تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     07-11-2016

نون یا قانون۔۔۔۔؟

12مئی2000ء کا دن پاکستان کی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا، جس کا سبب سید ظفر علی شاہ کیس ہے (رپورٹ شدہ سپریم کورٹ منتھلی ریویو 2000 ء ، صفحہ 1137۔) ظفر علی شاہ ایڈووکیٹ کی تازہ بات ظفر علی شاہ کیس کے تناظر میں مزید اہمیت اختیار کر جاتی ہے۔ ہمارے ہمراہی سابق سینیٹر نے کہا کہ 2 نومبرکے بعد ملک میں جاری قومی بحران شدید تر ہو گیا ہے۔ بحران سے نکلنے کا واحد راستہ نواز شریف کا استعفیٰ ہے۔ اس کی وجہ یہ بتائی کہ الزامات سرکاری پارٹی پر نہیں بلکہ ایک شخص اور اس کے گھر کے افراد پر ہیں، لہٰذا نواز شریف استعفیٰ دیں، پارٹی بچائیں اور چوہدری نثار کی قیادت میں نئی حکومت بنا دیں۔ پاکستان کے بارے میں بین الاقوامی ہیجان، بیس کروڑ لوگوںکا امتحان اور ملک میں جاری بحران فوراً ختم ہو جائے گا۔
اوپر درج ظفر علی شاہ بنام جنرل پرویز مشرف کیس کا فیصلہ 12مئی2000ء کے دن ہوا۔ 12ججوں پر مشتمل بنچ نے مقدمے کی سماعت کی، جن میں جسٹس ارشاد حسن خان، جسٹس محمد بشیر جہانگیری، جسٹس شیخ ریاض احمد، جسٹس ناظم حسین صدیقی کے علاوہ معروف سیاسی جج بھی شامل تھا۔ اس بنچ کے پانچ رکن جج حضرات وقتاًََ فوقتاًََ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بنتے گئے۔ یکم نومبر، 6 دسمبر 1999ء، پھر31 جنوری،3 مارچ بعد ازاں6 سے10مارچ، 13مارچ، 14مارچ،22 مارچ، یکم اپریل سے5 اپریل اور8 مئی سے 12مئی2000ء تک مقدمے کی سماعت ہوئی۔ دونوں طرف سے 33 وکلاء نے مقدمے کے حق اور مقدمے کے خلاف دلائل دیے۔ مقدمے کے بڑے مدعی ظفر علی شاہ کا تعلق پوٹھوہار سے ہے۔ چکلالہ سے گوجرخان کی طرف جاتے ہوئے ریلوے ٹریک پر کلیام اعوان نامی ریلوے سٹیشن ہے۔ میری والدہ محترمہ کا تعلق اسی گاؤں(کلیام اعوان) سے ہے۔ اسی گاؤں سے منو بھائی نے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ کلیام اعوان 22 مواضعات پر مشتمل ہے۔ ان میں سے ایک موضع کا نام کلیام سیداں بھی ہے۔ ظفر علی شاہ کی والدہ محترمہ یہیںسے ہیں۔ سابق سینیٹر کے حالیہ بیان نے ظفر علی شاہ کیس کی تاریخ ایک بار پھر یاد دلا دی۔ اس مقدمے میں آئین کے آرٹیکل 2(A) کی تشریح کرتے ہوئے صفحہ1155پر سپریم کورٹ کے 11جج حضرات نے یہ فیصلہ دیا:
"Stability in the system,success of the Government ,democracy, good governance,economic stability ,prosperity of the people,tranquility,peace and maintenance of law and order depend to a considerable degree on the interpretion of constitution and legislative instruments by the superior courts.it is, therefore ,of utmost importance that the judiciary is independent and no restraints are placed on its performance and operation."
ترجمہ: ''نظام میں استحکام، حکومت کی کامیابی،گڈ گورننس، مستحکم معیشت، عوام کی خوشحالی، طمانیت، امن اور لاء اینڈ آرڈرکا قیام بڑی حد تک آئین اور قانون کی تشریح سے تعلق رکھتا ہے جو عدلیہ کی ذمہ داری ہے۔ اس لئے یہ امر سب سے زیادہ ضروری ہے کہ عدلیہ آزاد ہو اور اس کی کارکردگی اور سماعت کے راستے میں رکاوٹیں نہ ڈالی جائیں‘‘۔
آگے جانے سے پہلے ماضی قریب میں آج کے شیر اور دلیر قیادت کا چہرہ دیکھ لیں۔ شیروں میں سے سب سے وڈے شیر عرف نواز شریف صاحب کہتے نہیں تھکتے کہ نہ ہم بھاگنے والے ہیں اور نہ ہی بزدل، ہم نے ہمیشہ ہر مشکل کا ''ڈٹ‘‘ کر مقابلہ کیا ہے۔ شیروں کے اس ڈٹ جانے کی روایت کے تین بڑے ثبوت یہ ہیں۔
پہلاثبوت وہ ہے جب سعودی عرب کی میزبانی کی رسی تڑوا کر موجودہ وزیراعظم اسلام آباد ایئر پورٹ پہنچے تھے۔ گزشتہ روز میرے آبائی گاؤں سے کچھ فاصلے پر وہ تحصیل کہوٹہ میں جلسے سے خطاب کر رہے تھے۔ انہوں نے دنیا کی مہنگی ترین گیس خریدنے والے وزیرِ پٹرولیم اور ایک دوسری بزرگ ہستی کو شیر، دلیر اور آخری بہادری کے زبانی تمغے پیش کیے جبکہ اپنے آپ کو سیاسی شیروں کے گلے کا سردار کہا۔ ان میں سے کوئی بھی شیر اس دن اسلام آباد ایئر پورٹ پر دُم تک نہ مار سکا، پنجہ تو بعدکی بات ہے اوردھاڑنا بہت دور کا قصہ، جب نواز شریف کو اسلام آباد ایئر پورٹ سے دھکوں کے ذریعے واپس سرور پیلس جدہ کی طرف رول بیک کر دیا گیا۔
دوسراثبوت، لاکھوں شیروں کی بہادری کا دوسرا دلیرانہ ریکارڈ لاہور ایئر پورٹ پر بنا، جہاں گھنٹوں کی فلائٹ کے دوران خادمِ اعلیٰ نے غزلیں گاتے ہوئے لاہور ایئر پورٹ پر محفلِ موسیقی میں دادکی طلب میں آ کر لینڈ کیا۔ یہاں داد کی بجائے انہیں بیداد سے واسطہ پڑگیا۔ اس دن بھی عمران خان کی خالی ہاتھ خاتون کارکنوں اور معصوم بچوں کے لئے ڈنڈے، انڈے اور پش اپس لگانے والے سارے اصلی شیر ہونے کے باوجود چوہے والے بِل میں سماکر بیٹھ گئے۔ ہاں مگرکل اور آج میں صرف ایک فرق ہے اور وہ یہ کہ گزرے کل میں پنجاب پولیس کی لگام نون کے مخالفوں کے ہاتھ میں تھی اور آج پنجاب کی شیر پولیس نون کے خادموں میں شمار ہوتی ہے۔ اسی لئے شاہراہِ دستور سے ماڈل ٹاؤن تک اور صوابی انٹر چینج سے E-11 کے یوتھ کنونشن تک نون اور قانون ایک ہی سِکے کے دو رُخ ہیں یعنی جنگل کا شیر اور جنگل کا قانون۔
تیسرا، شیروں کی اس دلیری کا جوڈیشل مظاہرہ بھی ہوا۔ یہی ظفر علی شاہ کیس کا سب سے بڑا معرکہ تھا۔ ہوا یوں کہ ظفر علی شاہ جو جنگجو علاقے سے تعلق رکھتے ہیں، سمجھ بیٹھے کہ نواز شریف، شہید ذوالفقار علی بھٹو کی طرح ایسٹیبلشمنٹ کے سامنے ڈٹ گئے ہیں۔ ان کو یہ بھی خیال آیا کہ نواز شریف پھانسی کا پھندہ چوم لیں گے، مشرف کو بھجوائے گئے معافی نامہ پر دستحط ثبت نہیں کریںگے۔ وہ ملک سے بھاگ جانے پر ملک کے اندر لٹک جانے کو ترجیح دیںگے، لیکن قبلہ شاہ صاحب اور پوٹھو ہار آبادی کو یہ دیکھ کر440 وولٹ کا جھٹکا لگا جب شریف شیروں نے ظفر علی شاہ کی آئینی پٹیشن کو نون لیگ کی طرف سے عاق کر دیا۔ دھاڑنے والے شیراس طرح منمنائے: ''ظفر علی شاہ کیس کا نون لیگ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ ظفر علی شاہ صاحب کی ذاتی پٹیشن ہے، جس سے نون کا کوئی دورکا بھی واسطہ نہیں‘‘۔
اُن دنوں میرے پاس اٹک قلعے کے اندر اے این پی کے سرکردہ لیڈر اور نواز شریف حکومت کے 
وزیرِ مواصلات مرحوم جناب اعظم ہوتی کا مقدمہ تھا۔ آصف زرداری کا وکیل تو میں تھا ہی، اس کے ساتھ موٹروے ریفرنس میں شاہ میر خان کا وکیلِ صفائی بھی تھا۔ اس کے علاوہ ایف آئی اے کے افسر احمد ریاض شیخ اور ان کی فیملی کا احتساب ریفرنس بھی میرے پا س تھا۔ مجھے لاہورکے ایک سرکردہ مرحوم وکیل نے چائے کے وقفے میںاٹک قلعے کے اندر بتایا کہ کچھ دن بعد شیر دھاڑنے کی بجائے ''اڈاری‘‘ مارنے والا ہے۔ کیا شیر اڑ سکتا ہے؟ یہ کہانی بہت دلچسپ ہے مگر پھر کبھی سہی۔ آئیے نون اور قانون کے معرکہ میں ظفر علی شاہ کیس کی طرف واپس چلتے ہیں۔ دیکھنے والی بات یہ ہے کہ نواز شریف، ان کے اہلِ خانہ اور لذیذ کھانے بنانے والے پسندیدہ باورچیوں کی سرور پیلس روانگی کے لئے جمہوریت، قوم اور پاکستان کو کیا قیمت ادا کرنا پڑی؟ لیکن اس مرحلے پر نون نے مارشل لائی قانون کی کیا مدد کی۔ اس کی ہلکی سی جھلک ظفر علی شاہ کیس کے صفحہ نمبر 1148سے دیکھ لیتے ہیں، جہاں سپریم کورٹ کے فیصلے کے الفاظ یہ ہیں:
''ہم سابق سینیٹر سرتاج عزیزکی دائرکردہ آئینی پٹیشن جو مسٹر خالد انورکے ذریعے دائرکی گئی کا جوڈیشل نوٹس لیتے ہیں۔ اس پیرا گراف کے آخر میں اڈاری مارنے والے شیر نے سپریم کورٹ کو بھی اس قدر حیران کیا کہ عدالتِ عظمیٰ بھی اپنی حیرانی کو چھپانے میں ناکام ہو گئی۔ ملاحظہ ہوصفحہ 1148:
"However ,for reasons best known to the petitioners in both the petitions,the same were not pursued any further."
ظفر علی شاہ کیس کے دوران نون اور مارشل لاء کے قانون ایک پیج پرآ گئے۔ اس کا نتیجہ اس فیصلے کے پیرا نمبر6، صفحہ 1146شِقC میں یہ نکلا: ''جو اقدامات ریاست چلانے کے لئے چیف ایگزیکٹو مشرف نے کیے وہ آئینی ہیں بشمول آئین میں ترمیم کا اختیار‘‘۔ پیرار16،صفحہ نمبر1148پر فرمایا گیا: تفصیلی بحث کے بعد چیف ایگزیکٹو مشرف کو آرمی ٹیک اوورکے دن 12 کتوبر 1999ء سے اپنے مقاصد کی تکمیل کے لئے3سال مزید عطا کیے جاتے ہیں‘‘۔
آج نہ سیاسی جج ہے نہ مک مکا کا خواہشمند چیف۔ ایسے میں نون قانون سے تصادم کے اشتہار چلا رہی ہے، اس لئے کہ قوم کے خزانے سے زبردستی دودھ پینے والا بِلا بند گلی میں پھنس گیا۔ پھنس جانے سے یاد آیا، ہاں اگلے دن پچھلے وزیرِ غلط نشریات کو ایوانِ بالا میں دیکھ کر پچھلی نشستوں پر بیٹھی ایک خاتون سینیٹر نے میرے سمیت سب کو یہ شعر سنایا:
یہ وقت کس کی رعونت پہ خاک ڈال گیا
یہ کون بول رہا تھا خدا کے لہجے میں

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved