تو یہ سینا وینا کون ہوتی ہے ان بھارتی فلموں کو جلانے والی ‘ جن میں پاکستان کے اداکاروں نے کام کیا ہے۔ اپنے آپ کو یہ نونرمان سینا کہتی ہے۔ اسے اپنانام بدل کر نووناش (نئی بربادی) سینا رکھ لینا چاہیے۔ اسے بھارتی فنکاروں ‘ فلموں اور سینماگھروں پر حملہ کرنے کا کوئی حق نہیں ۔ہاں ‘ وہ مخالفت کرنا چاہتی ہے تو ضرور کرے لیکن اس میں تشدد نہیںہونا چاہیے۔ مہاراشٹر کی سرکار مبارک کی حقدار ہے جس نے سینا کی غنڈہ گردی کے خلاف فوراً کارروائی کی۔ سینا کو پتا نہیں ہے کہ بھارتی فلمیں پاکستان میں کروڑوں روپیہ کماتی ہیں۔ اس سے بھی بڑی بات یہ ہے کہ وہ پاکستان کو بھارتی تہذیب سے جوڑے رکھتی ہیں۔'سینا‘ اپنی حرکتوں کے سبب بھارتی فلمی ہدایت کاروں اور اداکاروںکا نقصان تو کرتی ہی ہے ‘ وہ بھارتی جمہوریت کو بدنام بھی کر رہی ہے۔ ایکٹروں ‘مصنفوں ‘ مفکروں کی مخالفت آپ کو کرنی ہے تو آپ ان کی زبان میں کریں‘ لیکن ان کے خلاف دہشت گردی جیسی کارروائیاں کرنا سراسر بزدلانہ کا م ہے۔ اس میں شک نہیں 
کہ 'وزیر پرچار‘ کے نہایت ہی خوبصورت حربوں کے سبب ملک میں پاکستان کے خلاف ماحول بن گیا تھا ‘ لیکن اس پینترے کو جتنا زیادہ دوہنے کی کوشش کی جا رہی ہے ‘اس کی ہوا اتنی ہی نکلتی جا رہی ہے۔ ممبئی کی جو سینائیں ‘ہمارے وزیر پرچار کا مذاق اڑاتی رہتی ہیں ‘وہ اب ان کے اسی حربے کے دم پر اپنے پنکچر ہوئے ٹائر کو پھُلا رہی ہیں۔ یہ سینائیں اور پاکستان کے دہشت گرد جڑواں بھائی ہیں۔ ان کے صرف عمل کا فرق ہے۔ وہ مرنے مارنے پر تُل جاتے ہیں ‘ یہ توڑ پھوڑ کر کے اپنے آپ کو تیس مارخان ثابت کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ دونوں ملکوں کی اکثریت انہیں پسند نہیں کرتی۔ حیرانی کی بات ہے کہ پاکستان کی سرکار ہمارے تہذیبی دہشت گردوں کے ہاتھ کا کھلونہ بن رہی ہے۔ اس نے بھارتی ریڈیو اور ٹی وی چینلوں پر پابندی لگا رکھی ہے۔
پاک امریکہ تعلقات میں کشیدگی
امریکہ نے پاکستان کو اب صاف الفاظ میں سخت وارننگ دے دی ہے۔ امریکی وزارت خزانہ کے اعلیٰ افسر ایڈم ایس روبن نے کہا ہے کہ پاکستان کو سبھی دہشت گردوں کے خلاف ایمانداری سے مہم چلانی ہوگی۔ یہ نہیں چلے گا کہ وہ کچھ دہشت گردوں کو برا کہیںاور کچھ کو اچھا! روبن اس وزارت خزانہ کے افسر ہیں ‘ جو پاکستان کو ہر برس بڑی مالی امداد دیتی ہے۔ امریکی کانگریس نے بل پاس کر رکھا ہے ‘جس کا ہدف ہے پاکستان پر نگرانی رکھنا۔ اگر پاکستان پوری طرح دہشت گردوں سے نہیں لڑتا اور ان کا صفایا نہیں کرتا تو اس کی امداد بند کرنے کی شق اس قانون میں ہے۔ ایڈم کی وارننگ اسی قانون کے مطابق ہے۔ ایڈم نے پاکستانی فوج کی تعریف اس بات کے لیے تو کافی کی ہے کہ اس نے 'ضرب عضب ‘مشن کے تحت ہزاروں دہشت گردوں کو ہلاک کیا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved