وزیراعظم خبر کے محرک کی نشاندہی چاہتے ہیں : چوہدری نثار
وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار احمد نے کہا ہے کہ '' وزیراعظم خود خبر کے محرک کی نشاندہی چاہتے ہیں‘‘ اگرچہ وزیراعظم سے زیادہ اس خبر کے محرک کا کون واقف ہو سکتا ہے لیکن بہر حال وہ اس کے بارے میں کمیشن کی رپورٹ بھی چاہتے ہیں ؛ حالانکہ خود ان کا ناچیز حصہ بھی اس معاملے میں شامل ہے، لیکن وہ اپنی عاجزی اور انکساری کی وجہ سے اس کا کریڈٹ نہیں لینا چاہتے جبکہ فریق مخالف کو بھی یہ بات اچھی طرح سے معلوم ہے لیکن خوش قسمتی سے اس کے پاس کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ہے کیونکہ ایسی باتوں کا کوئی ثبوت چھوڑا بھی نہیں جاتا ورنہ پاناما لیکس کی تحقیقات کی کیا ضرورت تھی‘ ہیں جی؟ انہوں نے کہا کہ '' یہ قومی سلامتی کا معاملہ ہے‘ کوئی بچوں کا کھیل نہیں‘‘ تاہم کسی نہ کسی طرح یہ بچوں کا کھیل بن چکا ہے اس لیے حکومت اس سلسلے میں کیا کر سکتی ہے جبکہ حکومت کے پاس کرنے کے اور کام بھی بہت ہیں۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کر رہے تھے۔
وزیر اعظم سپریم کورٹ کے ساتھ
تعاون کریںگے : احسن اقبال
وفاقی وزیر چوہدری احسن اقبال نے کہا ہے کہ '' وزیراعظم سپریم کورٹ کے ساتھ تعاون کریں گے‘‘ جس کی ابتداء انہوں نے اپنی ہی جماعت کے ایک لیڈر بیرسٹر ظفراللہ کے ذریعے پٹیشن دائر ہونے سے کر دی ہے جو بقول ان کے انہوں نے اپنی ذاتی حیثیت میں کی ہے اور جس میں سپریم کورٹ کی طرف سے ٹی او آرز خود بنانے اور کئی دیگر معاملات پر اعتراضات اٹھائے ہیں اور وہ کوشش کریں گے کہ کیس کی سماعت سے پہلے اس پٹیشن کا فیصلہ کیا جائے۔ اس کے علاوہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے عاصمہ گروپ نے بھی اس تحقیقات میں کیڑے نکالنے کا ارادہ ظاہر کر دیا ہے تاکہ حامد خاں گروپ جس نے عاصمہ گروپ کو بار کے انتخابات میں شکست دی تھی‘ اسے اس کا مزہ چکھایا جا سکے‘ چنانچہ قوی امید ہے کہ اب اس کیس کا فیصلہ بہت جلد ہو جائے گا جبکہ وزیر اعظم کے میڈیا سیل کی طرف سے بھی کچھ صحافیوں کو اس کام پر لگایا جا رہا ہے کہ وہ ججوں پر صحت مندانہ تنقید کا فریضہ انجام دے کر اور آزادی اظہار کے حق میں پھلنے پھولنے کا موقع دیں۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
ایک ہی لاء فرم کے مالک؟
ایک اخباری اطلاع کے مطابق عمران خان اور نوازشریف کے وکلاء ایک ہی لاء فرم کے مالک ہیں جبکہ جج بننے سے پہلے تک بنچ کا حصہ ایک جج صاحب بھی اسی فرم کے پارٹنر رہے ہیں جبکہ کچھ عرصہ قبل تک اسی فرم کا تیسرا پارٹنر جو اب اس فرم کا حصہ نہیں ہے وہ پاناما لیکس کی سماعت کرنے والے سپریم کورٹ کے اسی بنچ میں شامل ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ باہمی تعاون سے اور زیادہ سہولت کے ساتھ اس کیس کا فیصلہ ہو جانے کی توقع ہے جسے مزید کھٹائی میں ڈالنے کے لیے اس موضوع پر اعتراضات کے دائر ہونے کے ایک سلسلے کا بھی خدشہ ہے؛ چنانچہ اس بات کی پوری پوری گنجائش موجود ہے کہ میاں نوازشریف کے بارے میں جو کہا جاتا ہے کہ وہ بیحد خوش قسمت شخص ہیں اور ہر بحران اور مصیبت سے صاف بچ نکلنے والی بات اس بار بھی پوری ہو جائے۔ واللہ اعلم بالصواب‘ جبکہ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ متعلقہ افسران کی طرف سے صاحب موصوف سے متعلق ریکارڈ میں بھی کچھ خوشگوار تبدیلیاں کر لی گئی ہیں۔ مبارک ہو!
صاف ستھرے لوگ!
چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ صاف ستھرے لوگوں کو ساتھ لے کر چلنا چاہتا ہوں‘ حالانکہ موصوف کے پاس صاف ستھرے لوگوں کی ایک بہت بڑی کھیپ پہلے ہی موجود ہے جس میں سید یوسف رضا گیلانی‘ راجہ اشرف پرویز اور رحمن ملک سمیت انکلوں کی شکل میں بے حساب صاف ستھرے پہلے ہی موجود ہیں اور انہیں مزید صاف ستھرے لوگوں کی کچھ ایسی ضرورت بھی نہیں ہے اور اگر ہو بھی تو انہیں دیکھ کر ان جیسے کئی مزید صاف ستھرے لوگ دستیاب ہو جائیں گے جبکہ ایک زرداری سب پہ بھاری کے سایۂ شفقت کے بعد پارٹی کو مزید صاف ستھرے لوگوں کی حاجت ہی کیا ہے؛ چنانچہ موصوف کو چاہیے کہ موجودہ صاف ستھرے لوگوں پر ہی قناعت کریں کیونکہ بہت زیادہ صاف ستھرے لوگوں کی وجہ سے پارٹی بدہضمی میں بھی مبتلا ہو سکتی ہے ع
ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں
اور اب صاحب طرز شاعر اکبر معصوم کا کچھ مزید تازہ کلام :
ہم کو ایک زمانے تک
روئیں گے ویرانے تک
گل کے ساتھ رہے گا کون
کھلنے سے مُرجھانے تک
درد نے دل کو ڈھونڈ لیا
پہنچا سانپ خزانے تک
شہر تو ہو جائے گا راکھ
آپ کے کچھ فرمانے تک
رُخ سے ترے چراغ تو کیا
جلتے ہیں پروانے تک
وحشت ہو تو ایسی ہو
دشت آئے دیوانے تک
بیت گئی معصومؔ بہار
رنگ آنکھوں میں آنے تک
۔۔۔۔۔۔
کام تو نے کیا تمام مرا
اے اُداسی تجھے سلام مرا
رات ہوں میں‘ چراغ ہوں‘ کیا ہوں
روشنی پوچھتی ہے نام مرا
زندگی سے تو ہارنے کا نہیں
کر کوئی اور انتظام مرا
ظرف ہے اور چیز‘ صبر ہے اور
بھرنے والا نہیں ہے جام مرا
گو تری ہی طرف ہے روئے سخن
پھر بھی تجھ سے نہیں کلام مرا
اُس کو میں بیوفا نہیں کہتا
ہے یہی اُس سے انتقام مرا
جب نشاں تک نہیں مرا معصومؔ
کیسے باقی رہے گا نام مرا
آج کا مطلع
شبہ سا رہتا ہے یہ زندگی ہے بھی کہ نہیں
کوئی تھا بھی کہ نہیں تھا‘ کوئی ہے بھی کہ نہیں