تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     05-11-2016

اے روحِ قائد!

کسی کا قول ہے ''کسی کو اتنا مجبور مت کرو کہ وہ خاموشی توڑ کر لفظوں سے تمہاری دھجیاں اڑا دے‘‘۔ آج کے حکمرانوں‘ ان کے خاندان کے افراد اور مصاحبین کی بڑی بڑی گاڑیاں سکیورٹی کی لمبی لمبی قطاروں میں سڑکوں پر نکلتی ہیں تو رعایا کے لئے رستے بند کر دیئے جاتے ہیں۔ لوگ گرمیوں کی کڑکتی دھوپ اور سردیوں کی ہڈیوں میں اترنے والی ٹھنڈ میں گھنٹوں کھڑے رہ کر حکمرانوں کو 'دعائیں‘ دیتے ہیں۔ وہ جنہوں نے پاکستان بنایا‘ جنہوں نے اس ملک کی خاطر اپنی دولت اور صحت قربان کر دی‘ ان کی اولادوں کو ایک سڑک سے دوسری سڑک پر جانے سے نہ صرف روکا جاتا ہے بلکہ الٹے ہاتھ کی وہ لگائی جاتی ہیں جن کی شدت مدتوں ان کے چہروں پر اس طرح ثبت رہتی ہے کہ وہ خود سے‘ اور اپنی فیملی کے افراد سے نظریں چراتے پھرتے ہیں۔ شاید اسی لئے قیام پاکستان کو آج تک دل سے قبول نہ کرنے والے دانشور اور میڈیا کے بڑے بڑے عہدوں پر بیٹھے ہوئے کچھ لوگ‘ جو خیر سے اس وقت وزیر اعظم کے نمائندہ خصوصی کے اختیارات رکھتے ہیں‘ پاکستان بنانے کا جرم کرنے والوں سے حساب برابر کر رہے ہیں۔ عرصہ سے سنتے آ رہے تھے کہ شکر ہے قائد اعظم جلد ہی اس دنیا سے رخصت ہو گئے 
ورنہ اس قوم نے ان کو بھی نہیں چھوڑنا تھا۔ یہ ناقابل یقین سی توجیہہ سن کر کچھ عجیب سا لگتا تھا‘ لیکن جب اپریل2016ء میں پاناما لیکس کا دنیا بھر میں شور اٹھا اور آئس لینڈ، برطانیہ کی طرح پاکستان میں بھی یہ معاملہ بے قابو ہونے لگا‘ تو پاکستان کے حکمران خاندان نے میڈیا اور اپوزیشن جماعتوں کے دبائو کو کم کرنے کے لئے اعلان کر دیا کہ ہم بھی احتساب کے لئے تیار ہیں‘ لیکن یہ احتساب اسی صورت ہو گا کہ اس کا آغاز 1947ء سے کیا جائے۔ 
مجھے اچھی طرح یاد ہے اکتوبر 1993ء کے انتخابات کے نتیجے میں جب محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت قائم ہو گئی تو کچھ عرصہ بعد چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کا عمل شروع ہوا۔ شریف برادران کی رہائش گاہ لاہور ماڈل ٹائون میں دو نوجوان لڑکوں کو یہ کہہ کر میاں نواز شریف سے ملوایا گیا کہ یہ ڈاکٹر جاوید اقبال کے صاحبزادے اور شاعر مشرق حضرت علامہ اقبالؒ کے پوتے ہیں۔ اس پر میاں صاحب نے کہا کہ ان کی شکلیں علامہ اقبال سے کس قدر ملتی ہیں! اگر یہ ان کی طرح مونچھیں رکھ لیں تو کوئی پہچان ہی نہیں سکے گا کہ یہ علامہ اقبال نہیں ہیں۔۔۔ اور پھر 23سال بعد وقت نے عجیب منظر دیکھا کہ اسلام آباد میں عمران خان چوک پر وہی ولید اقبال‘ جنہیں حضرت علامہ اقبال کا پوتا ہونے کا فخر حاصل ہے اور جن کا باپ ڈاکٹر جاوید اقبال ہائیکورٹ کا چیف جسٹس تھا اور والدہ لاہور ہائیکورٹ کی جسٹس رہ چکی ہیں اور جو خود بیرسٹر ہیں اور امریکہ، برطانیہ کی مختلف یونیورسٹیوں میں پڑھانے کا اعزاز رکھتے ہیں‘ کو اسلام آباد اور پنجاب پولیس کے سپاہی گریبان سے پکڑ کر سڑکوں پر اس طرح گھسیٹ رہے تھے جیسے وہ کوئی بہت بڑے مجرم ہوں۔ دو نومبر کے روزنامہ دنیا کے صفحہ آخر پر شائع ہونے والی تصویر دنیا بھر میں اس قدر وائرل ہو چکی ہے کہ ان کے شاگرد بھی دیکھ کر سوچنا شروع ہو گئے ہوں گے کہ ''ہمارے استاد کے گریبان پر پولیس کا ہاتھ‘‘؟۔ تنخواہوں میں اضافے سے سرشار سپاہی ولید اقبال کو بالوں سے پکڑ کر گھسیٹے ہوئے پولیس وین میں پھینک گئے‘ جہاں عندلیب عباس کو اسلام آباد پولیس کی ایک بدنام زمانہ اے ایس آئی ٹھڈے مار رہی تھی۔ ولید اقبال نے جب یہ حرکت دیکھی تو انہیں اے ایس آئی سے چھڑانے کی کوشش کی۔ اس پر مذکورہ اے ایس آئی‘ جسے ابھی حال ہی میں وزیر اعظم نے وزیر داخلہ چوہدری نثار کے ذریعے خصوصی طور پر پچاس ہزار روپے انعام بھجوایا تھا‘ ولید اقبال کو گالیاں دینا شروع ہو گئی۔ عندلیب عباس نے جب اس کی بکواس سنی تو مذکورہ اے ایس آئی کو چیختے ہوئے بتایا کہ یہ علامہ اقبال کے پوتے ہیں۔ جواب میں اس بدتمیز عورت (اے ایس آئی) نے کہا: پھر کیا ہوا اگر یہ علامہ اقبال کا پوتا ہے‘ یہ بھی عمران کی طرح یہودیوں کا ایجنٹ ہے اور علامہ اقبال نے کوئی ہماری تنخواہ اور گریڈ بڑھائے ہیں؟ یہ تو میاں نواز شریف نے ہماری تنخواہیں اور گریڈ بڑھا دیئے ہیں‘ میں کسی اقبال کو نہیں جانتی‘ میں صرف نواز شریف اور شہباز شریف کو جانتی ہوں۔ اسلام آباد پولیس کی یہ اے ایس آئی خاتون درست ہی کہتی ہے۔ اگر وہ حضرت علامہ اقبال شاعر مشرق‘ اور نظریہ پاکستان کے خالق حضرت قائد اعظم کو جانتی تو یہ گھٹیا حرکت کبھی نہ کرتی۔ بہت سے استاد اور دانشور پوچھ رہے ہیں کہ قائد اعظم کے بعد علامہ اقبال اور ان کے خاندان سے میاں نواز شریف کو اس قدر نفرت کیوں ہو چکی ہے کہ پہلے یوم اقبال کی تقریبات کو ختم کیا گیا‘ اور پھر یوم اقبال کی قومی تعطیل ختم کر دی گئی۔ ایسے لوگ شاید سیفما کی تقریب میں میاں صاحب کا وہ مشہور اور تاریخی خطاب بھول چکے ہیں‘ جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ''ہندو اور مسلمان کا رب ایک ہے، اور یہ تو ایک لکیر ہے جس نے ہمیں آپس میں جدا کر رکھا ہے!!‘‘۔ اس کے باوجود وہ اقبال ڈے کی تقریبات اور تعطیل ختم ہو جانے کا شکوہ کریں تو کیا کہا جا سکتا ہے؟ قائد اعظم کی روح اپنے ملک کے حکمرانوں کے بارے میں کیا سوچتی ہو گی؟ اندازہ لگائیں!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved