تحریر : اکمل علیمی تاریخ اشاعت     05-11-2016

پشاور سے صرف اکتیس میل دور

شربت گْلا‘ جو سن پچاسی میں پاکستان کے اندر افغان پناہ گزینوں کی زبوں حالی کی تصویر بن گئی تھی‘ اب چالیس کے پیٹے میں ہے اور خود قانون کی زد میں۔ 1985ء میں اس کی عمر بارہ سال تھی۔ وہ اپنے کنبے کے ساتھ پاکستان میں وارد ہوئی تھی اور اپنے ملک کی تباہ کن خانہ جنگی سے بچنے کے لئے ہمسایہ ملک میں پناہ گزین تھی۔ اس کی تصویر امریکی جغرافیہ سوسائٹی واشنگٹن کے مؤقر رسالے ''نیشنل جیوگرافک‘‘ کے ٹائٹل پیج پر شائع ہوئی تھی اور راتوں رات امریکی گروسری سٹوروں‘ بالخصوص افغان اور پاکستانی دکانوں کی دیواروں کی زینت بن گئی تھی۔ اس کا سر ایک دوپٹے میں لپٹا تھا اور اس کی سبز آنکھیں ہر آنے جانے والے کو حیرت سے تکتی تھیں۔ اس کا گاؤں تورہ بورہ (کالا غار) کے پہاڑوں پر واقع تھا‘ جو پاکستان میں تباہی و بربادی کی علامت بن گیا ہے۔ درہ خیبر (پشاور) سے صرف اکتیس میل دور صوبہ ننگرہار میں واقع ہے۔ امریکی طیاروں نے اسامہ بن لادن کی تلاش میں اس علاقے پر تباہ کن بمباری کی تھی۔
اب وہ خیبر پختون خوا حکومت کی حراست میں ہے۔ ایک صوبائی وزیر نے گزشتہ مہینے کہا تھا کہ پندرہ لاکھ افغان مہاجرین اگر رضاکارانہ طور پر اپنے وطن کو نہ لوٹے تو انہیں ''دھکے دے کر نکال دیا جائے گا‘‘۔ ان کے حق میں کچھ آوازیں بلند ہوئیں مگر بعد کے واقعات کی لپیٹ میں آ کر دب گئیں۔ نیو یارک میں اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں کے دفتر کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق ڈھائی لاکھ افغان لوٹ بھی گئے ہیں۔ ان میں ایسے لوگ بھی ہیں‘ جنہوں نے پہلی بار اپنے گھر پر نگاہ ڈالی ہے۔ وہ پاکستان میں پیدا ہوئے تھے۔ کبھی پاکستان میں افغان پناہ گزینوں کی تعداد پچاس لاکھ کے لگ بھگ تھی‘ جو دنیا میں کسی ملک کی معیشت پر سب سے زیادہ بوجھ تھی۔ بیشتر افغان مہاجر ٹرانسپورٹ اور متعلقہ صنعتوں سے وابستہ ہیں۔ وہ کے پی اور بلوچستان میں قائم کردہ حکومتِ پاکستان کے کیمپوں میں پڑے ہیں‘ اور بہت سے لوگوں نے جعلی شناختی کارڈ بنوا رکھے ہیں اور وہ پاکستانی کہلاتے ہیں۔ 
شربت‘ پشاور کے ایک کیمپ سے پکڑی گئی۔ پاکستان امیگریشن نے اسے اس الزام میں گرفتار کیا کہ اس کے قبضے میں ایک قومی شناختی کارڈ تھا۔ وہ ایک افغان شہری ہے۔ اسے پاکستانی کارڈ نہیں بنوانا چاہیے تھا‘ مگر رشوت دے کر جعلی دستاویز لینے اور افغان مہاجروں میں عام رجحان کے مطابق وہ ایسا کرنے پر ''مجبور‘‘ تھی۔ اکا دکا افغان مہاجر اور پاکستانی‘ ان شامی پناہ گزینو ں میں بھی شامل تھے‘ جو بحیرہ روم کے انسانی سمگلنگ کے راستوں پر چلتے ہوئے یورپ کے ساحلوں سے ٹکرائے یا راہ میں ہی مارے گئے۔ اقوام متحدہ کے مطابق صرف 2016ء میں مرنے والے ایسے افراد کی تعداد 3,800 تھی۔ چونکہ سال گزرنے میں ابھی دو ماہ باقی ہیں اس لیے یہ تعداد بڑھ بھی سکتی ہے۔ جیسا کہ مشرق وسطیٰ کے پناہ گزینوں میں سے کچھ پر دشمن کے جاسوس ہونے کا شبہ تھا‘ پشاور اور کوئٹہ کی حالیہ ہولناک وارداتوں سے ظاہر ہوا کہ ایسے عناصر افغانستان سے مسام دار اور طویل ڈیورنڈ لائن پار کرکے پاکستان میں داخل ہوئے۔ افغانستان نے کبھی یہ سرحد تسلیم ہی نہیں کی۔ بیشتر افغان لڑاکے اپنے آپ کو خراسانی کہتے ہیں‘ جو افغانستان کا ایک قدیمی نام ہے۔
افغان باشندوں کی رجسٹریشن بھی پاکستانی حکام کی سر دردی کا باعث ہے۔ ماضی کی طرح حال میں بھی اندراج کی کئی کوششیں کی گئیں‘ مگر یہ کاوشیں ادھوری رہیں۔ اکثر‘ سیاسی عوامل مانع تھے۔ پاکستان میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں‘ جو پاکستان اور افغانستان کو ایک ملک سمجھتے ہیں‘ اور سفری کاغذات کے بغیر کے پی کے یا بلوچستان سے بین الاقوامی سرحد کے آر پار جانا اپنا حق گردانتے ہیں۔ ان میں سے کئی لوگ بااثر ہیں۔ بعض افغانوں نے اسی بے یقینی میں پاکستانی شناختی کارڈ بنوائے۔ ان میں شربت گلا بھی شامل تھی۔ نادرا کا کہنا ہے کہ اس نے اب تک ساٹھ ہزار سے زیادہ شناختی کارڈ پکڑے ہیں‘ جن پر جعلی ہونے کا شبہ ہے۔ شربت گْلا کے خلاف الزامات درست ثابت ہوں تو اسے چودہ سال قید بامشقت اور تین تا پانچ ہزار ڈالر جرمانہ ہو سکتا ہے۔ مئی میں‘ جب کوئٹہ کے نزدیک ایک امریکی ڈرون حملے میں افغان طالبان کے امیر ملا اختر محمد منصور مارا گیا‘ تو اس کی جامہ تلاشی سے بھی ایک جعلی شناختی کارڈ برآمد ہوا تھا‘ جس کے مطابق وہ ولی محمدکے نام سے بلوچستان اور ایران کے درمیان سفر کرتا تھا۔ پاسپورٹ‘ جعلی شناختی کارڈ کی بنا پر حاصل کیا تھا اور اس نے ''کوئٹہ شوریٰ‘‘ کا پردہ چاک کیا تھا۔
شربت اور اس کے ہم وطنوں کی واپسی میں تاخیر کی ایک وجہ یہ ہے کہ افغانستان میں خانہ جنگی کا‘ جس کی لپیٹ میں پاکستان بھی آیا ہے‘ سوال اب تک حل نہیں ہوا۔ سوویت یونین پسپا ہوا تو امریکہ نے افغانستان کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لے لی۔ پہلے میری لینڈ کے باورچی حامد کرزئی کو پاکستان کے پہاڑی علاقوں سے گزار کر افغانستان کا صدر بنایا‘ اور جب وہ کارآمد نہ رہا تو عالمی بینک کے ایک نائب صدر اشرف غنی اور شمالی اتحاد کے عبداللہ عبداللہ کی مشترکہ قیادت قائم کی‘ جسے دیہی افغانستان کے لوگ (طالبان) مسترد کرتے ہیں۔ امریکہ کی خواہش اور ضرورت کا تقاضا ہے کہ طالبان اور حکومت میں کچھ امن ہو تو وہ اس جنگ سے نکلے‘ جو دنیا کی طویل ترین لڑائی بن گئی ہے اور بے پناہ امریکی زیاں کا سبب بن رہی ہے۔ اس غرض سے افغان حکومت نے طالبان کے ایک دھڑے سے سمجھوتہ بھی کیا ہے‘ مگر عوام کی اکثریت اسے بھی رد کرتی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ افغانستان چونکہ مقبوضہ ہے اس لئے پائدار امن امریکہ کے ساتھ ہی ممکن ہے۔
پاکستانی حکام برسوں سے شربت گْلا کے خلاف تفتیش کر رہے تھے‘ اور اب اسے امیگریشن کورٹ میں پیش کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ سولہ سال کی عمر میں شادی کی۔ اس کے خاوند رحمت گْل سے اس کی تین بیٹیاں ہیں‘ اور وہ ان کی تعلیم کے بارے میں فکرمند رہتی ہے۔ خود دمہ کی مریض ہے اور رحمت پشاور کی ایک بیکری میں مزدوری کرتا ہے اور وہاں سے جو کچھ ملتا ہے اس سے گھر چلاتا اور بیوی کا دوا دارو کرتا ہے۔ گزشتہ سال پاکستانی میڈیا نے شربت کے جعلی شناختی کارڈ کے ساتھ عالمی شہرت کی یہ تصویر شائع کی تھی۔ سٹیو مکری نے پشاور میں اجڑے ہوئے افغانوں کے ایک کیمپ میں یہ تصویر بنائی تھی۔ اس وقت فوٹوگرافر یا اس مہاجر افغان لڑکی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ یہ تصویر خبروں کا موضوع بنے گی۔ اتوار کے روز اسلام آباد میں وزیر داخلہ کی پریس کانفرنس میں بھی ایک خاتون صحافی نے گرفتار افغان عورت کی بے بسی کا سوال اٹھایا تھا۔ نثار علی خان نے کسی قدر توقف سے سوال کے الفاظ کی تعر یف کی اور بولے: ''میں اس معاملے کا دوبارہ جائزہ لوں گا‘ مگر افغان خاتون کے علاوہ نادرا کے خلاف بھی کیس واپس لینا پڑے گا‘‘۔ گویا قانون کے سامنے وزیر داخلہ بھی بے بس ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved