عمران خان کی سیاست اور انداز و اطوار، رفتار و گفتار کسی کو جزوی یا کلی طور پر پسند ہوں یا ناپسند، اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ وہ ایک اَن تھک انسان ہیں۔ باسٹھ ٹریسٹھ سال کی عمر میں بھی ان میں بلا کی تیزی اور تندی ہے۔ بتیس تینتیس برس کے گبھرو، ان کے سامنے پانی بھرتے نظر آتے ہیں۔ ایک مورچے سے ہٹتے یا ہٹائے جاتے ہیں تو دوسرا مورچہ جما لیتے ہیں... ''پلٹنا، جھپٹنا، جھپٹ کر پلٹنا‘ لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ‘‘... شاید علامہ اقبال نے انہی کے لئے کہا تھا۔ انہوں نے اقبال کو پڑھا اور سمجھا ہے، انہیں آئیڈیلائز کرتے ہیں اور اپنی بات چیت میں ان کا حوالہ دینے سے بھی نہیں چوکتے۔ کرکٹ کے میدان میں انہوں نے جُہدِ مسلسل سے کامیابی حاصل کی۔ ایک بار باقاعدہ ریٹائرمنٹ کا اعلان کرنے کے باوجود (صدر پاکستان کی اپیل پر) دوبارہ میدان میں اترے اور ورلڈ کپ جیت کر دکھا دیا۔ اپنی والدہ کی یاد میں شوکت خانم کینسر ہسپتال بنانے کا خیال دل میں آیا، تو دنیا بھر کے ڈاکٹروں نے سمجھایا کہ اس طرح کے ہسپتال بنائے تو جا سکتے ہیں، چلائے نہیں جا سکتے‘ نجی شعبہ ان کا بوجھ نہیں اٹھا سکے گا‘ اس کے باوجود عمران خان نے اپنے خیال کو ارادے میں بدل دیا۔ ناممکن کو ممکن کرکے دکھانے میں ان کو مزہ آتا ہے، سو ہسپتال بنا کر اور چلا کر دکھا دیا۔ عام لوگوں نے اس کے لئے اتنے عطیات دیے (اور دے رہے ہیں) کہ اس کا چلنا (اور چلانا) ممکن ہے۔
عمران خان نے تعلیم کے میدان میں بھی قدم رکھا‘ اور بے قاعدہ سکولوں کی ترویج کا ارادہ باندھا تھا۔ ان کے بعض دوستوں نے یہ مشورہ دیا کہ سیاست میں آ کر اقتدار سنبھالو، قومی وسائل کو دسترس میں لائو اور ہزاروں سرکاری سکولوں کو درست کر دو، یہ کیا ٹھک ٹھک کرتے رہو گے؟ بات ان کے من کو بھائی اور وہ سیاست کے میدان میں آ دھمکے۔ یہاں بھی ان کو اٹھارہ، انیس سال ہو چکے ہیں۔ مایوسیوں سے الجھتے اور امیدوں کو گرفت میں لاتے وہ کبھی آگے بڑھتے تو کبھی پیچھے ہٹتے دکھائی دیتے ہیں۔ نواز شریف کی مخالفت میں وہ اتنا آگے بڑھے کہ پیپلز پارٹی کے ووٹرز انہوں نے اچک لئے ہیں۔ پیپلز پارٹی کو انتخاب کے میدان میں روایتی سندھی سیاست سہارا دیے ہوئے ہے، وگرنہ اس کے ساتھ وہاں بھی وہی ہو جاتا جو پاکستان کے دوسرے حصوں‘ خصوصاً پنجاب میں ہو گزرا ہے۔ پنجاب میں تحریک انصاف، مسلم لیگ (ن) کی سب سے بڑی حریف ہے اور ثانی الذکر کے مخالفین اس کے پیچھے جمع ہوتے جا رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے وہ جیالے جو مسلم لیگ (ن) کے خلاف دل میں (نقد یا) ادھار کھائے بیٹھے تھے، انہیں عمران خان میں بھٹو نظر آ رہا ہے، انہوں نے اپنے ووٹ ان کی جھولی میں ڈال دیے ہیں۔
یہ صورت حال عزیزم بلاول بھٹو زرداری کو گوارا نہیں۔ وہ اپنے نانا اور والدہ کے خون کے واسطے سے ان ووٹوں پر اپنا حق سمجھتے ہیں‘ اور عمران خان کے ''ڈاکے‘‘ کو معاف کرنے پر تیار نہیں۔ پارٹی کے بعض بزرجمہروں نے ان کو یہی پٹی پڑھائی ہے کہ عمران خان جب تک منہ کے بل نہیں گرے گا، ان کا راستہ کشادہ نہیں ہو گا۔ آف دی ریکارڈ گفتگوئوں میں یہ تجزیہ ابلتا اچھلتا نظر آتا ہے۔ یہ وہ نکتہ ہے جہاں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے جذبات ایک ہو جاتے ہیں۔ بلاول بھٹو کا المیہ یہ ہے کہ اگر وہ مسلم لیگ (ن) کے خلاف لنگوٹ باندھ لیں تو عمران اُڑان بھرتے نظر آتے ہیں اور اگر لہجہ دھیما کر لیں تو مسلم لیگ (ن) سے مک مکا کا الزام سہنا پڑتا ہے۔ اس صورت میں بھی عمران (اپوزیشن کی سیاست پر) چھائے نظر آتے ہیں۔ عمران خان چومکھی لڑ رہے ہیں اور ہار ماننے کو تیار نہیں۔
ان کے دھرنا نمبر1 اور نمبر2 کے بارے میں جو کچھ بھی کہا جائے اور تجزیہ نگار ان سے جو کچھ بھی نکالتے رہیں‘ شیخ رشید اپنی توقعات کو جس طرح چاہیں اونچا اور نیچا کرتے رہیں، عمران اپنے پتّے اپنے انداز میں کھیل رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ کپتان ہیں‘ اور کپتان کسی مشورے کا پابند نہیں۔ وہ اپنی سٹریٹیجی خود بناتا ہے اور بنا رہا ہے۔ انہوں نے دھرنا نمبر ایک سے پہلے وعدہ کیا تھا کہ وزیر اعظم نواز شریف سے نبٹے بغیر اسلام آباد سے واپس نہیں آئیں گے۔ ان پر غیر سیاسی حلقوں سے سازباز کے الزامات لگے، جاوید ہاشمی تک ان کا ساتھ چھوڑ گئے، لیکن وہ اپنے کنٹینر پر ڈٹے رہے۔ آرمی پبلک سکول پشاور پر طالبان کے وحشیانہ حملے نے منظر بدلا تو انہیں بھی ''فیس سیونگ‘‘ مل گئی۔ انہوں نے انتخابی دھاندلی کی تحقیقات کے لئے سپریم کورٹ کے کمیشن کو تسلیم کیا‘ اور واپسی کی راہ لی۔ اس کمیشن کی رپورٹ سے ان کی توقعات پوری نہ ہوئیں، لیکن انہوں نے خفت اٹھانے سے انکار کر دیا۔ سمجھا یہ جا رہا تھا کہ وہ اب آئندہ انتخابات کی تیاری کریں گے اور کسی تحریک کا خطرہ (RISK) نہیں لیں گے... لیکن پاناما لیکس نے انہیں پھر قسمت آزمانے کا موقع فراہم کر دیا۔ آف شور کمپنیوں میں وزیر اعظم کے بچوں کے نام کیا آئے کہ ان کی چاندی ہو گئی۔ وہ نئے جوش و خروش کے ساتھ میدان میں نکل آئے اور وزیر اعظم کو آڑے ہاتھوں لینے لگے۔ ''استعفیٰ دو یا تلاشی‘‘ ان کا نعرہ بن گیا۔ اسلام آباد کو بند کرنے کے لئے انہوں نے وہاں کا رخ کیا، سپریم کورٹ میں درخواست بھی ڈال دی۔ 2 نومبر کو انہوں نے اسلام آباد میں دھماچوکڑی مچانا تھی کہ عدالت نے پاناما لیکس کی انکوائری اپنے ذمے لے لی۔ اس پر عمرانی باچھیں کِھل اٹھیں، انہوں نے اعلان کیا کہ تلاشی کا عمل شروع ہو گیا ہے، اس لئے احتجاج نہیں شُکر کا دن منائو۔ شُکر کا جلسہ کرو اور گھروں کو واپس ہو جائو۔
مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کے رہنما اپنی اپنی جگہ بضد ہیں کہ کامیابی ان کی ہو گی جبکہ پیپلز پارٹی ہڑبونگ مچانے کی خواہشِ خام میں مبتلا ہے۔ قوم کی نگاہ سپریم کورٹ پر ہے، وہاں فریقین کو دلائل دینا ہیں اور دودھ کو پانی سے الگ کرانا ہے... نتیجہ جو بھی نکلے، دونوں جماعتوں کو داد دینی چاہیے کہ انہوں نے ''امپائر‘‘ پر اتفاق کر لیا ہے۔ کسی اور کی انگلی اٹھنے کی ضرورت ہے، نہ اٹھانے کی۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ سب کو ماننا ہو گا۔ اپنا اپنا زور اب شواہد پیش کرنے اور دلائل دینے پر لگائیں۔ اپنے آپ کو منصف سمجھیں، نہ اپنے ملزموں کو مجرم قرار دیں... عمرانی سیاست کے تیور جو بھی ہوں ان کے علم الکلام پر جس طرح بھی سر پیٹا جائے، خوشی کی بات یہ ہے کہ وہ بالآخر عدالت کی طرف لوٹ آتے اور سسٹم کو مضبوط کر گزرتے ہیں۔ ؎
وہ کہیں بھی گیا‘ لوٹا تو میرے پاس آیا
بس یہی بات ہے اچھّی میرے ہرجائی کی
[یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے]