تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     03-11-2016

تو پھر … ’’وٹّہ سٹّہ‘‘ ہو جائے!

بھائی مزمل فیروزی نے کالم نویسوں کی محفل سجائی۔ اِصرار کرکے ہمیں بھی بلایا، بلکہ ''طلب‘‘ کیا۔ ہم نے گریز کی راہ اپنائی اور بہانہ یہ تراشا کہ بڑے بڑے لکھاریوں کے جھرمٹ میں ہم بھلا کیا کریں گے۔ معلوم ہوا کہ بڑے لکھاریوں میں ہم بھی شامل ہیں! مزمل فیروزی کا کہنا تھا کہ ہم نے سینئر لکھاریوں کو ایک پیج پر لانے کا سوچا ہے، آپ بھی تشریف لائیے۔ ''سینئر‘‘... یہ ایک لفظ نہیں، انتباہ ہے۔ جب بھی کوئی ہمیں سینئرز میں شمار کرتا ہے تو دماغ پر ایک چوٹ سی لگتی ہے، دل سہم سہم جاتا ہے۔ بات کچھ یوں ہے کہ اِس لفظ سے ہمیں بڑھاپے کی بُو آتی ہے! 
کالم نویسوں کی اس محفل میں ہم یہ سوچ کر شریک ہوئے کہ چلیے، مزمل فیروزی کی فرمائش کے مطابق اس تقریب میں شرکت بھی ہو جائے گی اور اسی بہانے شبیر سومرو، یعقوب غزنوی، سلیم آزر، حمیرا اطہر، طیب سنگھانوی ... اور سب سے بڑھ کر، خرم سہیل سے ملاقات بھی ممکن ہو سکے گی۔ ایک تیر میں دو نشانے لگانا اِسی کو تو کہتے ہیں۔ یہ فن اب ہمارے مزاج کا حصہ بن چکا ہے کہ فی زمانہ کالم نویسی بھی کچھ اِسی نوعیت کا ہنر ہے! 
تقریب آرٹس کونسل میں تھی۔ وہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ نئے لکھنے والوں اور بلاگرز کی محفل سجائی گئی ہے جس میں سینئرز کو اس لیے مدعو کیا گیا ہے کہ وہ قلم قبیلے سے وابستہ ہونے والے نوجوانوں کو چند ''ٹریڈ سیکریٹ‘‘ بتائیں۔ یہ سن کر ہم پر ''اجتنابی‘‘ کیفیت مزید طاری ہو گئی۔ جو چند کام کی باتیں ہم نے اس میدان میں سیکھی ہیں وہ بھی دوسروں کو بتا دیں تو پھر ہمارے پاس کیا رہے گا؟ 
ہم ایسی کسی بھی تقریب میں شرکت سے بالعموم گریز کرتے ہیں جس میں ہمیں سینئر قرار دے کر یعنی ''کھلونا دے کے بہلایا گیا ہوں‘‘ والی کیفیت پیدا کرکے ہم سے کالم نویسی کے تمام راز اگلوا لیے جائیں! ہم جب بھی ایسی کسی بھی تقریب میں شریک ہوئے، واپسی پر کچھ ایسی کیفیت رہی ہے کہ ؎ 
دونوں جہان تیری محبت میں ہار کے 
وہ جا رہا ہے کوئی شبِ غم گزار کے 
بزرگ کالم نویس (یعنی درحقیقت مضمون نگار) شمشاد علی خان نے اظہارِ خیال کے نام پر سانجھا دکھ بیان کیا یعنی سب کی ترجمانی کا حق ادا کیا۔ ان کی دل جلی قسم کی تقریر کو اگر غزل کہیے تو حاصلِ غزل شعر یعنی بنیادی دکھڑا یہ تھا کہ لکھنے والوں کو پیسے نہیں ملتے۔ ہم شمشاد علی خان صاحب کی خدمت میں انتہائے احترام کے ساتھ عرض کریں گے کہ لکھنے والے تو ہر دور میں معاوضے سے محروم ہی رہے ہیں۔ جو کچھ بھی دیا جاتا ہے وہ اُس کا معاوضہ کسی طور نہیں ہو سکتا‘ جسے حقیقی مفہوم میں لکھنا کہیے۔ لکھنے کا معاوضہ کم... اور لکھنے کے نام پر اداکاری کا معاوضہ ہمیشہ زیادہ ملتا ہے۔ ہر زمانے میں انہی کا بول بالا رہا ہے جنہوں نے لکھنے کے نام پر لکھنے سے گریز کیا۔ 
ہم چونکہ کالم نویسوں اور مضمون نگاری کے اس محفل میں خاصی تاخیر سے پہنچے تھے‘ اس لیے وہاں پہنچتے ہی مزمل فیروزی سے کہہ دیا کہ ہمیں اظہارِ خیال کے لیے پوڈیم پر نہ بلایا جائے۔ بات یہ ہے کہ جس چھوٹے سے ہال میں ناظرین جمع تھے اُسی میں کھانے کی میزیں لگائی گئی تھیں اور ان پر کھانا لگایا بھی جا چکا تھا۔ ہم ہال میں داخل ہوئے تو کئی افراد نے خاصی معنی خیز نظروں سے ہمیں دیکھا گویا ایک سنیئر کالم نویس کو ''ٹائمنگ‘‘ کی داد دے رہے ہوں! بریانی اور قورمے کی خوشبو سے پورا ہال مہک رہا تھا اور حاضرین انتہائے اشتہا سے وجد کے عالم میں تھے! جب ہم پہنچے تھے تب فہرست کے مطابق دو افراد رہ گئے تھے جنہیں اظہارِ خیال کرنا تھا۔ اور ہم نے دیکھ لیا تھا کہ حاضرین کے محض تاثرات ہی نہیں بلکہ باڈی لینگویج بھی بتا رہی تھی کہ وہ اپنے اور کھانے کے درمیان تقریر کے نام پر مزید کوئی گناہِ بے لذّت برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ایسے میں ہم کچھ بول کر ناپسندیدہ شخصیت کے درجے پر فائز ہونا نہیں چاہتے تھے! 
ایک بڑی مصیبت یہ ہے کہ فی زمانہ مضمون و تجزیہ نگاری اور کالم نویسی کو ایک کھونٹے سے باندھ دیا گیا ہے، ایک لڑی میں پرو دیا گیا ہے۔ اور اگر مزید وضاحت ضروری ہو تو کہا جائے گا کہ ایک لاٹھی سے ہانکا جا رہا ہے۔ نئے لکھنے والوں کو یہ سمجھانا ایک دشوار گزار مرحلہ ہے کہ مضمون اور کالم دو الگ دنیائیں ہیں۔ کالم کے مجموعی مزاج کا قدرے ''بے وزن‘‘ ہونا لازم ہے۔ بھاری پن پیدا ہوتے ہی کالم اپنی حدود سے نکل کر مضمون کی حدود میں داخل ہو جاتا ہے۔ کالم میں بات اس قدر لطیف پیرائے میں بیان کرنا ہوتی ہے کہ نقد کا حق بھی ادا کرے اور کسی پر اُدھار کھائے بیٹھ رہنے تاثر بھی نہ چھوڑے۔ اس اعتبار سے دیکھیے تو کالم نویسی تنے ہوئے رَسّے پر چلنے جیسا عمل ہے۔ توازن گیا... اور کالم جان سے گیا! ہم نے بہت سے لکھنے والوں کو محض ایک غیر متوازن جملے کی مہربانی سے متعدد معاملات بگاڑتے دیکھا ہے۔ 
بارہا ایسا بھی ہوا ہے کہ ہم نے کسی کو فکاہیہ لکھنے کی تحریک دی اور جو کچھ اس نے لکھا وہ حتمی تجزیے میں محض مزاحیہ ثابت ہوا! 
نئے لکھنے والوں اور بلاگرز کی اس محفل میں ہم نے جس کو بھی سُنا اُس نے لکھنے کا کوئی معاوضہ ادا نہ کیے جانے کا شِکوہ ضرور کیا۔ ''ٹریڈ سیکریٹ‘‘ کے کھاتے میں ہم عرض کرنا چاہیں گے کہ چند ایک صفِ اوّل کے اور معقول اخبارات و جرائد کو چھوڑ کر باقی تمام اخبارات و جرائد، بلکہ میڈیا آؤٹ لیٹس کی فرمائش یہ ہوتی ہے کہ اپنی ''روٹی‘‘ آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے! یعنی ہم سے نہ مانگ، خود ہی کچھ جُگاڑ کر! اور اس سے بھی ایک قدم آگے جا کر، بعض برائے نام یعنی ڈمی اخبارات تو یہاں تک کہتے ہیں کہ ہم سے کارڈ بنواؤ اور خالص وہی انداز اختیار کرو جو مزاروں پر پایا جاتا ہے یعنی خود بھی پیٹ بھر کر کھاؤ اور ہمارے لیے بھی لاؤ! 
میزبانوں کے اظہارِ تشکر سے قبل آخری مقرر کے طور پر سید قیصر محمود پوڈیم پر آئے۔ ہمیں اُن کے چہرے ہی پر نہیں بلکہ باڈی لینگویج میں بھی خاصی خوش حالی دکھائی دی۔ ذہن میں یہ خیال کی طرح ابھرا کہ شاید وہ ان خوش نصیب لکھاریوں میں سے ہیں جنہیں لکھنے کا معقول معاوضہ ملتا ہے! ابھی ہم انہیں بہ نگاہِ رشک دیکھ ہی رہے تھے کہ انہوں نے انکشاف فرمایا کہ وہ لکھنے کے شعبے میں نئے ہیں۔ تاحال پچیس تیس مضامین لکھے ہیں اور ابھی لکھنے کے اسرار و رموز سیکھ رہے ہیں۔ تو پھر پورے وجود سے ٹپکنے والی یہ قابل رشک خوش حالی و فارغ البالی! خود ہی بتایا کہ وہ ٹیکسائل کے میدان کے شہسوار ہیں۔ انہی کے بقول پچاس ساٹھ افراد ان کے ملازم ہیں یا پھر ان کے مقرر کردہ و ماتحت ہیں! 
یہ بات سن کر ہم پہلے حیران ہوئے اور حیرانی کو بالائے طاق رکھ کر سوچ میں ڈوب گئے۔ دیکھنے والے یہ سمجھے کہ شاید ہمارے ذہن میں کوئی کالم والم چل رہا ہے۔ اُنہیں کیا معلوم کہ ہم تو قیصر محمود صاحب کے بارے میں سوچ رہے تھے کہ جب ایک اچھے خاصے ''کماؤ‘‘ شعبے سے تعلق رکھتے ہیں تو پھر ایک ایسے شعبے کی طرف کیوں آرہے ہیں جس میں قدم قدم پر ''بے معاوضگی‘‘ کی لُومیں چل رہی ہیں! جی میں آیا کہ قیصر محمود صاحب سے کہیں کہ ''وٹّہ سٹّہ‘‘ کر لیں یعنی ہمیں ٹیکسٹائل کا بزنس دے دیں اور ہم سے کالم نویسی کا ''وردان‘‘ لے لیں! کیا پتا ہم اس عمل کی بدولت ہی اہل خانہ کی نظر میں کچھ محترم ٹھہریں جو یہ شِکوہ کرتے نہیں تھکتے کہ قلم تھام کر ہم نے اپنی لُٹیا تو ڈبوئی سو ڈبوئی، اُنہیں بھی کہیں کا نہیں چھوڑا! 
٭٭٭

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved