تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     06-11-2016

ہم یہ منظر دیکھ رہے تھے

پاکستان کے موجودہ سیاسی منظر کی ویرانیاں دیکھ کر نہ تو اداسی ہوتی ہے اور نہ کسی کمی یا کثرت کا احساس۔ ہمارا حال ان لاوارثوں جیسا ہے جنہیں قدرت نے بچپن میں ہی یتیم کر دیا ہو۔ ہمارے خاندان میں دو ہی بڑے بزرگ تھے۔ ایک بابائے قوم اور ایک قائد ملت لیاقت علی خان۔ ہم ادب و تہذیب سے محروم ایسے بدتمیز بچے تھے‘ جنہوں نے اپنے بزرگوں کا جینا اجیرن کر دیا۔ بابائے قوم آزادی کے دوسرے ہی برس‘ کراچی کی تپتی دوپہر میں‘ وہاں کی ایک سڑک پر بے یارومددگار دم توڑ گئے۔ جس گاڑی میں انہیں ایئرپورٹ سے شہر لے جایا جا رہا تھا‘ وہ راستے میں ہی خراب ہو گئی۔ اس دور میں ماری پور روڈ ایک ویران سڑک تھی‘ جس پر دوردور تک نہ پیڑ تھے نہ سایہ۔ پاکستان جیسے عظیم الشان اور قدرتی وسائل سے مالامال ملک کے بانی کو دو چار سال کی مہلت بھی نہ مل سکی کہ وہ اپنے لگائے ہوئے پودے کی ابتدائی آبیاری کر پاتے۔ اب سوچتا ہوں کہ خدا نے انہیں بروقت ہی بلا لیا۔ مجھے لائل پور کا ایک واقعہ یاد ہے کہ وہاں کچہری بازار میں ایک گرینڈ ہوٹل ہوا کرتا تھا‘ جو وہاں کے عمدہ ریستورانوں میں شمار ہوتا تھا۔ لائل پور کے صحافی‘ دانشور اور تاجر وہیں اپنی دوپہریں اور شامیں گزارا کرتے تھے۔ دوپہر لنچ پر اور شام چائے نوشی میں۔ ہال میں تین بڑی تصویریں برابر برابر ایک ہی سائز میں آویزاں تھیں۔ دائیں ہاتھ علامہ اقبالؒ کی تصویر تھی۔ درمیان میں قائد اعظمؒ کی اور آخر میں ریسٹورنٹ کے مالک کی۔ ایک روز شام کو گپ شپ کرتے ہوئے ہمارے ایک دوست کی نظر سامنے کی تصویروں پر پڑی تو اس نے اچانک پوچھا کہ ان تین تصویروں میں ہمارے لئے کیا پیغام ہے؟ 
دوسرے دوست نے جواب دیا: ''یہ علامہ اقبالؒ ہیں۔ انہوں نے پاکستان کا خواب دیکھا۔ انہوں نے ہی سوچا اور انہی کا خواب حقیقت میں بدلا‘‘۔ دوسرے ساتھی نے قائد اعظم ؒ کی تصویر کو دیکھتے ہوئے کہا‘ ''یہ بابائے قوم کی تصویر ہے۔ انہوں نے طویل سیاسی جدوجہد کرتے ہوئے ہندوئوں کی بھاری اکثریت کی مخالفت کے باوجود پاکستان بنایا‘‘۔ یہ دونوں تبصرے سن کر ہم نے اپنے ایک خاموش طبع ساتھی سے‘ جو اس وقت بھی اپنے آپ میں گم بیٹھا تھا‘ پوچھا ''تم کس سوچ میں گم ہو؟‘‘ اس نے جواب دیا‘ ''میں ان تصویروں میں پوشیدہ پیغام دیکھ رہا ہوں۔ پہلی تصویر میں بتایا گیا ہے کہ اقبالؒ نے پاکستان بنانے کا سوچا۔ قائد اعظم ؒ نے پاکستان بنایا‘‘۔ ''اور تیسری تصویر؟‘‘ سب نے بیک وقت سوال کیا۔ ''اور اس نے کھایا‘‘ جواب ملا۔ گویا ان تصویروں کا مجموعی پیغام یہ ہے کہ ایک نے پاکستان سوچا‘ دوسرے نے بنایا اور تیسرے نے کھایا۔ پہلے دونوں ہمارے ملک کے بانی تھے۔ دونوں نے پاکستان کے خواب کو تعبیر دی اور ''اس کے بعد؟‘‘ سوال ہوا۔ ہمارے دکھی ساتھی نے درد بھری آواز میں جواب دیا ''اس کے بعد جو بھی آیا‘ اس نے کھایا‘‘ اور اس بری طرح سے کھایا کہ آج ساری قوم مل کر ہضم شدہ مال برآمد کرنے کی جدوجہد کر رہی ہے۔ کسی کی سمجھ میں نہیں آ رہا کہ لوٹ کا مال برآمد کیسے کیا جائے؟ محکموں پر محکمے لگے ہیں۔ اداروں پر ادارے سرگرداں ہیں۔ عدالت عظمیٰ جستجو میں ہے۔ سیاسی کارکن شب و روز کوشش میں ہیں‘ مگر دولت کے خفیہ ڈھیروں کی کسی طرف جھلک دکھائی نہیں دے رہی۔ عجیب تماشہ ہے۔ جس پر شک ہونے کی وجہ سے پوچھا جاتا ہے ''دولت کے جس ڈھیر پر تم بیٹھے ہو‘ یہ کس کا ہے؟‘‘ جواب ملتا ہے ''مجھے تو پتہ نہیں‘‘۔ دریافت کیا جاتا ہے ''حد ہو گئی! تمہارے بزرگ سلامت ہیں‘ کیا وہ تمہیں بھی یہ نہیں بتاتے کہ اس دولت کے مالک تم ہو؟‘‘ 
''آہستہ بولو! کسی نے سن لیا‘ تو خود بھی مرو گے اور مجھے بھی مروائو گے‘‘۔
''ہمیں کون مار سکتا ہے؟ ابا جان! یہ تو آپ کی شرافت ہے کہ ججوں کے سامنے پیش ہو گئے‘ ورنہ ان کے لئے انکل سیف الرحمن کافی ہیں‘‘۔
شام ہوئی تو جو منظر ٹی وی پر دیکھنے کو ملا‘ وہ ہمارے وہم و گمان میں بھی نہیں آ سکتا تھا۔ جب ہم پاکستان زندہ باد کے نعرے لگاتے تھے تو اقبالؒ‘ قائد اعظمؒ اور قائد ملت لیاقت علی خان ہمیں پاکیزہ روحوں کی طرح نظر آتے تھے۔ جنگ آزادی کے سارے لیڈر ہمیں ایک جیسے لگتے تھے۔ ہمارا فرید کوٹ والا گھر مرکزی سڑک پر تھا۔ اس کے ایک طرف وہ چوراہا تھا‘ جس کا نام اہل محلہ نے ''پاکستان چوک‘‘ رکھ دیا تھا۔ اس چوک کے برابر والی گلی میں ہندوئوں اور مسلمانوں کے درمیان ایک مسجد پر مقدمہ چل رہا تھا۔ میں نے ہوش سنبھالا ہی تھا کہ مسلمان وہ مقدمہ جیت گئے۔ مسجد کا قبضہ دلوانے پنڈت نہرو فرید کوٹ آئے۔ تقریب ختم کرکے وہ جلوس کی صورت میں ہمارے گھر کے نیچے سے گزرے اور ہندو‘ مسلمان‘ سکھ‘ سب مل کر مسجد واپس مسلمانوں کو ملنے پر خوشی سے نعرے لگا رہے تھے۔ آج وہی بھارت ہے‘ جس کا وزیر اعظم مودی‘ ریاست گجرات کے وزیر اعلیٰ کی حیثیت میں‘ کئی برس تک مسلمانوں کا قتل عام کراتا رہا اور ایک وقت ایسا آیا کہ وہ ہمارے وزیر اعظم کا گھریلو مہمان بن کر مہمانداری سے لطف اندوز ہوتا رہا۔ 
پھر میں نے چند روز پہلے اپنی آنکھوں سے ایک ایسا منظر دیکھا‘ جس کا پاکستان بنانے والے علامہ اقبالؒ‘ قائد اعظمؒ اور لیاقت علی خان تصور بھی نہیں کر سکتے تھے۔ لوہے کی تجارت کے ایک معزز خاندان کے فرزند سیاست میں آئے‘ تو پہلے صوبے کے وزیر اعلیٰ اور بعد میں وزیر اعظم بنے۔ وہ برصغیر کے پہلے وزیر اعظم ہیں‘ جن کے لئے عدالت عظمیٰ میں ''کرسی اقتدار‘‘ رکھی گئی۔ ایک سیاسی فریق کا الزام ہے کہ ہمارے معزز وزیر اعظم نے مع اہل و عیال بے تحاشا خفیہ دولت جمع کی ہے‘ جبکہ وزیر اعظم اور ان کی پارٹی‘ اس کے جواب میں مخالفین پر اسی قسم کے الزام لگاتی ہے۔ یہ دنیا کا پہلا سیاسی معرکہ ہے‘ جس میں ایک پارٹی پر کسی بدعنوانی کا الزام لگایا جاتا ہے‘ تو اس کے کارندے قوالی کی شکل میں‘ اسی پارٹی پر جوابی الزام تراشی شروع کر دیتے ہیں‘ جن کی طرف سے اہل اقتدار پر الزام لگتے ہیں۔ یہ بحث اتنے زور و شور سے ہوتی ہے کہ کسی کی سمجھ میں ہی نہیں آتا کہ اصل ملزم کون ہے؟ اور جوابی الزام تراشی سے بنایا گیا ملزم کون؟ مگر سرکاری اور غیر سرکاری ''گلوبٹ‘‘ علامہ اقبالؒ کے پوتے کو چاروں طرف سے دبوچے یوں گھسیٹ رہے تھے‘ جیسے قصائی کسی بکرے کو پکڑ کر کھینچ رہے ہوتے ہیں۔ پہلے مشرقی پاکستانیوں نے اکثریتی ووٹ دے کر ہماری آزادی کا راستہ ہموار کیا اور آزادی کے بعد‘ ہم نے وہیںکے عوام اور لیڈروں کو ان کے خون میں نہلا کر واپس بھارت کی جھولی میں ڈال دیا۔ میں سوچ بھی نہیں سکتا کہ متحدہ پاکستان میں کسی وزیر اعظم پر اس طرح کے الزامات لگتے‘ جیسے آج لگ رہے ہیں۔ مشرقی پاکستانی آج بھی سوچتے ہیں کہ ہم نے ان کے بچوں کے ساتھ زیادتی کی‘ جبکہ مغربی پاکستان کے بچے محفوظ رہے۔ میں دنیا بھر میں پھیلے ہوئے تمام محب وطن پاکستانیوں کو انتہائی دکھ کے ساتھ یہ خبر دل کے درد کو دباتے ہوئے پہنچا رہا ہوں کہ ہم نے صرف مشرقی پاکستان کے رہنمائوں اور عوام کو ہی آزاد وطن حاصل کرنے کی سزا نہیں دی‘ تھوڑا ہی عرصہ گزرنے کے بعد لاہور شہر کو بھی یہ سزا بھگتنا پڑی‘ جہاں قراردادپاکستان منظور ہوئی تھی۔ جس پاکستان کا خواب علامہ اقبالؒ نے دیکھا تھا‘ جب وہ معرض وجود میں آیا تو ان کے پوتے کو سڑکوں پر گھسیٹا گیا اور ہم اہل لاہور یہ منظر دیکھ رہے تھے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved