بہت کچھ دیکھا۔ حکومتوں اور عوام کو ایک دوسرے کے خلاف برسر پیکار دیکھا۔ خواتین کانسٹیبل سے گھریلو مستورات کو بچتے دیکھا۔ اسلحہ‘ لاٹھیاں‘ ڈنڈے‘ اشک آور گیس کے باوجود‘ نوجوانوں کومسلح پولیس اہلکاروں کو للکارتے دیکھا۔ جبکہ عوام کے پاس کچھ بھی نہیں تھا۔ ان کے پاس سڑک پر پڑی کوئی اینٹ یا روڑا ہاتھ آیا‘ وہ اسی کے ساتھ پولیس پر پل پڑے۔ شام ملگجی ہو چکی تھی۔ پولیس ایک منظم اور تربیت یافتہ فورس ہے جبکہ عام آدمی غیر منظم اور غیر تربیت یافتہ تھے۔ پولیس کے دستے یکجا ہو کر بکھرے اور غیر منظم عوام پر یلغاریں کر رہے تھے‘ جبکہ عام لوگوں کے جو کچھ ہاتھ لگتا‘ اسی کو ہتھیار بنا کے پولیس پر پل پڑتے۔ یوں تو ملک بھر کی ہر سڑک کو ناکے لگا کر بند کر دیا گیا تھا۔ موٹر وے اور ایکسپریس ویز پرکنٹینرز کھڑے کر دئیے گئے تھے جو اتنے بھاری بھرکم تھے کہ انہیں ہلانا‘ انسانوں کے بس کی بات نہیں تھی۔ حکومت نے بڑے بڑے کرین لا کر کنٹینرز ایک سے دوسری جگہ منتقل کرنے کا انتظام بھی کر رکھا تھا۔ پولیس کے پاس گیس ماسک تھے جبکہ غیر مسلح عوام کے پاس سوائے لاٹھیوں اور پتھروں کے کچھ نہیں تھا۔ جو معرکے میں ٹی وی پر دیکھ رہا تھا‘ یہ اپنی طرز کی ایک انوکھی جنگ تھی۔ ایک طرف تربیت یافتہ لاٹھیوں اور اشک آور گیس سے مسلح مختلف فورسز اور ان کے سروں پر ہیلمٹ جو کافی حد تک عوامی ہتھیاروں سے ان کو تحفظ دے رہے تھے‘ دوسری طرف عوام کے پاس اپنے دفاع کے لئے کچھ نہیں تھا۔ آس پاس کی آبادیوں سے لوگ پانی کی بالٹیاں اور ڈول بھر بھر کے لاتے اور اشک آور گیس کا شکار ہونے والے سادہ لوح اور جوشیلے نوجوانوں کے علاوہ ادھیڑ عمر اور بزرگ افراد‘ جن کے پاس چند پرانے جلوسوں کے تجربے کے سوا کچھ نہیں تھا‘ پر چھینٹے مارتے۔ انہوں نے اپنی جوانی کے زمانے میں جو اشک آور گیس بھگت رکھی تھی‘ وہ ابتدائی نوعیت کی تھی‘ جس کے متاثرین آنکھوں میں پانی کے چھینٹے ڈال کر کام چلا لیتے تھے لیکن یہ گیس جو حالیہ تحریک کے دوران عوام کے خلاف استعمال میں لائی گئی‘ زائدالمیعاد بھی تھی اور زہریلی بھی۔ ابھی میں نہیں کہہ سکتا کہ کچھ عرصے کے بعد اس کے زہریلے اثرات کیسے کیسے ظاہر ہوتے ہیں‘ لیکن ایک تجربہ تو ہمارے سامنے ہے جو چار دن کے معصوم بچے پر کیا گیا اور گیس کے دھوئیں کی پہلی ہی لہر‘ اس کی زندگی کا گھونٹ بھر گئی۔
ہمارا ماضی طاقتور پنجاب کا زور بھگت چکا ہے۔ سب سے پہلے مشرقی پاکستان‘ جو مغربی پاکستان میں آبادی کے اعتبار سے زیادہ تھا‘ وہ اپنے جمہوری حقوق کبھی حاصل نہ کر سکا۔ ایسی ایسی چال بازیاں اور علتیں ڈھونڈ ڈھونڈ کر‘ ان پر مسلط کی گئیں کہ وہ بیچارے آخری دم تک اپنے جائز جمہوری حقوق حاصل نہ کر سکے۔ وہ کچھ نہیں چاہتے تھے‘ صرف ایک فرد ‘ ایک ووٹ کے اصول پر اپنے حقوق چاہتے تھے‘ جو جمہوریت کا بنیادی اصول بھی ہے۔مشرقی پاکستان کے لوگ ہم سے اپنی جائز اکثریت کا حق منوانے میں ناکام رہے اور آخر میں جب انہوں نے ایک فرد‘ ایک ووٹ کا اصول منوا کر اپنا حق حاصل کیا اور اس بنیاد پر عام انتخابات ہوئے تو ہم نے ایسی ایسی آئینی ترامیم پیش کیں کہ ان میں سے جس کو بھی تسلیم کیا جاتا‘ اس کے نتیجے میں بات وہیں آکر ٹھہرتی جہاں سے قیام پاکستان کے فوراً بعد چلی تھی اور وہ یہ کہ ایسی ایسی آئینی شرائط مسلط کرنے کی کوشش کی گئی‘ جن میں سے کوئی بھی مان لی جاتی ‘تو وہ اپنے اکثریتی حقوق سے محروم رہ جاتے۔آخری طریقہ ڈنڈا رہ گیا تھا‘ جسے ہم نے بے دھڑک استعمال کیا اور جب فوجی طاقت سے محروم مشرقی پاکستان کے عوام کو ہم نے بندوق کے زور پر‘ نا انصافی قبول کرنے کو مجبور کیا تو وہاں کے نہتے‘ سادہ لوح اور کھیت مزدور سرحدیں پار کر کے‘ بھارت میں پناہ گزین ہو گئے اور چالاک بھارتیوں نے ان کے ہاتھوں میں اسلحہ اور تربیت دے کر‘ مشرقی پاکستان میں داخل کر دیا اور پشت پناہی کے لئے اپنی فوجیں بھیج دیں۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا‘ وہ ایسی درد ناک کہانی ہے جسے بنگلہ دیش کے عوام صدیوں نہیں بھول سکیں گے۔
خیبر پختونخوا کے عوام آزادی کی صدیوں پرانی جنگ لڑتے چلے آرہے تھے ۔پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد‘ قائداعظمؒ نے جمہوری نظام کو ترجیح دی تو آزادی کے طلب گار پختون اور بلوچ اپنے جمہوری حقوق کے طلب گار ہوئے‘ جو انہیں آج تک نہیں مل سکے۔مغربی پاکستان میں اس کا پہلا تجربہ ہمیں سندھ میں ہوا۔ جنرل ضیا الحق کے دور میں اپنی تعداد کے مطابق‘ اقتدار میں حصہ لینے کی کوشش کی۔1979ء میں بھٹو صاحب کو پھانسی دے دی گئی کیونکہ چھوٹے صوبوں میں وہی ایک سمجھدار سیاست دان تھے جو اپنے صوبے کے جائز حقوق حاصل کرنے کی فہم و فراست رکھتے تھے۔ قابض جنرلوں نے عوام کی بے چینی دور کرنے کے لئے انہیں اقتدار میں حصہ دینے کی خاطر انتخابات کرائے تو ان کو تعداد کے مطابق نشستیں دینے سے انکار کر دیا گیا۔ یہ وہی کھیل تھا جو انتخابی ڈرامے میں دھاندلی کے ذریعے‘ ملک کے سب سے بڑے صوبے کو اکثریت دلانے کی خاطر کھیلا گیا۔یہ کھیل ابھی تک جاری ہے۔ سندھیوں کے اکثریتی حقوق سلب کرنے کے لئے وہاں کی آبادی کو مہاجر اور مقامی میں تقسیم کر کے رکھ دیا گیا۔ پھر یوں ہوا کہ مہاجروں کی نئی انتخابی طاقت ابھرنے کی وجہ سے‘ سندھیوں کی سیاسی طاقت بٹ گئی جو آج تک کسی فیصلہ کن نتیجے پر نہیں پہنچ پائی۔
اب صورت حال یہ ہے کہ صوبہ سرحد جو اب‘ کے پی کے کہلاتا ہے‘ بلوچستان جس کی آبادی پہلے کی طرح باقی صوبوں کے مقابلے میں کم ہے لیکن وہ اپنے قبائلی نظام اور تھوڑی آبادی کی وجہ سے‘ وفاق میں اقتدار کا برائے نام حصہ بھی نہیں لے سکتا‘ وہاں کی سیاست جو قبائلی سردارو ں میں تقسیم تھی‘ ان کی عمر طبعی ختم ہو جانے کے بعد‘ نئی نسل کو منتقل نہ ہو پائی۔ اب وہاں کی سیاسی طاقت نا تجربے کار اور غیر تربیت یافتہ نئی نسل کے ہاتھوں میں آگئی ۔ مجھے سیاسی سوجھ بوجھ رکھنے والے بلوچ سرداروں کی وراثت کے مالک نوجوانوں کو‘ مسلح فورسز کے ہاتھوں ضربات کھاتے دیکھ کر رنج ہوتا ہے۔بلوچستان کی موجودہ سیاسی قیادت ‘اپنے بزرگو ں کے تجربے سے محروم ہے ۔ میر حاصل بزنجو نے اپنی سیاسی فہم و فراست کو پنجاب کی اکثریت اور طاقت کا اعتماد پانے کے لئے استعمال کیا۔ بلوچستان کے پاس کوئی بھی لیڈر ایسا نہیں جو بزرگوں کی سیاسی وراثت کا جائز حقدار کہلا سکے۔ یہی صورت حال کے پی کے اور سندھ کی ہے۔
آج کا بھارت‘ ہماری نا اہل سیاسی قیادت کی وجہ سے‘ ہم سے مقابلے میں کہیں آگے نکل چکا ہے‘ جس کا ثبوت دیکھنا ہو تو پاکستان اور بھارت کے وزرائے اعظم کو باہمی ملاقات میں‘ ان کی قائدانہ حیثیت کا موازنہ کر کے دیکھا جا سکتا ہے۔ہم کہاں جائیں گے؟ میرے لئے اس کا اندازہ کرنا مشکل ہے۔جغرافیے میں اس خطے میں تیزی سے بدلتے ہوئے طاقتوں کے توازن کو دیکھتے ہوئے‘ ایک بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ ہماری سیاسی طاقت نے‘ ہمیں بڑے قائدین کی صف سے پیچھے دھکیل دیا ہے۔ہمیںایٹم اور ہائیڈروجن بموں سے کھیلنا نہیں آتا۔ اپنے سائز اور تناسب طاقت میں اب صرف چار بڑی طاقتیں روس‘ امریکہ‘ انڈیا اور چین باقی رہ گئی ہیں۔ فرانس اور برطانیہ بھی ہم سے زیادہ طاقتور ہیں۔ رہ گئے ہم؟ تو ہم کہاں؟ ایٹمی اسلحہ صرف بڑی طاقتوں کو تحفظ دیتا ہے۔ درمیانہ طاقتیں اپنے سائز کے مطابق‘ عالمی سیاست میں اپنا اپنا کردار ادا کرتی ہیں۔ ہماری ہائیڈرونک اور ایٹمی طاقت کا تناسب وہی ہے جو ہماری قومی اور سیاسی اہلیت کا۔ وزیر داخلہ‘چوہدری نثار نے فتح کی خوشی میں اپنی پریس کانفرنس میں اعلانات کئے'' ایف سی کی شاندار کارکردگی پر ان کے گریڈز اور تنخواہوں میں خاطر خواہ اضافہ کر دیا ہے‘‘۔