ریڈیو پاکستان کی کمرشل سروس کا آغاز جنرل ایوب خاں کی حکومت کے ابتدائی زمانے میں ہوا تھا۔ جنرل ایوب خاں شروع شروع میں امریکہ پر دل و جان سے فدا تھے اور کہا جاتا ہے کہ ان کو بھارت کی طرف سے ایٹمی ٹیکنالوجی حاصل کرنے کی کوشش کے پس منظر میں جب مشورہ دیا گیا کہ پاکستان کو بھی ایٹمی پیش بندی پر کچھ کام کرنا چاہیے تو جنرل ایوب نے اس تجویز کو یہ کہتے ہوئے رد کر دیا تھا کہ ضرورت پڑی تو وہ ایٹم بم امریکہ سے لے لیں گے۔ اس دور میں مرکزی حکومت نے ریڈیو پاکستان کو امریکہ کی طرز پر کمرشل پروگرام نشر کرنے کا کہا تو ریڈیو کی طرف سے اس تجویز کی سخت مخالفت کی گئی۔ زیڈ اے بخاری کے بعد رشید احمد ریڈیو کے ڈائریکٹر جنرل بنے تھے۔ احمد شاہ بخاری پطرس کے شاگرد تھے۔ معرکہ آرا انگریزی لکھتے تھے۔ ساتھ ہی ساتھ نشریات کے بھی بے مثال ماہر تھے اور دنیا بھر میں ریڈیو نشریات کی صورت حال پر بہت گہری نظر رکھتے تھے۔
رشید احمد صاحب نے مرکزی حکومت کی اس تجویز کی مخالفت میں جو ایک طویل نوٹ لکھا وہ یقیناً آج بھی سرکاری فائلوں میں محفوظ ہو گا۔ مجھے تو اپنی سروس کے اوائل میں اپنے سینئرز کی زبانی چیدہ چیدہ نکات معلوم ہوئے تھے۔ رشید صاحب نے حکومت کے گوش گزار کیا تھا کہ امریکہ میں تو ان کے آئین کے تحت حکومت ریڈیو سمیت نشرو اشاعت کے کسی ادارے کی مالک نہیں ہو سکتی۔ یہی وجہ ہے امریکہ میں سارا ہی میڈیا کمرشل بنیادوں پر قائم ہوا ہے جبکہ پاکستان میں صورت حال مختلف ہے، یہاں برطانوی دور میں آل انڈیا ریڈیو مکمل حکومت کے کنٹرول میں تھا۔ بعدازاں یہی روایت پاکستان میں قائم ہے۔ یہاں رشید صاحب کا حکومت کو واضح پیغام تھا کہ اگر ریڈیو کو کمرشل بنیادوں پر چلانا ہے تو اس کو سرکاری کنٹرول سے آزاد کر کے نجی شعبے کو ریڈیو سٹیشن کھولنے کی اجازت دینی ہو گی۔
یہ تو رشید صاحب کی بڑی دلیل تھی لیکن انہوں نے اور بھی بہت سے دلائل دے کر بڑی وضاحت سے کہا تھا کہ اگر اسی طرح حکومت کے کنٹرول میں رکھتے ہوئے ریڈیو کو کمرشل بنیادوں پر چلانے کی کوشش کی گئی تو یہ کبھی Economically Viable نہیں ہو سکے گا۔ یعنی اس ادارے کی کمائی کبھی اس کے کل اخراجات پورے نہیں کر پائے گی۔
جس طرح پاکستان میں روایت ہے، اس قدر مدلّل نوٹ میں درج نکات کو مرکزی حکومت نے یکسر نظر انداز کرتے ہوئے حکم جاری کر دیا کہ ریڈیو کمرشل سروس شروع کر دے۔ اس نوٹ کا صرف اتنا اثر ہوا کہ حکومت نے کہا کہ ابتدائی طور پر چند گھنٹوں کے لیے کمرشل پروگرام شروع کیے جائیں اور بعدازاں ان کو تمام نشریاتی اوقات پر پھیلا دیا جائے۔
جب یہ فیصلہ رشید احمد صاحب تک پہنچا تو انہوں نے انتہائی دیانتداری سے ریڈیو پاکستان کے ایک بہترین افسر شمس الدین بٹ کا انتخاب کیا۔ بٹ صاحب کے بارے میں اپنے ایک کالم میں میں یہ تحریر کر چکا ہوں کہ وہ امریکہ سے براڈ کاسٹنگ میں ماسٹرز کی ڈگری لے کر آئے تھے۔
ڈائریکٹر جنرل رشید احمد نے ریڈیو کمرشل سروس کی فائل شمس الدین بٹ کے حوالے کرتے ہوئے ان کو نوید سنائی کہ وہ اب ڈائریکٹر کمرشل سروس تعینات کر دیے گئے ہیں۔ ساتھ ہی رشید صاحب نے اس معاملے پر بٹ صاحب کو بریف کرتے ہوئے کہا کہ فائل میں ان کو معلوم ہو جائے گا کہ ریڈیو کے ڈائریکٹر جنرل کی حیثیت سے انہوں نے اس تجویز کی کس قدر مخالفت کی ہوئی ہے۔ انہوں نے بٹ صاحب کو نصیحت کی کہ اس مخالفت کا کوئی نوٹس نہیں لینا بلکہ پورے خلوص کے ساتھ ریڈیو پاکستان کی کمرشل سروس کا آغاز کرنا ہے کیونکہ حکومت نے فیصلہ کر دیا ہے اور ریڈیو پاکستان کی ذمہ داری ہے کہ حکومت کے فیصلوں پر خلوص دل سے عملدرآمد کرے۔
اس پس منظر میں ساٹھ کے عشرے کی ابتداء میں ریڈیو میں دوپہر کے وقت چند گھنٹوں کے لیے کمرشل سروس شروع کی گئی۔ شمس الدین بٹ نے بڑی محنت سے اس سروس کے لیے ضوابط وضع کیے کیونکہ پہلے تو ریڈیو کو اس طرح براہ راست رقوم وصول نہیں ہوتی تھیں لیکن اب خطرہ تھا کہ نچلی سطح پر مالی بدعنوانی شروع نہ ہو جائے۔ نئے ضابطوں میں اس کی پیش بندی کر دی گئی۔ کمرشل سروس میں jingleاور سپاٹ چلنے شروع ہوئے۔ پھر فلموں کے تشہیری پروگرام شروع ہو گئے۔ حکومتی اداروں کی طرف سے بھی اشتہارات ملنے لگے۔ اس سب کے باوجود آمدن اس قدر کم تھی کہ کمرشل سروس سے متعلقہ افراد کی تنخواہیں اور اس سروس کے دیگر اخراجات تک پورے نہ ہوتے تھے۔
رشید احمد صاحب نے بنیادی طور پر کمرشل سروس کے بارے میں جو کچھ تحریر کیا تھا وہ حرف بحرف سچ ہوتا گیا۔ ایوب خاں کے بعد بھٹو کے دور حکومت میں ریڈیو پاکستان کو سرکار کی ملکیت کارپوریشن میں تبدیل کیا گیا تو ریڈیو کے تمام ہی پروگرام قابل فروخت ہو گئے۔ اس کے بعد ریڈیو میں سیلز کا محکمہ قائم ہوا۔ اس کے دفاتر بڑے سٹیشنوں پر قائم ہوئے اور چھوٹے سٹیشنوں پر سیلز آفیسر تعینات ہو گئے۔ خیال تھا کہ اس طرح آہستہ آہستہ ریڈیو کی آمدنی بڑھائی جائے گی۔ مگر یہ خیال ان لوگوں کا تھا جنہوں نے رشید احمد صاحب کی رپورٹ پڑھنا گوارا نہیں کیا تھا۔
پھر بھٹو دور میں ہر محکمے میں یونینیں قائم ہو گئیں۔ ریڈیو پاکستان میں بھی ایک طاقتور یونین قائم ہو گئی۔ اس کے انتظامیہ کے ساتھ مذاکرات کے نتیجے میں تنخواہیں بڑھتی رہیں جو پہلے ہی بھٹو صاحب کے اس حکم کے بعد کہ ریڈیو اور ٹی وی کو ایک جیسی تنخواہیں دی جائیں، پہلے ہی کافی بڑھ چکی تھیں۔ لہٰذا اخراجات اس قدر بڑھ گئے کہ ریڈیو کے محکمہ سیلز کی آمدن کل اخراجات کے دس فیصد سے کبھی بڑھ نہ سکی، اس کے باوجود کہ ریڈیو کو محکمہ زراعت وغیرہ کے کروڑوں روپے کے سرکاری اشتہارات ملتے تھے۔
آج ریڈیو کے میڈیم ویو کے علاوہ بہت سے ایف ایم سٹیشن بھی ہیں۔ حالت یہ ہے کہ ہر سال حکومت کو اربوں روپیہ اس ادارے کو دینا پڑتا ہے۔ اس رقم کا بیشتر حصہ سٹاف کی تنخواہیں‘ ریٹائرڈ لوگوں کی پنشنوں‘ بجلی کے بل‘ ٹرانسپورٹ اور میڈیکل کے اخراجات پر صرف ہوتا ہے۔ بہت ہی معمولی رقم پروگراموں پر خرچ ہو پاتی ہے۔ ان حالات میں اس محکمے کا مستقبل کیا ہو گا۔ آپ خود اندازہ لگا لیں۔