جب کسی تنازع میں شامل فریقین اپنی اپنی فتح کے شادیانے بجائیں تو اس ''پیش رفت‘‘ کا خیر مقدم کرناچاہیے، لیکن سپریم کورٹ کی مداخلت کے بعد پی ٹی آئی اور پی ایم ایل (ن)، دونوں کے جذبات پر اوس سی پڑ گئی ۔ ان کے ساتھ ایسا ہی ہوا ہے جیسے لڑنے والے سکول کے دو بچوں کو اُن کے بڑے ہاتھ ملانے پر مجبور کردیں۔اگرچہ شواہد اچھے نہیں،لیکن یہ غل غپاڑے ، ہنگامے اور پر تشدد طریقے سے اسلام آباد کو ممکنہ طور پر بند کرنے کی کوشش سے بہرحال بہتر ہیں۔ تاہم پی ٹی آئی کے چیف کو علم ہورہا ہوگا کہ اگر آپ اپنے حامیوں کو بھنے ہوئے گوشت یا باربی کیو کی دعوت دیتے ہیں لیکن پھر اُنہیںابلی ہوئی سبزیاں کھلا کر شکراداکرنے کا کہتے ہیں تو اُن کا مایوس ہونا بنتا ہے ۔
اب جبکہ سپریم کورٹ پاناما انکشافات کے الزامات کی تحقیقات کرنے جارہی ہے ، عمران خان کو علم ہونے والا ہے کہ شریف برادران ابہام پیدا کرنے ، التوا کے حربے گھڑنے اور پس وپیش سے کام لینے کے ماہر ہیں۔ جب گزشتہ اپریل میں یہ سکینڈل منظر ِعام پر آیا تو میں نے خبردار کیا تھا کہ اس پر جوڈیشل کمیشن بنانے کا مطلب گیند کو گھاس میں گمانے، یعنی وقت حاصل کرتے ہوئے معاملے کو التوا میں ڈالنے کے سوا اور کچھ نہیں۔ سات ماہ بعد آج سبز گیند کو مزید گھنی گھاس میں پھینک دیا گیاہے۔ فریقین کے لیے قابل ِ قبول ٹرمز آف ریفرنس کا تعین کرنے کا معاملہ میر تقی میر کی محبوبہ کی زلفوں کی طرح الجھاہوا اور دراز ہوتا چلا جائے گا۔ پارلیمانی کمیٹی بھی کئی ماہ کی ''سخت جدوجہد‘‘ کے بعد ایک دوسرے کو کھری کھری سنا کر میز سے اٹھ جائے گی۔
اگر سپریم کورٹ ٹرمز آف ریفرنس طے کرنے کا کام اپنے ذمے لے لیتی ہے تو اس سے دونوں میں سے کسی ایک کومبینہ جانبداری کی بوآئے گی اور الزامات کا سلسلہ شروع ہوجائے گا۔ اگرچہ فریقین نے جوڈیشل کمیشن کی تشکیل اور اس کی تحقیقات کے نتائج قبول کرنے کو تسلیم کیا ہے، لیکن ان سے ایسی سپورٹس مین سپرٹ کے مظاہرے کی توقع عبث ہوگی ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ فیصلے سے وابستہ سٹیک اتنا گمبھیر ہے کہ اسے سن کر وہ ایک دوسرے سے ہاتھ ملا کر اچھے کھلاڑیوں کی طرح میدان سے رخصت نہیں ہوجائیں گے ۔اگر فاضل عدالت مشکل فیصلہ کرتے ہوئے اس پنڈورا باکس کو کھولنے کا فیصلہ کرہی لیتی ہے تو یہ اپنی ساکھ کو خطرے میں ڈال لی گی۔ ایک اور بات، جیسا کہ ایک جج صاحب نے اعتراف کیا، عدالت کو کسی شرلاک ہومزکی خدمات حاصل نہیں۔ صورت ِحال اتنی مبہم ہے کہ کہانیوں کے تصوراتی جاسوس، جو اڑتی چڑیا کے پَر گن لیتے ہیں، بھی سمندر پارکمپنیوں کے اکائونٹس، اثاثوں اور رقوم کی منتقلی کا سراغ لگانے سے عاجز ہوںگے ۔ کچھ سادہ لوح سیاسی مبصرین کے نزدیک یہ ایک سیدھا سادا دوٹوک معاملہ ہے جس میں صرف رقم کمانے کے ذرائع، ٹیکس گوشواروں اور رقوم کی بیرونی ساحلوں تک منتقلی کا ہی کھوج لگاناہے ۔
اس لئے نیک دل حضرات سے گزارش ہے کہ اتنی جلدی اچھی نہیں ہوتی، ذرا دم لیں، اور طرفین کی صفوں میں ''عقابی شان والے ‘‘وکلا پر بھی نظر ڈالیں اوریقین رکھیں کہ ان ذی فہم احباب کو اس عالم ِ آب وگل میں بھیجنے کا مقصد ہر جملے ، ہر شوشے ، ہر زیر زبر کی موشگافی ہی تھا۔ چنانچہ خاطر جمع رکھیں۔ شریف برادران اس معاملے کودامن ِقیامت سے جوڑنے پر قناعت کریں گے تو دوسری طرف ہر گزرتا ہوا دن عمران خان کی بے قراری اور غصے میں اضافہ کرتا جائے گا۔ اگرچہ سماعت روزانہ کی بنیاد پر کرنے کا کہا جارہا ہے لیکن سرکاری اداروں ، جیسا کہ نیب، ایف بی آر اور مرکزی بنک نے بھی عدالت کی ہدایت کے مطابق معلومات حاصل کرنی ہیں۔ اور اُنہیں اس اہم اور نازک کام کے لیے وقت نہ دینا زیادتی ہوگی۔ اور پھر ویسے بھی یہ کام جلد بازی کا شکار نہیں ہونا چاہیے ، اور یوں دن گزرتے جائیں گے۔ آپ نے کبھی ان اداروں کو برق رفتاری سے کام کرتے دیکھا ہے ؟ اب بھی نہیں دیکھیں گے ، تو دم سادھنے کی ضرورت نہیں، اپنی صحت کا خیال رکھیں۔
آپ کو حیران نہیں ہونا چاہیے اگر عمران خان کے صبر کا پیمانہ (جس کی گہرائی زیادہ نہیں )لبریز ہوجائے اور کسی روشن دن وہ اسلام آباد پر ایک اور چڑھائی کا حکم دیتے سنائی دیں۔ ان کی پرکشش شخصیت کا کرشمہ ہے ، سمارٹ فونز سے مسلح اُن کے جانثاروں کی فوج اپنی اپنی کاروں میںاسلام آباد کی طرف موو (move) کرتی دکھائی دے گی۔ یہاں دراصل خاں صاحب کو حاصل تجربے کی کمی آڑے آرہی ہے ۔ نواز شریف اُن سے کہیں بہتر جانتے ہیں کہ یہ نظام کیسے کام کرتا ہے ، اور کیسے معاملات کو خواہ مخواہ معمول کی رفتار سے نہیں بڑھنے دینا۔ ان کے بھائی، وزیر اعلیٰ پنجاب ، شہباز شریف ایک موثر منتظم ثابت ہوئے ہیں۔ وہ پنجاب میں پی ایم ایل (ن)کے ووٹ بنک کو برقرار رکھنے کے لیے بھرپور کارکردگی دکھارہے ہیں۔ یہ دونوں بھائی مل کر ایک زبردست ''ٹیگ ٹیم ‘‘ بن جاتے ہیں۔
یہ کہنے کے بعد، میں چاہوں گا کہ لوگ اپنے اپنے سکرپٹ پر قائم رہتے ۔ میں پہلے تو حکومت پر تنقید کروں گا کہ اس نے اپنی روایتی سستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مشتعل ہجوم کو اسلام آباد کی طرف بڑھنے کی اجازت دی، تاہم وزیر ِداخلہ نے جس مہارت سے معاملات کو ہینڈل کیا، اُن کی تعریف نہ کرنا زیادتی ہوگی۔ چوہدری نثار نے کسی مرحلے پر بھی صورت ِحال کو قابو سے باہر نہ ہونے دیا۔ عمران خان اکثر برطانوی جمہوریت کی تعریف کرتے ہیں۔ اُنھوں نے بار ہا کہا ہے کہ کوئی جمہوری ریاست بھی پرامن احتجاجی مظاہرین کے خلاف طاقت کا استعمال نہیں کرتی ۔ عمران خان بھی جانتے ہیں، اور میں بھی اُنہیں یاد دلاتا چلوں کہ برطانوی مظاہرین کوطے شدہ راستوں پر انتہائی سخت اصولوں کے دائرے میں رہتے ہوئے احتجاج کرنے کی اجازت ہوتی ہے ۔ اگر اُن کی طرف سے تشدد کی ہلکی سی بھی دھمکی دی جائے تو اُن کے خلاف سخت کارروائی عمل میں آتی ہے۔ اگر پی ٹی آئی قیادت نے لندن میں حکومت کے خلاف وہ لب ولہجہ اختیار کیا ہوتا جو بنی گالہ میں کیا تو وہ فوراً ہی قانون کی سخت حراست میں ہوتے اور اُنہیں پتہ چلتا کہ جمہوریت کس قدر فعالیت کا مظاہرہ کرتی ہے ۔
خوش قسمتی سے اس احتجاج کے دوران کچھ یادگار مناظر بھی دیکھنے کو ملے ۔ان میں سے ایک شیخ رشیدکے اپنی لال حویلی سے پولیس کے محاصر ے کو توڑتے ہوئے اچھل کر پرانی موٹر سائیکل بیٹھ کر فرار کامنظر تھا۔ کوئی بھی فلم ساز شیخ صاحب سے یہ منظر ''مستعار ‘‘ لے سکتا ہے ۔ اس کے بعد ایک خاتون تھیں جو مبینہ طور پر اپنے خاندانی پس ِ منظر کا ذکر کرکے پولیس کو بھی ڈرا دھمکارہی تھیں۔ اس دوران ہمیں امین گنڈاپور کا پہاڑیوں پر فرار بھی یاد رہے گا۔ کیا منظر تھا وہ بھی۔ ان کی گاڑی سے کچھ ہتھیار اور ''بلیک لیبل شہد‘‘ برآمد ہوا۔ تھرل کو ترسی ہوئی قوم اس ( منظر ) کی دہرائی چاہتی ہے۔ چنانچہ ایک مرتبہ پھر قوم انتظار کررہی ہے، جبکہ ملک غربت، انتہا پسندی اور جہالت کی دلدل میں دھنستا جارہا ہے ۔