تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     05-11-2016

فاروق احمد کی ملی جلی شاعری

سب سے پہلے یہ وضاحت ضروری ہے کہ فاروق احمد کے ساتھ ہماری عزیز داری بھی ہے کہ یہ ہمارے بے حد عزیز اور مرحوم دوست منور نصراللہ خاں کے چھوٹے صاحبزادے، محمد نصراللہ خاں کے سسر ہیں۔ پچھلے دنوں محمد نصراللہ اپنے اہل و عیال سمیت جن میں اُن کی اہلیہ‘ دو بیٹیاں اور ایک بیٹا شامل ہیں‘ فاروق احمد کو ساتھ لے کر آئے۔ یاد رہے کہ محمد ڈسکہ میں وکالت کرتے ہیں اور ان کے بڑے بھائی بابر نصراللہ زمیندارہ اور ساتھ ہی اعلیٰ نسل کے کُتے بھی پال رکھے ہیں بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ وہ باقاعدہ ایک ڈوگ فارم کے مالک ہیں اور لیبرے ڈور نسل کا ایک کُتا اور ایک کُتیا‘ پلّوں کی شکل میں ہمیں بھی گفٹ کر چکے ہیں جو اب یہاں فارم ہائوس پر جوانیاں مان رہے ہیں۔ معافی چاہتا ہوں‘ کُتیا ایک اور کُتے دو ہیں۔
بہرحال‘ ان کے آنے سے خاصی رونق لگی رہی۔ منور اور دیگر عزیز و اقارب کی باتیں ہوتی رہیں۔ ان کے ایک چچا مبارک نصراللہ ہوا کرتے تھے جن کا عین جوانی میں ہی انتقال ہو گیا۔ ان کے بارے میں مشہور ہے کہ جب کراچی میں زیر تعلیم تھے تو خاصی شاہ خرچی سے کام لیتے۔ ایک بار بڑے بھائی نے انہیں لکھا کہ ہم کوئی جاگیردار نہیں ہیں اس لیے خرچ کے معاملے میں اپنا ہاتھ ہولا رکھیں‘ جس کے جواب میں برخوردار نے انہیں جواب دیا کہ بھائی جان‘ آپ کراچی میں رہتے ہوں تو آپ کو لگ پتا جائے‘ جس پر بڑے بھائی نے انہیں لکھا کہ تمہارا کیا خیال ہے‘ اب یہ پتا تمہیں لگ رہا ہے؟ ان کی بہن عطیہ کے نام پر میں نے بھی اپنی 
بیٹی کا یہی نام رکھا۔ کُتوں کی دوڑ میں شرکت کے لیے منور اوکاڑہ بھی آتے اور ایک آدھ روز قیام ضرور کرتے۔ مطلب یہ کہ بالکل گھریلو اور نہایت قریبی تعلقات تھے اور ماشاء اللہ اب تک چلے آ رہے ہیں جو کہ اب دوسری نسل میں داخل ہو چکے ہیں۔ آفتاب کے ساتھ ان کی قُربت بطور خاص ہے۔ منور کی خاصیتیں اور خوبیاں گنوانے لگوں تو اس کے لیے کالم کے بجائے ایک پوری کتاب کی ضرورت ہے۔ قصہ مختصر‘ یہ تعلقات اب تیسری نسل میں بھی داخل ہونے والے ہیں۔ بس چند برسوں ہی کی دیر ہے۔
ہاں‘ تو ذکر ہو رہا تھا فاروق احمد کے مجموعہ غزل کا جس کا نام انہوں نے غالب کے ایک پورے مصرعے کی شکل میں رکھا ہے یعنی ''ابن مریم ہُوا کرے کوئی‘‘۔ اسے سیوا پبلی کیشنز لاہور نے چھاپا ہے اور قیمت 400 روپے رکھی ہے۔ ٹائٹل خوبصورت ہے جس پر ایک درخت اور کچھ پرندے اُڑتے ہوئے دکھائے گئے ہیں۔ ہم کافی دیر تک اس درخت اور پرندوں کا ابنِ مریم سے کوئی تعلق تلاش کرنے کی کوشش کرتے رہے لیکن پیرانہ سالی کی وجہ سے کامیاب نہ ہو سکے اور یہ کام آئندہ پر اُٹھا رکھا۔ پس سرورق شاعر کی تصویر ہے اور عرفان صادق کی توصیفی تحریر۔
شاعر نے محض اپنی خود اعتمادی کی وجہ سے مسودہ کسی کو دکھانے کی ضرورت محسوس نہیں کی ورنہ اس میں جگہ جگہ جو وزن کی غلطیاں ہیں‘ نہ ہوتیں۔ موصوف نے یہ شاعری کئی سال انتظار کرنے کے بعد شروع کی یعنی اگر یہ اوزان سیکھنے اور ان میں باقاعدہ طاق ہونے کی کوشش کرتے تو اسے پندرہ سال لگ ہی جاتے لیکن پھر صورت یہ ہوتی کہ محض وزن ہی رہ جاتا اور شاعری ہمارے ہاتھ نہ آتی۔ ہم ان کو الزام اس لیے نہیں دیتے کہ ایک وقت میں ایک ہی کام ہو سکتا ہے یعنی یا شاعری کی طرف توجہ دیتے یا وزن کی طرف‘ جبکہ ایک وقت میں ایک ہی کام کرنا چاہیے ورنہ گڑ بڑ ہو جاتی ہے۔
منور نے بھی کبھی شاعری شروع کی تھی لیکن پھر جلد ہی شعر کہنا ترک کر دیا۔ بڑے بیٹے نے اس کی وجہ پوچھی تو کہا کہ مجھے جلد ہی سمجھ آ گئی کہ یہ کام میرے بس کا روگ نہیں ہے۔ بیٹے نے کہا کہ انکل ظفر تو مسلسل شعر کہہ رہے ہیں، جس پر جواب دیا کہ اُسے ابھی سمجھ نہیں آئی ہو گی! تاہم وزن کے بارے میں اتنا پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ آپ کو آم کھانے سے غرض ہے یا پیڑ گننے سے۔ مطلب یہ کہ اس کتاب میں اچھی شاعری بھی موجود ہے اور اس نے وزن کی غلطیوں کی پوری پوری تلافی کر دی ہے اور ان کے جو اشعار مجھے اچھے لگے ہیں اور جو میں آپ کی خدمت میں پیش کرنے والا ہوں، ان میں وزن کا پورا پورا خیال رکھا گیا ہے جس کا مطلب یہ بھی ہے کہ شاعر وزن سے اتنا ناواقف بھی نہیں ہے ورنہ ان اشعار میں بھی ایسی غلطیوں کی بھرمار ہوتی اور جہاں تک وزن کا تعلق ہے تو یہ ہر کوئی سیکھ بھی سکتا ہے لیکن شاعری ایسی چیز ہے کہ سیکھنے سے نہیں آتی کہ بقول محبوب خزاں: ؎
بات یہ ہے کہ آدمی شاعر
یا تو ہوتا ہے یا نہیں ہوتا
جبکہ شاعر ہونا تو ویسے بھی بڑی فضیلت کی بات ہے۔ تاہم یہ بات سبھی پر لاگو نہیں ہوتی کہ بقول منور مرحوم کے‘ مجھے اس کی واقعی اب تک سمجھ نہیں آئی ہے کہ شاعری میرے بس کا روگ نہیں ہے۔
اب اس شاعر کے چند پسندیدہ اشعار ملاحظہ کیجئے:
جب سے مانی ہے بات ناصح کی
دل نے اندر بڑا فساد کیا
دلِ کافر کو سزا اور میں دیتا کیسے
اس کو کافی ہے تری یاد جلانے کے لیے
واعظ بیانِ حُور سے ہٹ کر بھی بات کر
پہلے ہی دلبروں کے ستائے ہوئے ہیں ہم
تم کہاں احمدؔ سمجھ پائو گے یہ دلداریاں
بچ رہے ہو دوستوں سے معجزانہ آج بھی
دن گزرتا ہے بڑی مشکل سے اپنا دوستو
ہاں لگا لیتے ہیں چکر اُس گلی کا شام کو
کس قدر جلد ہوا لوٹ کے جانا تیرا
کیا ہی اچھا تھا نہ ہوتا کبھی آنا تیرا
یار خوش ہے ترے بغیر احمدؔ
بات اچھی ہے پر ملال ہُوا
ہر در و دیوار پر تصویرِ یار
دل کے اندر تو یہی سامان تھا
دل کا آنا بھی کوئی چوری تھی
مُنہ چھپاتا پھرا مگر تُو بھی
حُسن خود کو نہ اِتنا عام کرے
رہ کے پردے میں اپنا کام کرے
یار لوگوں کا بھی جواب نہیں
دُکھ یہ دیتے ہیں پر حساب نہیں
مل ہی لیتے کسی بہانے سے
یونہی ڈرتے رہے زمانے سے
میں تو ریزوں میں بٹ گیا احمدؔ
یاد اُس کی مگر سلامت تھی
آج کامطلع
فتور اگرچہ تمنا کا سر میں اتنا ہے
غزل کہے کوئی کیا ‘ شور گھر میں اتنا ہے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved