2 نومبر کی احتجاجی مہم کے پیٹ سے جو جمہوریت برآمد ہوئی اسے ''آکٹوپس‘‘ سے تشبیہ دی جا سکتی ہے۔ یہ نرم، ملائم، ریشمی اور رنگیلا آبی جانور ہے‘ جسے اردو میں ہشت پا صدفہ بھی کہتے ہیں۔ یہ دیکھنے میں بہت معصوم نظر آتا ہے‘ مگر اس کے اندر چھپے ہوئے نہ نظر آنے والے خونحوار دانت ہوتے ہیں۔ آکٹوپس کے جتنے روپ ہیں‘ اس سے زیادہ اس کے ہاتھ ہیں۔ ایسے ہاتھ جن کی رسائی بہت دور تک ہوتی ہے۔ بظاہر اس معصوم مگر اصل میں بے رحم شکاری کے اندر بالکل ہماری جمہوریت کی پسندیدہ ''ایکسپائرڈ شدہ‘‘ کیمیکل گیس جیسی گیس پائی جاتی ہے۔ موت بانٹنے والی یہ گیس زہر اور دھویں کا مجموعہ ہے۔ آکٹوپس جب چاہے اپنے شکار پر اس زہریلی گیس کی شیلنگ کر سکتا ہے۔ اس کی ایک اور عادت بھی عین ہماری جمہوریت والی ہی ہے۔ کبھی کبھی تو آکٹوپس اس گیس کو جائے واردات کے ثبوت کو آگ کے دھویں میں اڑا دینے والے اصلی خادموں کی طرح استعمال کر ڈالتا ہے۔ آکٹوپس خاص طور پر موقع واردات سے بھاگنے کے لیے اس گیس کی شیلنگ کا ماہر سمجھا جاتا ہے۔
آکٹوپس زیادہ تر مَسل، کھال، جھلی اور گوشت سے بنا ہوا آبی خونخوار ہے‘ جس میں لوہے یا سریے کا دور دور تک نام و نشان نہیں۔ اس کے باوجود اس کے حملہ آور ہونے کی رفتار پنجاب سپیڈ سے صرف 1-1\\2 کلومیٹر کم پائی جاتی ہے۔ پنجاب سپیڈ کی سب سے شاندار مثال پنجاب میں ہر ہفتے ہونے والے پولیس مقابلوں میں بھی دکھائی دیتی ہے‘ جن میں کبھی 18، کبھی 14، کبھی8 ‘ کبھی اس سے کچھ کم یا پھر زیادہ ''دہشتگرد‘‘ مارے جاتے ہیں۔ اس سپیڈ کی وجہ سے پولیس مقابلے کے پنجابی ماہرین ہر پولیس مقابلے کے لیے علیحدہ کہانی سوچنے کی فرصت بھی نہیں رکھتے۔ آپ مئی 2013ء کے پہلے پولیس مقابلے سے شروع کرکے نومبر 2016ء کے آخری پولیس مقابلے تک کی ہر واردات پرانے اخباروں سے نکال کر پڑھ لیں‘ سب پر ایک ہی پریس ریلیز کا ایکشن ری پلے جاری ہوتا ہے۔ وکالت نامہ چھپنے والے دن یا اس کے اگلے روز‘ دہشتگردوں کے خلاف پنجاب پولیس کے جانثار افسران کی قیادت میں تازہ پولیس مقابلہ بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا ''بلا مقابلہ‘‘ پولیس مقابلے کی تفصیل پھر اس طرح ہو گی:
''افسرِ اعلیٰ کے حکم پر افسرِ زیریں کی قیادت میں ABC ماہرین کی درمیانی ٹیم کو ڈی پی او کی انگلی کے اشارے پر اوپر سے اطلاع ملی کہ بہاولپور، ملتان، پنڈی بھٹیاں اور گجرات کے دہشتگرد لاہور تھانہ ٹبی سے متصل تہہ خانے میں اعلیٰ ترین شخصیات پر حملے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ مقامی تھانے کے دبنگ ایس ایچ او سمیت پولیس اہلکاروں نے سلیمانی ٹوپیوں سے مسلح ہونے کے بعد دہشت گردوں کے خفیہ ٹھکانے پر بے جگری سے حملہ کر دیا۔ 4x6 فٹ کے تہہ خانے میں ڈیڑھ سو راکٹ، سات بوریاں گرینیڈ، 140 کلاشنکوفیں، درجن بھر آر پی جی، 5 اینٹی ایئرکرافٹ گنیں، 2 ٹرک دھماکہ خیز مواد، 7 ٹرک نائٹرو گیس کھاد، 140 دھماکہ خیزجیکٹ نیچے رکھ کر‘ ان کے اوپر 33 دہشتگرد حملے کی تیاری میں مصروف تھے۔ چھاپہ مار پارٹی سے 33 بُری طرح مسلح ملزموںکا شدید فائرنگ سے بھرپور پولیس مقابلہ شروع ہو گیا۔ 17 دہشتگرد موقع پر مارے گئے۔ اکثر کو پشت پر گولیاں لگیں۔ کسی کا نام، پتا اور حلیہ معلوم نہیں ہو سکا‘ جبکہ مُردوں کے احترام کی وجہ سے ان لاوارث لاشوں کو رات ڈھائی بجے نامعلوم قبرستان میں دفنا دیا گیا۔16 دہشتگرد اگلے پولیس مقابلے میں ہلاک ہونے کے لیے موقع واردات سے کھسک جانے میں کامیاب ہو گئے۔ اس اصلی پولیس مقابلے میں پولیس کے کسی اہلکار یا افسر کو خراش تک نہیں آئی‘ حالانکہ جائے وقوعہ پر پھٹے ہوئے تین گرینیڈ کے ٹکڑے اور 400 کلاشنکوف کی گولیوں کے خالی خول برآمد ہوئے‘ بلکہ خادمِ اعلیٰ کی نگرانی میں ڈولفن تربیت حاصل کرنے والوں کے تو بوٹ تک گندے نہ ہو سکے۔ تفتیش کے ماہر افسر اس ایف آئی آر کی تلاش میں سرگرمی سے مصروف ہیں جن میں ملزموں کے نام بعد از مرگ ڈالنے کی سہولت موجود ہو‘‘۔
آج کل لاہور میں ہر طرف 35 سالہ خدمت اور جمہوریت کا راج دکھائی دیتا ہے؛ البتہ بچوں کو گھر سے نکل کر سکول کا راستہ سجھائی نہیں دیتا۔ بزرگ باتھ روم کی تلاش کے لیے قطب نما استعمال کر رہے ہیں۔ گاڑیاں، رکشے، موٹر بائیک، چنگ چی والوں کا نیا قومی ترانہ یہ ہے۔ ؎
نہ انجن کی خوبی نہ کمالِ ڈرائیور
خدا کے سہارے چلے جا رہے ہیں
ترقی کے کچھ دشمن سی پیک کو برباد کرنے کے لیے اسے زہر آلود سموگ کہہ رہے ہیں‘ حالانکہ یہ سیدھی سادی دھند ہے۔ اس دھند کے پیدا ہونے کا قصوروار مغل شہنشاہ شاہ جہاں ہے‘ جو راوی کے کنارے خود اپنی اور اپنی گرل فرینڈ کی یادگاریں تعمیر کرتا رہا۔ اس کی وہ بے چاری رعایا‘ جو شاہ جہاں جیسی شاہانہ سہولتوں سے محروم تھی‘ راوی کے ارد گرد کھڑے ہو کر مسلسل آہیں بھرتی رہی۔ ان آہوں کی کثرت سے دھواں پیدا ہوا؛ چنانچہ ماحولیات کو شدید نقصان پہنچا‘ اور پھر ایشیا کا یہ پیرس یعنی لاہور سموگ (Smog) کی لپیٹ میں آ گیا۔
بعض نا عاقبت اندیش ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ سموگ سے نومولود بچوں کی زندگی کو خطرہ ہے‘ اور سینئر شہریوں کو بھی۔ وہ سانس روکنے کے اٹیک سے مر سکتے ہیں۔ یہ جمہوریت کے خلاف 2 نومبر کے دھرنے سے بھی بڑی سازش ہے۔ سموگ پر شہریوں کے تعاون سے فوراً قابو پایا جا سکتا ہے۔ انہیں چاہیے کہ اپنی رہائش کے لیے ایسا گھر، ڈرائنگ روم، بیڈ روم، کچن، لان، سٹنگ روم، لائبریری، کامن روم اور فیملی روم استعمال کریں‘ جس میں ہوا صاف کرنے کے پلانٹ لگے ہوں‘ اور گندی ہوا کو اندر آنے کی اجازت نہ ہو۔ ساتھ ہی ترقی کے دشمنوں کو بتا دیں کہ لاہور میں پھٹے پرانے ٹائر جلانے سے ماحولیات کا مسئلہ پیدا نہیں ہوا‘ نہ ہی ہر محلے میں ٹافیاں، بسکٹ، جرابیں اور جرسی بنانے والی فیکٹریاں ہیں۔ فیکٹریاں‘ وہ بھی لاہور کی‘ اور وہ بھی دھواں پیدا کرنے والی‘ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ جس کو یقین نہ آئے وہ لاہور کی وال سٹی کے اندر جا کر دیکھ لے۔ اسی طرح لوہے کی بھٹیاں نہ کیمیکل چھوڑتی ہیں‘ نہ ہی ان سے کینسر پیدا کرنے والی گیس بنتی ہے۔
جہاں تک خادمِ اعظم کی نگرانی میں خادمِ اعلیٰ کی ذاتی دلچسپی میں اور چائنہ کی مہربان کمپنیوں کی وجہ سے لگنے والے کوئلے کے ''کِک بیک‘‘ فری پلانٹ ہیں‘ تو ان میں خالص شریف کوئلہ جلنے کے لیے تیار ہے۔ بالکل ویسے ہی‘ جیسے شریف خاندان سپریم کورٹ کے سامنے احتساب کے لیے تیار ہوا ہے۔ آپ تو جانتے ہی ہیں‘ شریف گھروں کے بچے بہت شریر ہوتے ہیں۔ خاص طور پر وہ بچے جو بچپن میں ہی ارب پتی ہو جائیں۔ اس لیے احتساب کے لیے ان بچوں کی تیاری ابھی جاری ہے۔ جونہی ان کا فٹنس ٹیسٹ کلیئر ہوا‘ وہ حاضر عدالت ہو جائیں گے۔ حاضری سے یاد آیا کہ دورِ حاضر میں ہر چیز کام آتی ہے۔ اس کی وجہ کوئی اتفاق نہیں‘ بلکہ وہ منصوبہ بندی ہے‘ جس کے باعث لاہور شہر میں جلنے والے ٹائروں سے نکلنے والا دھواں اور جنوبی پنجاب میں جلنے والے کوئلے سے نکلنے والا دھواں، غرض سارے دھویں مریضوں، بچوں، بزرگوں، بھائیوں، بہنوں کے مفاد کے مطابق گیس خارج کریں گے۔ یہ بندوبست صرف اس لیے کیا گیا ہے کہ چند موالی خواہ مخواہ محض 5 مہینے کی گیس بندش کو پنجاب کے عوام کے ساتھ ظلم سمجھ رہے ہیں۔ ہر چیز میں کوئی نہ کوئی فائدہ ضرور ہوتا ہے۔ جسے یقین نہ آئے وہ تازہ جمہوریت کا یہ روڈ میپ پڑھ لے۔ ؎
عجب نہیں ہے جو تُکا بھی تیر ہو جائے
پھٹے جو دودھ تو پھر وہ پنیر ہو جائے
موالیوں کو نہ دیکھا کرو حقارت سے
نجانے کون سا غنڈہ وزیر ہو جائے