تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     04-11-2016

ذلّت کی زندگی

کیوں نہ کراچی کے ساحل کا ہم قصد کریں؟ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے فیصلہ کر ڈالیں کہ اب کیا اخباری خدا ہم پہ حکومت کریں گے ؟ذلت کی اس زندگی سے تو موت اچھی۔
زندگی ختم ہوئی‘ اب تو محض جینا ہے۔ اپنے لہو سے‘ ہمیشہ باقی رہنے والی شہادت ہی لکھ دیںکہ روز ِجزا سرخرو ہوں۔
ارادہ یہ تھاکہ اذان کے کچھ دیر بعد جاگ اٹھوں ۔ بروقت آج نماز پڑھی جائے پھر کچھ دیر تیز قدمی ۔فرمان سنا :سحر کی نماز جس نے ادا کر لی‘ اللہ کی امان اسے مل گئی۔وہ جومشکل میں مبتلا تھے ‘سرکارؐکی بارگاہ میں حاضر ہوئے۔ گزارش کی : کاہلی ہم پہ سوار ہو جاتی ہے۔ ارشادکیا: تم پر لازم ہے کہ کچھ دیر تیز تیز چلا کرو۔ 
مسافر سو گیا ہوتا ۔شاید کہ صبح سویرے جاگتا‘ جس میں‘ عالی جنابؐ نے فرمایا کہ امت کے لیے برکت ہے۔ ایسا نہ ہو سکا۔ہاتھوںکی جلن نے سونے نہ دیا۔ انگلیوں کی پوروں پر‘ ہاتھوں کے پہلوئوں پر اور دونوں کلائیوں پر‘ وہ حصّے جو قمیض سے ڈھکے نہ تھے۔ 
آخرِ شب کی خنک ہوامیں‘ کمبل لپیٹا ‘ پھر پھینک دیا۔ ایسی بھی کیا ٹھنڈ ہے۔ پائوں کے تلوے پر خارش سی ہوئی۔ سوچا: نیند سے پلکیں بوجھل ہیں‘ کوئی دم میں آ لے گی۔ دن بھر کی مشقت اورتکان کا مارابدن قرار پائے گا۔اس اجلی سویر کے لیے‘ ہمیشہ اپنے ساتھ جو امکانات کا ایک نیا جہان لے کر آتی ہے۔
ایک مچھر کمرے میں آ گھساتھا۔کار گہِ حیات میں فطرت نے جو فرض اسے سونپ رکھا ہے ‘ پوری یکسوئی اور دل جمعی سے وہ نبھا رہا تھا۔ شاعر نے کہا تھا ؎
تہہِ خاک کرمکِ دانہ جو بھی شریکِ رقصِ حیات ہے
نہ بس ایک جلوہ ٔ طورہے ‘نہ بس ایک ذوقِ کلیم ہے
زمین کے اندر رینگتے کیڑے اپنا وظیفہ بجا لاتے ہیں تو ہوا میں پرواز کرنے والے کیوں نہیں؟ اس خاکداں میں فقط انسان ہی ایک غافل مخلوق ہے۔ وہی اپنا فرض بھلا دیتی ہے۔
کیا کیجئے ‘اب کیا کیجئے؟ کوئی دوا‘ کوئی دارو ہے نہیں۔ ملازم گہری نیند سو چکا۔ پنکھا چلا کر‘ ڈھنگ سے کمبل لپیٹ لیا۔اب یہ تو ممکن نہ تھا کہ خزاں کی مہربان ہوا میں چہرہ بھی ڈھانپ لیا جائے‘ ہاتھ چھپالیے جائیں۔ اتنی مہلت اس بدبخت کے لیے کافی تھی۔اذیت دینے میں نوسر بازوں کی طرح‘ حاکموں کی طرح ‘ مچھر بھی بہت مستعد ہوتے ہیں۔
کچھ دیر پہلے نیم غنودگی میںایک سوال‘ ذہن کے جھٹ پٹے میں جاگ رہا تھا:اس وقت جب آدمی کا گھر خطرے میں ہو‘ اس کا اولّین فر ض کیا ہوتا ہے؟
وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کے کارندوں میں سے ایک۔ ان کے ٹی وی میزبان کی دھمکی یہ تھی:ملک سے بے وفائی کے مرتکب اخبار نویس کواگرپکڑا گیا تو بارسوخ پرچہ نویسوں کی پوری جمعیت اُٹھ کھڑی ہو گی۔ان کے لشکر پاکستانی فوج پر دھاوا بول دیں گے۔ ظاہر ہے کہ وہ سب اس سپاہ کا ہر اول دستہ ہوں گے‘ پچھلے دنوں برطانیہ میں غنیم کے اس مکروہ کارندے کے در پہ جو جمع ہوئے تھے۔ غداری کا انہوں نے پیمان کیااور اس پیمان کو پورا کرنے کی قسم کھائی۔
ضبط کا بندھن ٹوٹنے لگا‘ بارِ الٰہا! یہ وطن تونے ہمیں عطا کیا تھا‘ پھر ہم اس میں غریب الدّیار کیسے ہو گئے؟‘اس قدر بے بس و لاچار کیسے ہو گئے؟ کیا یہ وہی ملک نہیں ‘تیرے سچّے پیغمبرؐ کے نام پرجو ہمیں بخشا گیاتھا۔ کیا یہ وہی ساحل نہیں‘ رحمتہ اللعالمینؐ کو جہاں سے ٹھنڈی ہوا آتی تھی۔ کیا وہی یہ سرزمین نہیں‘ آخری لشکرجہاں سے اٹھیں گے کہ اپنے لہو سے دنیا بھر میںاجالا کریں۔ صورپھونکے جانے سے پہلے کرۂ خاک کو آخری بار نور سے بھر دیں۔
بے بسی اور بے چارگی سے آنکھیں بھر آئیں۔مسافر نے تب ایک آواز سنی: اوراپنا عہد تم سب نے توڑ دیا۔ اپنے آپ کو دھوکہ دیا اور اپنے مالک کو بھی ۔کس منہ سے تم دعا مانگتے ہو؟ کس برتے پر امید پالتے ہو...بارِ الٰہا‘ بارِ الٰہا۔ ؎
خوار ہیں‘ بدکار ہیں‘ڈوبے ہوئے ذلّت میں ہیں
کچھ بھی ہیںلیکن ترے محبوب ؐ کی امّت میں ہیں
قدرے بوڑھے سے‘ قدرے بھاری بھرکم ایک آدمی کو‘ جو کبھی سر جھکاتا اور کبھی آسمانوں پر نگاہ کرتا کہ جیسے ستاروں کو چُھولے گا‘ نیم تاریکی سے ناظر نے نمودار دیکھا۔ وہ ایک دوسری مگر قابلِ فہم زبان میں کلام کرتا تھا۔ اس نے کہا ‘میرا نام اقبالؔ ہے۔ایک صدی ہوتی ہے پروردگارِ عالم سے یہ سوال اس بندے نے بھی کیا تھا۔ ؎
شبے پیش خدا بگریستم زار
مسلماناں چرا زارند و خوارند
ندا آمد نمی دانی کہ ایں قوم
دلے دارند و محبوبے ندارند
شب میں گریہ کناں ہوا : مسلمان کیوں خوار و زبوں ہیں؟ آسمان سے آواز آئی‘ کیا تو نہیں جانتا‘ یہ وہ قوم ہے جو دل رکھتی ہے مگر اس میں تمنا کوئی نہیں‘ محبوب کوئی نہیں۔
اس قوم پر اللہ کی رحمت کیسے اترے ‘ جو وعدے کرتی اور بھول جاتی ہے ۔ ایسی جسارت کرنے والے تم کون ہو؟ مستقل طور پرجاری رہنے والی نافرمانی سے ‘ پیہم ریا کاری اور منافقت سے اپنا حق تم کھو چکے ۔
چھڑی ٹیکتے ہو ئے وہ روانہ ہوا کہ پھر سے دھند میں کھو جائے۔ تب ایک عجیب خیال نے سر اٹھایا۔
دیر تک ایک مکّھی‘ روئے زمین کی سب سے بڑی سلطنت کے جلیل القدر فرماں روا ہارون الرشید کو زچ کرتی رہی۔ تب امام سے‘امامؒ ابو یوسف سے اس نے سوال کیا: آخر اس مکھی کو اللہ نے کیوں پیدا کیا؟اماموں کے امام ؒ‘سیدناابو حنیفہؒ کے شاگردِ رشید نے جواب دیا۔ ''بادشاہوں کو زچ کرنے کے لیے‘‘
ایک مکّھی اور ایک مچھر۔آدمی کیا اس سے بھی کم تر ہے؟
ایک مچھر آدمی کو نیند سے محروم کر سکتا ہے۔ بہت سے آدمیوں کو بھی۔ اللہ کے لشکرعجیب ہیں‘ ہاتھی بھی‘ کیڑے مکوڑے بھی۔ دلوں اور دماغوں میں پڑائو ڈال دینے والے خیالات بھی۔ کوئی ایک جلوہ گر آرزو‘ جس سے ایک جہان پھوٹ پڑے۔ ایک زمانہ اور ایک عالم جس سے طلوع ہو۔
پاکستان بھی ایک خیال ہی تھا‘ ایک جہانِ تمنا۔صدیوں کے ستائے افتادگانِ خاک کے لیے ایک جائے پناہ‘ جو اب جائے پناہ نہیں۔ دشمن کے کارندے جس میںدندناتے پھرتے ہیں‘ جس کے امیر حال مست اور جس کے غریب کھال مست ہیں۔ جس کے مظلوم اپنی بے بسی میں آسودہ ہیں۔خوف سے آزاد‘ جس کے ظالم شکار کھیلتے پھرتے ہیں ۔ زورو جواہر کے انباروںسے جن کے پیٹ نہیں بھرتے۔ خون کی ندیوں سے بھی جن کی پیاس نہیں بجھتی۔
کیا عجب ہے کہ آخر ِشب کی دھند میں تحلیل ہوتا ہوا یہ دانائے راز‘ کوئی راہ سجھا سکے۔ کیا عجب ہے کوئی شمع وہ روشن کر دے۔ مردِ ازغیب‘ جس کے ماتھے سے نور پھوٹتا ہے۔ جس کے لہجے میں بادِ بیابانی کا سوزو و گداز ہے۔''میں تمہیں بتا چکا‘ ہر بات بتا چکا‘‘ اس نے کہا۔ جب تک میں جیا‘ میں تمہیں یاد دلاتا رہا۔ ؎
خیمہ افلاک کا استادہ اسی نام سے ہے
نبضِ ہستی تپش آمادہ اسی نام سے ہے
بارہا میں نے تم سے کہااور اپنی ہر کتاب کے ہر ورق پہ‘ پروردگار کا پیغام لکھا۔ ؎
کی محمدؐ سے وفا تونے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا‘ لوح و قلم تیرے ہیں
درماندہ مسافر نے ارادہ کیا کہ دانائے راز کے قدم لے۔ یا للعجب‘ اس نے انکار کر دیا۔ فیصلہ صادر کر دینے والے ہاتھ نے رک جانے کا اشارہ کیا۔ ایک الو ہی آواز: کوئی ایک سبق بھی تو تمہیں یاد نہیں۔کیا تم بھول گئے کہ اجالے کا راز اللہ کی آخری کتاب میں ہے۔اس میں لکھا یہ ہے۔ لیس للانِسان الاّ مَا سعیٰ۔ زمین پہ کیوں رینگتے ہو ؟ ادراک کیوں نہیں کرتے؟
اٹھ کراگر کھڑے ہو گئے ہوتے تو اجالے کے حق دار ہو تے۔ میرے بعد وہ جوایک دانائے راز آسمان نے تمہیں بخشا ہے‘ اس کے در پہ کیوں نہیں جاتے ؟کیوں ا سے نہیں پوچھتے؟ ایک مچھرنے تمہیں جگائے رکھا لیکن70سال میں اتنے بے شمار زخم تمہیں بیدار نہ کر سکے۔
تو میں درماندہ وہاں جاتا ہوں‘ عارف کے دروازے پر۔ ان سے پوچھتا ہوں کہ بے بسی کی زندگی سے‘ آزادی کی موت کیا اچھی نہیں؟دس بیس لاکھ نہ سہی‘تیس چالیس ہزار ہی سہی‘ مختصر اور محدود ہی سہی ‘آخر ہمارا بھی تو ایک صاحبِ یقین لشکر ہے۔ لامحدود اور بے کراں رحمت والا‘ ہمارا ایک رب ہے۔
کیوں نہ کراچی کے ساحل کا ہم قصد کریں؟ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے فیصلہ کر ڈالیں کہ اب کیا اخباری خدا ہم پہ حکومت کریں گے ؟ذلت کی اس زندگی سے تو موت اچھی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved