تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     05-11-2016

کون بنے گا بے وقوف؟

قوم خوش ہے کہ دھرنے کے نام پر جو ڈراما اسلام آباد میں اسٹیج کیا جانے والا تھا وہ شروع ہونے سے پہلے ختم ہوگیا۔ پچھلے دھرنے کی ''جاں فزا‘‘ یادیں اب تک مِٹائے نہیں مِٹ پائی ہیں۔ ایسے میں ''ھل من مزید‘‘ کی تمنا کون کرے! 
مگر کچھ لوگ ہیں جن کے دل ٹوٹ گئے ہیں۔ وہ تو آس لگائے بیٹھے تھے کہ نو من تیل کا انتظام کیا جائے گا اور رادھا ناچے گی۔ رادھا کو تو کیا ناچنا تھا، یہاں تو کشن کنہیا کو بھی اس قابل نہیں چھوڑا گیا کہ بنسی تھام کر کوئی ڈھنگ کی دُھن فضاء میں بکھیر سکے۔ 
شیخ رشید اور اُن کے بہت سے ہم خیالوں کی اُمیدوں پر پانی پھر گیا ہے۔ اُنہیں یہ توقع نہیں تھی کہ وہ جو ڈراما پیش کرنے کی تیاری کر رہے ہیں اُس کا اسکرپٹ اچانک یوں تبدیل ہو جائے گا اور سپریم کورٹ کو فیصلہ کن کردار کی حیثیت سے انٹری دے کر ایسا ٹوئسٹ پیدا کیا جائے گا جس کا توڑ ممکن نہ ہوگا! 
عمران خان کیا کرنا چاہتے تھے اور کیا کرسکتے تھے اِس پر بحث پھر کبھی سہی، ہم تو، اس کالم کے ذریعے، اپنی ناقص عقل کی مدد سے چند معروضات عمران خان اور ان کے چاہنے والوں کی خدمت میں پیش کرنا چاہتے ہیں۔ 
شیخ رشید نے دنیا نیوز کے پروگرام ''دنیا کامران خان کے ساتھ‘‘ میں گفتگو کرتے ہوئے جو کچھ کہا وہ چشم کشا ہے۔ جی نہیں، ہمارے لیے نہیں، بلکہ عمران خان اور ان کے حقیقی چاہنے والوں کے لیے۔ ہم سمجھ نہیں پائے کہ شیخ صاحب اپنی روایتی مصالحے دار باتوں سے کسی کو ڈرانا چاہتے تھے یا ہمیں محظوظ کرنے کے موڈ میں تھے۔ ایک طرف تو ان کا یہ کہنا تھا کہ حکومت کو ابھی عمران خان کی طاقت کا اندازہ نہیں اور دوسری طرف یہ بھی کہا کہ عمران خان کے پاس دھرنا منسوخ کرنے کے سوا چارہ نہ تھا کیونکہ انجن بنی گالہ میں تھا اور بوگیاں سڑکوں پر بکھری ہوئی تھیں! شیخ صاحب نے خود ہی ''انکشاف‘‘ فرمایا ہے کہ عمران خان اس پوزیشن میں بھی نہ تھے کہ بنی گالہ میں اپنے گھر سے باہر آسکتے! جو لیڈر، خود شیخ رشید کے بقول، گھر سے باہر قدم رکھنے کی پوزیشن میں بھی نہ رہا تھا وہ بھلا کارکنوں کی کیا قیادت کرتا اور اسلام آباد میں کیا دھرنا دیتا۔ اگر واقعی ایسا ہے تو پھر شیخ صاحب حکمرانوں کو عمران خان کی کون سی ''طاقت‘‘ سے خوفزدہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں! 
عمران خان ہماری سیاست میں تیزی سے ابھرنے والی عجیب ترین شخصیت واقع ہوئی ہیں۔ اُن کے ذہن سے کرکٹ کا دور اب تک نکلا نہیں۔ کرکٹ کا خمار اب تک اُن کے اعصاب اور حواس پر سوار ہے۔ لاکھ کوشش کے باوجود وہ اب تک کپتانی کے دور سے باہر نہیں آ پائے ہیں۔ ٹیم چلانے اور سیاست کرنے میں بہت فرق ہے۔ کسی بھی کھیل کی ٹیم do as directed کے اصول کی بنیاد پر کام کرتی ہے۔ سیاست کے اپنے اصول ہیں جن میں لچک بھی ہے اور سختی بھی۔ یہاں سب کچھ اُس طور نہیں ہوتا جس طور کرنے کو کہا جاتا ہے۔ اور ایسا ہو بھی نہیں سکتا۔ 
عمران خان کی شخصیت نجی حیثیت میں بے مثال رہی ہے۔ وہ نظم و ضبط کے بھی عادی رہے ہیں۔ اُن کی زندگی ایک خاص ڈھرّے پر رہی ہے۔ اپنی شخصی خصوصیات ہی کی بدولت انہوں نے قومی کرکٹ ٹیم کو کچھ کا کچھ بنادیا۔ مگر وہ یہ بات بھول نہیں پاتے کہ سیاسی جماعت کرکٹ ٹیم نہیں ہے۔ سیاسی عمل میں یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ جو کچھ کہا جائے گا بالکل اُسی کے مطابق عمل ہوگا۔ 
ماننا پڑے گا کہ فضل الرحمٰن نے جو کچھ کہا وہ غلط نہ تھا۔ شائستگی کے ساتھ فقرہ چست کرنے میں فضل الرحمٰن اور حافظ حسین احمد دونوں کا کوئی جواب نہیں۔ یہ عمران خان کی مجبوریاں ہی تھیں جن کو دیکھتے ہوئے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ کو یہ کہنے کا موقع ملا کہ اب جہاں بھی کہیں یو ٹرن ہو وہاں بورڈ کے بجائے کپتان کی تصویر لگادی جائے! 
تحریک انصاف کے سربراہ کن مجبوریوں یا مصلحتوں سے دوچار ہیں، ہم نہیں جانتے مگر اتنا تو سمجھ سکتے ہیں کہ ایک ڈیڑھ ماہ کے دوران انہوں نے دھرنے کے اعلان سے تیاریوں تک جو کچھ بھی کیا وہ ان کی سیاست کے گراف کو مزید نیچے لے جانے کا باعث بنا ہے۔ قوم تقریباً دو ہفتوں سے شدید ذہنی کشمکش کا شکار تھی کہ دھرنا ہوگا یا نہیں ہوگا اور اگر ہوگا تو کیا نتیجہ برآمد ہوگا۔ ع 
کہیں ایسا نہ ہو جائے، کہیں ویسا نہ ہو جائے! 
نیم دِلانہ کوششوں کا یہی انجام ہوا کرتا ہے۔ پاناما لیکس سے متعلق تحقیقات کا معاملہ وہیں کا وہیں ہے۔ اب سپریم کورٹ نے انٹری دی ہے اور خوب دی ہے۔ یہ سب تو ٹھیک ہے مگر سوال یہ ہے کہ وہ سب کیا تھا جو دس پندرہ دن سے ہو رہا تھا اور جس کے باعث قوم پریشانی کے کھونٹے پر لٹکی رہی۔ تحریک انصاف نے میڈیا کی مدد سے ایسا ماحول پیدا کیا جیسے اس بار تو قیامت برپا ہوکر ہی رہے گی۔ مگر پھر سب کچھ اچانک یُوں غائب ہوا کہ آنکھوں پر یقین نہ آیا ع 
خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا، جو سُنا افسانہ تھا 
بنی گالہ میں گھر کی دیواریں جتنی اونچی ہیں اُن سے کہیں زیادہ اونچی دیوار کا درجہ وہ مصاحب ہیں جنہوں نے عمران خان کو گھیر رکھا ہے۔ جی حضوری کے بیریئرز اب انہیں آگے بڑھنے سے روک رہے ہیں۔ تحریکِ انصاف اب تک جو کچھ کرتی آئی ہے وہ بے ذہنی کی جیتی جاگتی مثال ہے۔ عمران خان کے ذہن پر بہت سی باتیں بُری طرح سوار، بلکہ مسلّط ہیں۔ ڈھلتی عمر کا احساس اُنہیں کھائے جاتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ اقتدار کے دامن کا بار بار ہاتھ سے نکل جانا بھی اُن کے اعصاب اور حواس کو شکست و ریخت سے دوچار کر رہا ہے۔ 
جمہوریت کو ''کٹ ٹو سائز‘‘ کرنے کا عمل پوری قوت سے جاری ہے۔ تحریکِ انصاف بھی اس عمل کے ممکنہ منطقی اثرات سے محفوظ نہیں رہی۔ محسوس کیا جاسکتا ہے کہ کوئی نادیدہ قوت سیاست کو ایک خاص پیرا میٹر میں رکھنے پر بضد ہے۔ تمام اہم معاملات کو غیر متعلق اُمور کے سمندر میں غرق کردیا گیا ہے۔ جمہوریت کو ایک خاص حد تک رکھنے کا ایک ہی مقصد ہے ... وسائل کو بہبودِ عامہ کی منزل تک پہنچنے سے روکنا۔ اور یہ مقصد خاصی آسانی سے حاصل کرلیا گیا ہے۔ 
احتجاج اور احتساب کے نام پر تیار کیے جانے والے ڈرامے میں کپتان اور ان کے کھلاڑیوں کا جو بھی کردار ہے سو ہے، شیخ رشید نے بھی بھرپور اداکاری میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ کپتان کے لیے ان کی خدمات ہمہ وقت حاضر ہیں۔ اِن خدمات سے تحریکِ انصاف کو کتنا فائدہ پہنچا ہے یہ سوچنا ہمارا کام نہیں۔ سوچنے کا تھوڑا بہت کام خود عمران خان کو بھی تو کرنا چاہیے! تحریکِ انصاف کے چیئرمین سیاست کے بارے میں کیا جانتے ہیں اور کیا نہیں جانتے یہ تو ہم نہیں جانتے مگر یہ بات طے ہے کہ شیخ رشید اب عمران خان اینڈ کمپنی کو اچھی طرح جان گئے ہیں اِس لیے اُن کے ساتھ ساتھ کھیلتے کھیلتے اب اُن سے کھیل رہے ہیں! 
کپتان کی شکل میں اہلِ وطن کو ایک اُمید ملی تھی۔ قوم کو مرکزی سطح پر کرپشن سے پاک سیاست دان درکار تھا۔ خواہش کے اس معیار پر عمران خان پورے اترتے تھے۔ ان کی ابتدائی اٹھان تھی بھی کچھ ایسی کہ لوگوں، بالخصوص نوجوانوں کی آنکھوں میں اُمیدوں کے چراغ روشن ہوگئے۔ 
مگر کیا کپتان میچ ہارنے کی ٹھان چکے ہیں؟ آثار تو کچھ ایسے ہی ہیں۔ بے ڈھنگی سیاست نے تحریکِ انصاف کو بند گلی میں لا کھڑا کیا ہے۔ خیبر پختوخوا کی حکمرانی کی شکل میں ڈلیور کرنے کا موقع اِس پارٹی نے تقریباً ضائع کردیا ہے۔ عمران خان ''تِراہے‘‘ پر کھڑے ہیں۔ ایک طرف ڈھلتی عمر ہے، دوسری طرف خالی خالی گھریلو زندگی اور تیسری طرف واضح سمت سے محروم پارٹی۔ کرکٹ کھیل کر اور طب و تعلیم کے ادارے قائم کرکے کپتان نے جو نام کمایا تھا اب وہ بھی داؤ پر لگ چکا ہے۔ اگر وہی کچھ ہوا جس کا خدشہ ہے تو عمران خان سے کہیں زیادہ دکھ اس قوم کو ہوگا جو خوابوں کی تعبیر ڈھونڈتی پھرتی ہے۔ کپتان کے لیے یاد رکھنے کی بات صرف اِتنی ہے کہ عوام کو بے وقوف سمجھنے والے گھاٹے کی گھاٹی میں گِرتے رہے ہیں۔ عوام کی رائے اجتماعی سطح پر شاذ و نادر ہی غلط ہوتی ہے اور موقع ملتے ہی بالکل واضح ہوکر سامنے آ جاتی ہے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved