تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     06-11-2016

سُرخیاں‘ متن اور اشتہارات

دعوے کیا کر رہے تھے‘ اُن کو ملا کیا۔ نواز شریف
وزیر اعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ''مخالفین دعوے کیا کر رہے تھے، ان کو ملا کیا‘‘ سوائے اس کے کہ سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت خود شروع کر دی ہے اور ایک جج بطور جوڈیشل کمیشن کارروائی کر کے رپورٹ دے گا، لیکن انشاء اللہ اس کی نوبت ہی نہیں آئے گی اور ہمیں ویسے ہی سیاسی شہادت کا رتبہ حاصل ہو جائے گا کیونکہ ہم ہر روزکوئی نہ کوئی نیا نشتر چلا دیتے ہیں جیسا کہ اگلے روز خواجہ آصف نے غیر پارلیمانی قوتوںکو دو نمبری امپائر قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ ''ہم پر کوئی انگلی نہیں اُٹھا سکتا‘‘ اور اگر اُٹھائے بھی تو ہم پر ماشاء اللہ اس کا کوئی اثر ہی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''بد زبان شخص پاکستانی عوام کا لیڈر نہیں ہو سکتا‘‘ اور میں بے نظیر کے بارے میں جو خوش کلامیاںکیا کرتا تھا وہ اب قصۂ پارینہ بن چکا ہے‘ نیز ایسی باتیں الیکشن کمپین کے دوران ہی اچھی لگتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''عوام ترقی کے لیے ہمیں بار بار موقع دیتے رہیںگے‘‘ بشرطیکہ اس ترقی کے نتیجے میں عوام نام کی کوئی چیز باقی رہ گئی۔ ہیں جی! انہوں نے کہا کہ ''مجھے کس قصور پر جیل میں رکھا گیا‘‘ کیا اس لیے کہ میں نے آرمی چیف کو برخواست کر دیا تھا؟ اور اگر ہوائی جہاز کو بھارت لے جایا جاتا تو پتا چل جاتا کہ ایک وزیر اعظم سے ٹکر لینے کا کیا مطلب ہوتا ہے۔ بہر حال جیل کا تجربہ کچھ ایسا خوشگوار نہیں تھا۔ انہوں نے کہا کہ ''ترقی کو دیکھ کر مخالفین کی نیندیں حرام ہو گئی ہیں‘‘ اور یہ اس وقت تک حرام ہی رہیں گی جب تک انہیں اس ترقی کی اصلیت کا پتا نہیں چل جاتا۔ انہوں نے کہا کہ ''دھرنا دینے والے ملک کو اندھیروں میں دھکیلنا چاہتے ہیں‘‘ جبکہ اس وقت سارا ملک روشنی سے جگمگا رہا ہے نہ کوئی لوڈشیڈنگ ہے نہ گیس کی قلت۔ آپ اگلے روز کہوٹہ میں ایک جلسے سے خطاب کر رہے تھے۔
حکومت آزادیٔ اظہارِ رائے پر 
یقین رکھتی ہے۔ مریم اورنگزیب
وفاقی وزیر مملکت برائے اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ ''حکومت آزادیٔ اظہار رائے پر یقین رکھتی ہے‘‘ تاہم اس پر یقین رکھنا اور اس پر عملدرآمد دو مختلف چیزیں ہیں اور ان دونوں کو آپس میں گڈ مڈ نہیں کرنا چاہیے جبکہ کنٹینر‘ مارکٹائی اور گرفتاریوں کا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ اظہار رائے کرنے والے ان کے رد ِعمل میں زیادہ جوش و خروش کے ساتھ اس کا استعمال کر سکیں‘ نیز جیلوں کا مطلب و مقصد ہی یہ ہے کہ انہیں آباد رکھا جائے اور ان میں دن رات اُلّو نہ بولتے رہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''حکومت آزادیٔ اظہار کی سہولتوں کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھے گی‘‘ جبکہ آزادیٔ اظہار کی بہترین شکل حکومتی پالیسیوں کی تائید و حمایت ہے جس کے لیے میڈیا سیل کے اربوں روپے کے فنڈز مخصوص کیے گئے ہیں تاکہ میڈیا والوں کی خدمت اور خاطر تواضع بھی ہوتی رہے کیونکہ حکومت خود غرض نہیں ہے اور محض اپنی خاطر تواضع پر یقین نہیں رکھتی۔ آپ اگلے روز اسلام آباد پریس انفرمیشن ڈیپارٹمنٹ کے دورہ کے موقع پر پی آئی ڈی اور وزارت اطلاعات کے اعلیٰ حکام سے ملاقات کر رہی تھیں۔
وزارت عظمیٰ کے لیے دھرنے کی 
بجائے ووٹ چاہئیں۔ عرفان صدیقی
وزیر اعظم کے مشیر عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ ''وزارت عظمیٰ کے لیے دھرنے کی بجائے ووٹ چاہئیں‘‘ اور ووٹ کے لیے الیکشن کمیشن سمیت اور بہت سے عوامل کی ضرورت ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''ایک چھوٹا سا بیلٹ باکس لاکھوں کے جلسے پر حاوی ہوتا ہے‘‘ اس لیے ہم صرف بیلٹ باکس کی دیکھ بھال کو اہمیت دیتے اور مطلوبہ نتائج حاصل کر لیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''عمران خان کو چاہیے کہ سڑکوں پر احتجاج کی بجائے ٹھوس تعمیری سیاست کی طرف پلٹ آئیں‘‘ جبکہ تعمیری سیاست کا سب سے بڑا وصف تعمیری منصوبے ہیں جن سے جلسوں اور الیکشن کا سارا خرچہ بھی نکل سکتا ہے اور خواہ مخواہ کسی کا محتاج نہیں ہونا پڑتا، بلکہ کسی کا زیر احسان ہونے کی بجائے اپنا جہاز خود خریدا جا سکتا ہے۔ اس لیے عمران خان تعمیری سیاست میں ایک بار حصہ لے کر تو دیکھیں‘ انہیں جلسے اور دھرنے سب بھول جائیںگے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں ایک نجی ٹی وی پر گفتگو کر رہے تھے۔
درد مندانہ اپیل
ہرگاہ بذریعہ اشتہار ہذا کنٹینرز کے مالکان سے پر زور اپیل کی جاتی ہے کہ حکومت نے سڑکیں بند کرنے کے لیے جو سات ہزار کنٹینرز پکڑے تھے ان کے کرایہ کے لیے حکومت کو بار بار پریشان نہ کریں کیونکہ حکومت انہیں اپنے کسی ذاتی استعمال میں نہیں لائی تھی بلکہ اسلام آباد کو کھلا رکھنے کے لیے ایک رفاہ عامہ کا کام تھا اور جس سے جمہوریت کو بچانے کا بھی کارنامہ سرانجام دیا گیا جبکہ ان حضرات کو یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ روپیہ پیسہ ہاتھ کا میل ہے جس کے لیے خود پریشان ہونا اور دوسروں کو پریشان کرنا کوئی اچھی بات نہیں ہے اور انہیں چاہیے کہ اچھی باتیں سیکھنے کے لیے حکومت کی خدمات حاصل کریں جو معمولی اور مناسب معاوضے پر سرانجام دی جاتی ہیں۔ اس طرح براہ کرم سڑکوں کی کھدائی کو بھی رفاہِ عامہ ہی کا ایک حصہ سمجھا جائے اور معاوضے کا مطالبہ کرنے کی بجائے حکومت کو کچھ ہاتھ سے دینا بنتا ہے جو عوام کی ترقی کے لیے دن رات ایک کیے ہوئے ہے اورکُچھ پتا نہیں چلتا کہ دن ہے یا رات ہے۔ المشتہران: حکومت ہائے وفاق و پنجاب
ایک گزارش
ہر گاہ بذریعہ اشتہار ہذا برخوردار بلاول بھٹو زرداری سے گزارش ہے کہ بار بار اپنے چار مطالبات کا اعادہ کرنے سے گریز کریں اور اس بات کو سمجھنے کی کوشش کریں کہ پچھلے دنوں حکومت نے بعض معاملات کے حوالے سے جو نرم روی کی پالیسی اختیار کر رکھی تھی تو وہ صرف اور صرف عمران خان کے دبائو کی وجہ سے تھی جو اسلام آباد کو بند کرنا چاہتے تھے، لیکن حکومت نے اس سے پہلے خود ہی یہ کام کر دیا اور اب وہ مصیبت سر سے ٹل چکی ہے اور حکومت ایسے الٹے سیدھے مطالبات کو تسلیم کرنے کے موڈ میں ہرگزنہیں ہے‘ اس لیے بار بار یہ مطالبات پیش کر کے اپنا اور حکومت کا قیمتی وقت ضائع نہ کریں اور اپنے والد صاحب کی حکمت عملی کی پاسداری کریں جو میثاق جمہوریت کے سلسلے کی سب سے مضبوط اور اہم کڑی ہے۔ نیز خورشید شاہ اور سینیٹر اعتزازاحسن کے حکومت مخالف بیانات کو بھی اتنی اہمیت نہ دیں کیونکہ وہ بھی پھوکے فائر ہی کر رہے ہیں۔ المشتہر: حکومت پاکستان
آج کا مطلع
جو بُوڑھا ہوں تو کیوں دل میں محبّت زورکرتی ہے
میں جتنا چُپ کراتا ہوں یہ اُتنا شورکرتی ہے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved