تحریر : ڈاکٹر رشید احمد خاں تاریخ اشاعت     03-11-2016

پاک بھارت کشیدگی میں اضافہ

گزشتہ جولائی کے پہلے ہفتہ میں بھارتی سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں نوجوان اور ہر دلعزیز مجاہد برہان وانی کی شہادت سے وادیٔ کشمیر میں سخت ردعمل پیدا ہوا تھا۔ ہڑتالوں‘ جلوسوں اور احتجاجی جلسوں کی صورت میں یہ احتجاج اب بھی جاری ہے اور مقبوضہ کشمیر کے حکام بھارتی سکیورٹی فورسز کی مدد کے باوجود اس احتجاجی تحریک پر قابو پا کر حالات کو معمول پر لانے میں ناکام رہے ہیں۔ اسی دوران اوڑی کے فوجی کیمپ پر حملے کا واقعہ رونما ہوا جس میں بھارت کے 16فوجی مارے گئے۔ بھارت نے اس حملے کی ذمہ داری دو کالعدم تنظیموں، لشکر طیبہ اور جیش محمد پر ڈال دی اورالزام لگایا کہ ان کے مسلح جنگجوئوں نے سرحد عبور کرکے اُڑی پر حملہ کیا ہے۔ اڑی کے حملے سے پاک بھارت تعلقات‘ جو کشمیر میں جاری احتجاجی تحریک کی وجہ سے پہلے ہی کشیدہ تھے‘ خطرے کی اس حد تک کشیدہ ہو گئے کہ دونوں ملکوں کے درمیان تصادم کا اندیشہ پیدا ہو گیا۔ لیکن عالمی برادری کی طرف سے دونوں ملکوں کو محتاط رہنے کے مشورے اور خود پاکستان اوربھارت کی سیاسی قیادت کے ذمہ دارانہ رویے کی وجہ سے خطرناک تصادم ‘جو ایک بھر پور جنگ میں بدل سکتا تھا‘ کی نوبت نہیں آئی‘ لیکن کشمیر اور پاکستانی علاقوں کے درمیان ورکنگ بائونڈری اور کشمیر کے دونوں حصوں کے درمیان لائن آف کنٹرول پر تقریباً روزانہ اورپھیلتی ہوئی فائرنگ اورجوابی فائرنگ نے ایک نئی تشویش ناک صورتحال پیدا کر دی ہے۔ اگرچہ سرحدوں پر فائرنگ کے اس تبادلے‘ جس میں اب چھوٹے ہتھیاروں کے علاوہ درمیانے درجے کے ہتھیار بھی استعمال ہورہے ہیں‘ کی زد میں دونوں طرف کے شہری آتے ہیں۔ یہ ایک خطرناک صورتحال ہے اور اگر اس پر جلد قابو نہ پایا گیا‘ تو کسی بڑے تصادم کا پیش خیمہ بن سکتی ہے۔ پاکستان اور بھارت نے نومبر2003ء میں لائن آف کنٹرول پر جنگ بندی کا ایک معاہدہ کیا تھا۔ جنگ بندی کا یہ معاہدہ لائن آف کنٹرول کے آر پار کئی برسوں پر محیط فائرنگ اور گولہ باری کے تبادلہ کے بعد عمل میں آیا تھا‘ جنگ بندی کا معاہدہ ہوتے ہی متاثرہ علاقوں کی رونقیں لوٹ آئیں۔ کسانوں نے نہ صرف اپنی زمینوں میں فصلیں بونا شروع کر دیں‘ بلکہ کشمیر کے دونوں حصوں کے بعض علاقوں میں‘جو سرحد سے زیادہ دور نہیں تھے‘ کمرشل سرگرمیاں‘ جن میں شاپنگ سنٹرز اورہوٹلوں کی تعمیر بھی شامل تھی‘ شروع ہو گئی تھیں۔ ان سب کا مقصد کشمیر کے دونوں حصوں میں سیاحت کا فروغ تھا‘ تاکہ تباہ حال معیشت کو سہارا دے کر بے روزگاری اورغربت کے مسئلے پر کسی حد تک قابو پایا جا سکے۔ سیاسی طور پر بھی 2003ء کے اس جنگ بندی معاہدہ کو پاکستان اور بھارت کے درمیان قیام امن کی کوششوں میں سب سے کامیاب اور دیر پا سی بی ایم(CBM)کہا جاتا تھا کیونکہ بعض مواقع پر ان مذاکرات کے عمل میں تعطل آ جانے کے باوجود لائن آف کنٹرول کی جنگ بندی قائم رہی تھی‘ لیکن افسوس یہ کامیابی اب نظروں سے اوجھل ہوتی ہوئی جا رہی ہے۔ لائن آف کنٹرول پر فائرنگ کا تبادلہ آج کی بات نہیں۔ یہ دراصل سابقہ دور حکومت کے آخری برس یعنی2012ء میں شروع ہوا تھا‘ اور جب 2013ء کے انتخابات کے نتیجے میں موجودہ یعنی وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت برسر اقتدار آئی‘ تو اس میں تیزی آ گئی تھی۔2014ء میں بھارت میں پارلیمانی انتخابات ہوئے اور نریندر مودی کی قیادت میں ہندو قوم پرست بی جے پی کی حکومت قائم ہوئی تو فائرنگ کے اس تبادلہ نے مزید شدت اختیار کر لی۔ اس وقت اور اس سے قبل بھی ان سرحدی خلاف ورزیوں کا الزام فریقین ایک دوسرے پرڈالتے ہیں‘ لیکن دو حقائق ایسے ہیں جنہیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور اگر ان کی روشنی میں موجودہ صورتحال کو دیکھیں تو صاف معلوم ہو جائے گا کہ ذمہ دار کون ہے ۔ایک یہ کہ نریندر مودی نے انتخابات کے دوران اپنی قوم سے وعدہ کیا تھا کہ وہ برسر اقتدار آ کر بھارت کے دو ہمسایہ ممالک یعنی چین‘پاکستان کے خلاف سخت رویہ اختیار کریں گے۔ اور جب وہ وزیر اعظم بنے تو ایسا فی الواقع ہوا بھی۔ کیوں کہ ان کا دعویٰ تھا کہ ان کے پیش رو وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ کی حکومت نے پاکستان اور چین کی طرف سے مبینہ سرحدی خلاف ورزیوں پر کمزورموقف اختیار کررکھا تھا۔ نریندرمودی نے اقتدار سنبھالتے ہی سرحدوں پر فوجوں میں اضافہ کیا‘ مقامی کمانڈروں کو کسی بھی صورت حال سے نمٹنے کے لیے وسیع اختیارات دیے ان اقدامات کے نتیجے میں پاکستان کے ساتھ سرحدی جھڑپوں میں اضافہ ہوا اور دونوں طرف سے جانی اور مالی نقصان بھی بڑھنے لگا۔ نریندر مودی کے ان اقدامات اور طاقت کے غیر معمولی استعمال پر نہ صرف پاکستان نے احتجاج کیا‘ بلکہ بین الاقوامی برادری نے بھی تشویش کا اظہار کیا۔ یہاں تک کہ خود بھارت میں میڈیا کے کچھ حلقوں نے نریندر مودی کی اس پالیسی کو ہدف تنقید بنا کر پاک بھارت تعلقات کے لیے نقصان دہ قرار دیا۔ دوسرے‘ جب سے مقبوضہ کشمیر میں جدوجہد آزادی کی موجودہ لہر پیدا ہوئی ہے‘ بھارت کی طرف سے لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزیوں اور پاکستانی علاقوں پر فائرنگ کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے‘ اور ان کی ذمہ داری پاکستان پر ڈال دی ہے‘ لیکن پوری دنیا جانتی اور تسلیم کرتی ہے کہ بھارت مقبوضہ کشمیر کی موجودہ صورتحال سے توجہ ہٹانے کے لیے پاکستان پر الزام تراشیاں کر رہا ہے۔ لائن آف کنٹرول پر ایک دوسرے کے مورچوں اور چیک پوسٹوں کو نشانہ بنا کر فائرنگ کرنے
سے سب سے زیادہ نقصان شہری آبادی کا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ تقریباً تین ماہ کے دوران فائرنگ کے اس تبادلے کی وجہ سے دونوں طرف جانی نقصان میں اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستان نے ان یک طرفہ بلا اشتعال کارروائیوں پر احتجاج بھی کیا ‘ اور اسلام آباد میں بھارتی سفارت کاروں کو بلا کر احتجاج بھی ریکارڈ کرایا ہے۔ بین الاقوامی برادری نے بھی اس پر تشویش کا اظہار کیا ہے لیکن ان کارروائیوں کے رکنے کے کوئی آثار نظر نہیں آتے‘ بلکہ ماحول اوربھی کشیدہ ہوتا جا رہا ہے۔ اس کی تارہ ترین مثال پاکستان اور بھارت کی طرف سے ایک دوسرے کے سفارت کاروں کو ناپسندیدہ قرار دے کر ملک چھوڑنے کے احکامات ہیں۔ اس میں بھی پہل بھارت نے کی ہے۔27اکتوبر کو بھارت نے نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن کے ایک افسر محمود اختر کو ناپسندیدہ قرار دے کر ملک چھوڑنے کا حکم دیا۔ بھارتی حکام نے پاکستانی افسر پر الزام عائد کیا کہ انہوں نے پاکستانی ہائی کمیشن میں جاسوسی کا ایک سیل قائم کر رکھا ہے۔ بھارتی حکام کے دعوے کے مطابق محمود اختر کو سفارت خانے سے باہر خفیہ دستاویزات موصول کرتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑا گیا ہے۔ پاکستان نے بھارت کے اس اقدام پر احتجاج کیا اور کہا کہ پاکستانی افسر کبھی بھی اور کسی بھی جاسوسی کی کارروائی میں ملوث نہیں رہا۔ جواب میں پاکستان نے بھی‘ اسلام آباد میں بھارتی ہائی کمیشن کے ایک افسر سرجیت سنگھ کو ناپسندیدہ شخص قرار دے کر 48گھنٹوں کے اندر ملک چھوڑنے کا حکم دیا۔ پاکستان اوربھارت کی جانب سے ایک دوسرے کے سفارت کاروں کو ناپسندیدہ قراردے کر ملک بدر کرنے کے واقعات نئے نہیں ہیں۔ ماضی میں متعدد بار ایسے اقدامات کیے جاتے رہے ہیں لیکن ایک ایسے وقت میں جبکہ کشمیر میں تلاطم ہے‘ لائن آف کنٹرول کے آر
پار دونوں ممالک کی سرحدی افواج ایک دوسرے کے علاقوں کو نشانہ بنا رہی ہیں اور اس کی وجہ سے شہری اور فوجی جانی نقصان میں بھی اضافہ ہو رہا ہے‘ سفارت کاروں کی بے دخلی خطے کی کشیدگی میں خطرناک اضافے کا باعث بن سکتی ہے غالباً اسی وجہ سے امریکی محکمہ خارجہ نے اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پاکستان اور بھارت سے ایک دفعہ پھر اپیل کی ہے کہ وہ ایسے اقدامات سے باز رہیں جن کے باعث دونوں کے درمیان تنائو میں اضافہ ہو سکتا ہے ۔ اگر اس سلسلے کو نہ روکا گیا تو نوبت درمیانے اور بڑے ہتھیاروں تک پہنچ سکتی ہے۔ بھارت اور پاکستان کے عوام کے مفاد کا تقاضا ہے کہ دونوں ملکوں کی حکومتیں اس فائرنگ میں تیزی نہ آنے دیں‘ بلکہ اسے کم کرنے کی کوشش کریں اس مقصد کے لیے جو میکانزم دستیاب ہے مثلاً ڈائریکٹرز جنرل ملٹری آپریشن کی سطح پر رابطہ‘ اسے استعمال کریں۔ امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے بھی اس صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے پاکستان اوربھارت کو مشورہ دیا ہے کہ ان کی افواج آپس میں رابطہ قائم کر کے صورتحال کو مزید خراب ہونے سے روکیں۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی میں اضافہ کی صورت میں تصادم کا خطرہ جنوبی ایشیاکے ممالک کے لیے ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے لیے وجہ تشویش بن جاتا ہے کیوں کہ دونوں ممالک میں گزشتہ تقریباً70برسوں میں تین بڑی اور دو چھوٹی جنگیں ہو چکی ہیں۔ ان میں سے دو بڑی اور ایک چھوٹی (کارگل) کی جنگ کا براہ راست تعلق کشمیر سے تھا۔ اس وقت بھی کشمیر کی صورت حال انتہائی مخدوش ہے۔ دونوں طرف جذبات بھڑکے ہوئے۔ ذرا سی بے احتیاطی یا غفلت کسی بڑے تصادم کا باعث بن سکتی ہے ۔اس اندیشے کے پیش نظر بین الاقوامی برادری دونوں ممالک کو احتیاط ‘ صبر اور ضبط سے کام لینے کی تلقین کر رہی ہے۔ پاکستان اور بھارت کو بھی چاہیے کہ وہ دنیا پر ثابت کر دیں کہ وہ ذمہ دار ایٹمی طاقتیں ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ باہمی کشیدگی کو کم کریں اور بات چیت کا راستہ اختیارکریں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved