متعدد قارئین نے میرے گزشتہ کالم پر، جس میں اصلی بھارت کو روبروکرنے کی کوشش کی گئی تھی، اعتراضات کیے ہیں۔ ایک قاری کے مطابق اس کالم سے پاکستان میں جمہوریت مخالف عناصر کو شہ ملی ہے اور اس کی وہ خوب تشہیر کر رہے ہیں۔ ایک اور صاحب نے الزام لگایا کہ بھارتی جمہوریت کی منفی تصویر پیش کرکے میں نے متعصبانہ ذہنیت اور جانبداری سے کام لیا ہے۔ ایک ای میل میں بتایا گیا کہ جمہوریت کی وجہ سے بھارت میں معاشی ترقی کے ثمرات شہریوں کو پہنچ رہے ہیں، اسی لئے امریکہ کی 30 بڑی کمپنیوں کے سربراہ بھارتی نژاد شہری ہیں۔ انٹرنیٹ سرچ کمپنی گوگل کا سربراہ بھی بھارتی ہے۔ یقیناً جمہوریت سے فرار ممکن نہیں، یہ واحد طرز حکومت ہے جس میں خرابیٔ بسیارکے باوجود، حکمران طبقہ 5 سال بعد عوام کے احتسابی عمل سے گزرتا ہے۔ مجھے یاد ہے، نومبر 1996ء میں پاکستان میں بے نظیر بھٹو کی حکومت کی معزولی کی خبر جب بی بی سی سے نشر ہو رہی تھی، میں کچھ ساتھیوں کے ہمراہ کشمیری راہنما سید علی گیلانی کے ساتھ بیٹھا تھا۔ ان کا پہلا ردعمل یہ تھاکہ کرپشن اور دیگر الزامات کے باوجود ایک منتخب حکومت کو اپنی مدت پوری کرنے کا موقع ملنا چاہیے تھا۔ شاید کم و بیش یہی صورت حال اس وقت وزیر اعظم نواز شریف کو در پیش ہے۔ یہ درست ہے کہ جمہوریت کے ثمرات انقلابی نہیں بلکہ ارتقائی ہوتے ہیں، مگر بھارتی جمہوریت کی کمزوریوں کو اجاگرکرنے کا مقصد یہ تھا کہ اس نظام میں بہتری لانے کی بہت زیادہ گنجائش ہے۔ جمہوریت کا واحد مقصدعام آدمی کو با اختیار بنانا اور اقتدارکی دیوی کو اس کی چوکھٹ تک لانا ہوتا ہے تاکہ وہ اپنے آپ کو سسٹم کا حصہ سمجھے اور حکمرانوں کو اپنے وکیل یا اپنی ذات کا قائم مقام تسلیم کرے۔
آخر ایک کامیاب جمہوری نظام کے لئے صرف بھارت کی طرف ہی دیکھنے کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے؟ گزشتہ عام انتخابات میں حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی نے صرف 31 فیصد ووٹ لے کر لوک سبھا کی 543 میں سے 282 یعنی 52 فیصد نشستیں حاصل کر لیں۔کانگریس کو 19.3فیصد ووٹ حاصل کرنے کے باوجود صرف 44 نشستوں پر اکتفا کرنا پڑی۔ جنوبی بھارت کی آل انڈیا انا ڈی ایم کے پارٹی نے صرف 1.60 فیصد ووٹ حاصل کرکے 37 سیٹیں جیت لیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ دلت راہنما مایاوتی کی بہوجن سماج پارٹی نے تو اس سے کہیں زیادہ 4.1 فیصد ووٹ حاصل کئے مگر اس کو کوئی سیٹ نہیں مل سکی۔ موجودہ لوک سبھا میں اس کا کوئی نمائندہ موجود نہیں جبکہ ووٹوں کے تناسب کے حساب سے اس کو 21 سیٹیں ملنی چاہیے تھیں۔ بائیں بازو نے 2.08 فیصد ووٹ لے کر نو نشستیں حاصل کیں۔ آخر ان اعداد و شمار کی بنیاد پر کیسے یہ نتیجہ اخذکیا جائے کہ بھارت میں اس وقت ایک نمائندہ حکومت بر سر اقتدار ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ جب حکومت سازی کے لئے 51 فیصد منتخب اراکین کی حمایت درکار ہوتی ہے، تو ہر منتخب رکن کے لئے بھی 51 فیصد ووٹ حاصل کرنا لازمی ہونا چاہیے۔
دو دہائی قبل بھارت کے سرکاری منڈل کمیشن نے اپنی ہوشربا رپورٹ میں انکشاف کیا تھا کہ کس طرح جمہوریت کے باوجود وسائل پر ایک مخصوص طبقے کی اجارہ داری ہے۔ بھارت میں اعلیٰ ہندو ذاتوں کا کل آبادی میں تناسب صرف 15فیصد ہے، مگر سیاست میں ان کی شرح 66 فیصد، سرکاری ملازمتوں میں87 فیصد اور تجارت میں 94 فیصد ہے۔ یہ طبقہ 92 فیصد زمینوں کا مالک ہے۔ باقی 85 فیصد آبادی جس میں اقلیتیں، دلت، قبائل اور دوسری پسماندہ ذاتیں شامل ہیں، سیاست میں 34 فیصد، سروسز میں 13 اور تجارت میں صرف 6 فیصد حصہ رکھتی ہیں۔ یہ تمام طبقات مجموعی طور پر صرف 8 فیصد زمینوں کے مالک ہیں۔ اگر اعداد و شمار کو مزید کھنگالا جائے تو پتا چلے گا کہ آبادی کا صرف 3.5 فیصد برہمن طبقہ سیاست میں41 اور سروسز میں 62 فیصدحصے پر برا جمان ہے۔ اس وقت وزیر اعظم نریندر مودی کی کابینہ میں 87.7 فیصد ارکان اعلیٰ ذاتوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ سیاسی، سفارتی یا میڈیا سے متعلق معاملات کلی طور پر اسی 15فیصد آبادی کے زیر تصرف ہیں۔ یہ طبقہ پاور سٹرکچر خصوصاً فیصلہ سازی میں کسی دوسرے کوشامل کرنے پر آمادہ نظر نہیں آتا، اگر کوئی کوشش کرے تو اس کی ایسی کردار کشی کی جاتی ہے کہ وہ فرار میں ہی عافیت جانتا ہے۔
بھارت کو باہر سے دیکھنے والے کو چونکہ اسی طبقے سے معاملات طے کرنے ہوتے ہیں، اس لئے عموماً وہ مرعوبیت اور احساس کمتری کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ہماری جمہوریت کی سب سے بڑی کمزوری سیاسی پارٹیوںکے اندر جمہوریت کا فقدان ہے۔ یہ پارٹیاں نظریات اور پالیسیوں کے بجائے شخصیات کے ار د گرد گھومتی ہیں۔ کرپشن کی جڑ ہی شخصیت پرستی اور انتخابات میں ووٹ حاصل کرنے کے لئے زرکا استعمال ہے۔
چند برس قبل ڈنمارک کے دورے پر جانا ہوا، مجھے تجسس تھا کہ آخراس ملک کو بدعنوانی سے یکسر پاک یا تقریباً پاک ملک کا درجہ کیسے حاصل ہے۔ یہ ملک انتہائی مطمئن شہریوںکی فہرست میں سرفہرست ہے۔ ڈنمارک کے سیاست دانوں اور سول سوسائٹی کے کارکنوں سے میں نے اس سلسلے میں بات کی تو انہوں نے بتایا کہ یہ چیز ان کے رگ و پے میں بسی ہوئی ہے۔ سیاست دانوںکے متوازن طرز زندگی‘ لوک پال (محتسب) کی موجودگی اورآزاد میڈیا اس کے بڑے اسباب ہیں۔ روزانہ دس کلومیٹرکی مسافت سائیکل پر طے کرکے دفتر پہنچنے والے ڈنمارک پارلیمنٹ کے سپیکر موجینس لائکے ٹافٹ اور دیگر وزراء کا خیال تھا کہ ڈنمارک کی اس خوبی کی وجہ یہ ہے کہ اس ملک کی جمہوریت ایک مضبو ط ٹریڈ یونین تحریک کی بنیاد پر قائم ہے، البتہ اس میں دیگر اقدامات کا بھی کردار ہے۔ مثال کے طور پر یہاں انتخابی مہم چلانے کے
لئے سیاسی پارٹیوں کو قومی خزانے سے رقم دی جاتی ہے۔ لائکے ٹافٹ نے بتایا: ''اس کا طریقہ کار یہ ہے کہ سابق الیکشن میں جو پارٹی قومی اور علاقائی سطح پر جتنے ووٹ حاصل کرتی ہے اسی حساب سے اسے رقم دی جاتی ہے‘‘۔ انہوں نے بتایا کہ الیکشن میں انہوں نے اپنے حلقہ انتخاب پر 20,000 ڈالر خرچ کئے تھے، لیکن انہیں اپنی جیب سے پھوٹی کوڑی بھی نہیں دینی پڑی کیونکہ یہ رقم پارٹی اور سرکار ی فنڈ سے ملی تھی۔ انہو ں نے کہا ہماری انتخابی مہم بہت مختصر‘ تقریباً تین ہفتے کی ہوتی ہے، اس وجہ سے بھی اخراجات کم ہوتے ہیں۔ بدعنوانی میں ذرہ برابر ملوث پائے جانے والوں کے خلاف صرف سرکاری کارروائی ہی نہیں ہوتی بلکہ انہیںعوامی سطح پر بھی سخت ہزیمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جہاز رانی کے وزیر اس وقت بڑی مصیبت میں پھنس گئے جب ڈنمارک کی ایک مشہورکارگو کمپنی کے ایک بڑے شپنگ پروجیکٹ کا افتتاح کرنے کے بعد انہوں نے کمپنی کی طرف سے تحفتاً پیش کی گئی قیمتی کلائی گھڑی قبول کرلی۔ 1980ء کی دہائی میں ملک کی ایک وزیر خارجہ کو صرف اس لئے اپنے عہدے سے مستعفی ہونا پڑا کہ انہوں نے برطانیہ میں قیام کے دوران لندن کے سات ستارہ رٹز ہوٹل کا کمرہ بک کرا لیا تھا جس کا کرایہ ایک ہزارڈالر تھا۔ وہ یہ رقم اپنی جیب سے ادا کرنے کے لئے تیار تھیں لیکن عوام نے ان کی اس پیش کش کوقبول کرنے سے انکار کردیا کیونکہ ڈنمارک کے شہریوں کا خیال تھا کہ ان کا ملک کسی بھی سیاست دان کی فضول خرچی کا متحمل نہیں ہوسکتا۔کوپن ہیگن کی ترک نژاد میئرآئفر بیکل نے مجھے بتایا کہ یہاں کا انتظامی ڈھانچہ ایسا ہے کہ لوگ اپنی روزمرہ ضرورتوں کے لئے سرکاری حکام پر بہت کم انحصارکرتے ہیں۔ غالباً اس سے بھی ملک کو بدعنوانی سے پاک رکھنے میںمدد ملی ہے۔ہیلے تھورنگ شمٹ جو اس وقت ڈنمارک کی وزیر اعظم تھیں، دفتر پہنچنے سے پہلے اپنے دونوں بچوں کو خود سکول پہنچاتی تھیں۔ ان کے بچے بھی عام سرکاری سکول میںپڑھتے تھے۔ بدعنوانی سے پاک ہونے کا امتیاز حاصل کرنے کی سب سے بڑی جو وجہ میری سمجھ میں آئی وہ ڈنمارک کے سیاست دانوں کی سادہ زندگی تھی۔کم و بیش یہی صورت حال میں نے اسرائیل میں دیکھی۔ ان ملکوں کے لیڈر سادگی کا عملی نمونہ پیش کرتے ہیں اس لئے ان کو کرپشن کرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔ غالباً یہی وہ بات ہے جس کی نصیحت جنگ آزادی کے بڑے لیڈر موہن داس کرم چند المعروف مہاتما گاندھی نے 1937ء میں اس وقت کے کانگریسی وزرائے اعلیٰ کو کی تھی جب انہوں نے مختلف صوبوں میں عہدے سنبھالے تھے۔گاندھی جی نے انہیں اپنے خط میں لکھا تھاکہ ''کانگریسیوں کو یہ نہیںسمجھ لینا چاہیے کہ سادگی پر ان (گاندھی) کی ہی اجارہ داری ہے‘ جس کا مظاہرہ وہ1920ء سے دھوتی کی صورت میں کر رہے ہیں۔ میں حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کی مثال پیش کرنا چاہتا ہوں۔ میں رام اور کرشن کو مثال کے طور پر اس لئے پیش نہیں کرسکتا کہ یہ ماقبل تاریخ کے نام ہیں۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ مہا رانا پرتاپ اور شیوا جی انتہائی سادہ زندگی گزارتے تھے لیکن اس بات پر اختلاف ہے کہ جب وہ اقتدار میں آئے تو انہوں نے کیا طرز عمل اپنایا۔ البتہ پیغمبراسلام‘ حضرت ابوبکر اور عمر کے بارے میں کوئی دو رائے نہیں ہے۔ پوری دنیا کی دولت ان کے قدموں میں تھی، اس کے باوجود انہوں نے جس طرح کی جفاکش اور سادہ زندگی گزاری اس کی کوئی دوسری مثال تاریخ میں ملنی مشکل ہے۔حضرت عمر نے اپنے گورنروں کو بھی موٹا کپڑا پہننے اور موٹا آٹا کھانے کی ہدایت دی تھی۔ اگر کانگریسی وزراء بھی اسی سادگی اور کفایت شعاری کو برقرار رکھیں گے جس پر وہ1920 ء سے گامزن ہیں تو اس سے ہزاروں روپے بچیں گے‘ جس سے غریبوں کی امیدیں روشن ہو سکتی ہیں اور خدمات کے آہنگ میں تبدیلی آسکتی ہے۔ میں اس جانب اشارہ کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ سادگی کا مطلب بدحالی ہر گز نہیں، سادگی میں ایک خوبصورتی اور کشش ہوتی ہے جسے اس خوبی کو اپنانے والے بخوبی دیکھ سکتے ہیں۔ پاک صاف اور باوقاررہنے کے لئے پیسے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ دکھاوا اور نمائش بالعموم فحاشی کے مترادف ہوتے ہیں‘‘۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گاندھی کی ان نصیحتوں کو ڈنمارک اور اسرائیل کے سیاست دانوں نے حرف بہ حرف اپنا لیا ہے لیکن ہمارے آخری رسول حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کو ماننے والوں نے ان تعلیمات کو بہت پہلے سے بھلا رکھا ہے جس کا انجام آج عوام کو بد حالی اور تباہی کی صورت میں بھگتنا پڑ رہا ہے۔