چار نومبر کو جمال دین والی، ڈہرکی اور کارساز ریلی کے دوران پیپلز پارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹو اور دوسرے مرکزی لیڈروں کی تقاریر سنتے ہوئے ایسے لگا کہ ان کے پاس بھٹو کے نام پر لوگوں کو بار بار فریب دینے کے سوا اپنی کارکردگی دکھانے کے لئے کچھ بھی نہیں ہے۔ سندھ کے دانشور شاید اسی لئے شکوہ کرتے نظر آتے ہیں کہ سندھ دھرتی کے ہاریوں، مزدوروں اور غریب لوگوں کو ورغلانے کے لئے پی پی پی کے مال بٹورنے والے لیڈروں کے پاس بھٹو کے نام کے سوا کچھ نہیں ہے۔ بلاول بھٹو اپنی ہر تقریر میں یہی کارنامہ بتاتے رہتے ہیں کہ سندھ میں جو تبدیلی لے کر آ یا ہوں وہ پورے ملک میں بھی لے کر آ رہا ہوں۔ اس تبدیلی کا اشارہ قائم علی شاہ کو ہٹانے کی طرف ہے جنہیں اپنے طور پر کچھ کرنے کی اجا زت ہی نہیں تھی۔ ایسا لگتا ہے کہ ان کی نظروں میں تبدیلی کا مطلب غریبوں کی حالت بہتر بنانا نہیں بلکہ قائم علی شاہ کی جگہ مراد علی شاہ اور پھر اگلی بارکسی اور شاہ کو آگے لانا ہے۔ بلاول کی تقریر سے لگتا تھا کہ ہم 8 سال سندھ کے ہاریوں اور نوجوانوں کی مت مارنے کے بعد ان کے لئے نیا وزیر اعلیٰ لے آئے ہیں اور جس طرح آپ نے یہ آٹھ سال روتے چیختے گزارلیے ہیں، باقی دو سال بھی نئے شاہ جی کی بھاگ دوڑ دیکھتے ہوئے گزار لیں۔ اس کے بعد جب نئے انتخابات ہوںگے تو آپ نے پہلے کی طرح ہمیں نہیں بلکہ بھٹوکو ووٹ دینے ہیں، اس لئے آپ جانیں اور بھٹو خاندان کے شہید جانیں، ہم نے آپ کے لئے اب تک کیا ہی کیا ہے کہ اس کے بدلے میں آپ سے ووٹ مانگ سکیں۔ ہم نے بھٹو اور بی بی شہید کو اسی مقصد کے لیے آگے رکھا ہوا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ریلی کے شرکاء اور جمالدین والی اور ڈہرکی کے جلسے میں عوام کو متحرک اور اپنی جانب مائل کرنے کے لئے اپنا کوئی کارنامہ یا اچھا کام بتانے کی بجائے وہ بھٹو کے نام کی بانسری بجا کر ہی لوگوں کو سلاتے رہے۔
پیپلز پارٹی کے ورکروں نے کبھی سوچا ہے کہ ان کا اور ان کے بھٹو کا دشمن کون ہے؟ سندھ کے ہاریوں اورکراچی سمیت تھر میں بسنے والوں نے پانی کی بوند بوند کو ترستے ہوئے کبھی سوچنے کی کوشش کی ہے کہ وہ کون ہیں جو بھٹو کے نام کو بدنام کر رہے ہیں؟ ذوالفقار علی بھٹوکی ایمانداری مسلمہ تھی۔ جب بھٹو صاحب نے کنونشن لیگ سے استعفیٰ دینے کے بعد جنرل ایوب خان کی مخالفت شروع کی تو اس وقت کی حکومت نے اپنا پورا زور لگایا کہ کسی طرح بھٹو کی کرپشن کو سامنے لا سکے، لیکن سوائے لاڑکانہ میں ٹریکٹروں کے غلط استعمال کے اور کوئی الزام نہ لگا سکی۔ پھر وہ کون ہیں جنہوں نے بھٹو کے نام اورکرپشن کو لازم و ملزوم کر دیا؟ وہ کون ہے جس نے بھٹو خاندان کے ماتھے پر سرے محل اور سوئزر لینڈ کی داستانیں رقم کر دیں؟ جنرل ضیاالحق نے تو بھٹوکو صرف جسمانی طور پر ختم کیا، لیکن نظریاتی طور پر بھٹوکو اپنی ہی بغل میں بیٹھے ہوئوں نے چاٹ لیا ہے۔ سندھ میں جس دن کرپشن کا اصل سمندر ابلا وہ ہوش ربا حقائق سامنے آئیں گے کہ دنیا دنگ رہ جائے گی۔ بھٹو
کے نام پر موجودہ لیڈروں کو ووٹ دینے والوں نے سوچا کہ کیا ہمارا بھٹو ایسا ہو سکتا تھا کہ کسی مسلمان دوست ملک کے وزیر اعظم کی اہلیہ مظفرگڑھ میں سیلاب زدہ علاقوںکا دورہ کرتے ہوئے غریب متاثرین کی حالت زار دیکھ کر اپنے گلے میں پہنا ہوا قیمتی ہار اتارکر حکومت پاکستان کے حوالے کر دے کہ اسے بیچ کر ان بے سہارا لوگوں کی مدد کی جائے اور بھٹو یہ ہار اپنی بیگم کو دے دیں، لیکن صد افسوس! بھٹو کے نام پر حکومت کرنے والا پیپلز پارٹی کا وزیر اعظم وہ ہار اپنی بیگم کے بیگ میں ڈال کر ہڑپ کرگیا۔ پھر ہمت دیکھیے کہ وہی سابق وزیر اعظم بلا ول بھٹوکے ساتھ ٹرک پرکھڑے ہوکر غریبوں اورکسانوں کی زبوں حالی کی باتیں کر رہا ہے! کیا پی پی پی یہ ثابت کرنا چاہتی ہے کہ ہمارے پاس ایک سے بڑٖھ ایک کرپٹ اور بد دیانت موجود ہے جو ہمیشہ کی طرح ہمارے ساتھ ٹرک پر سوار رہے گا؟ شاید اسی لئے کہا جاتا ہے کہ'کند ہم جنس با ہم جنس پرواز‘۔ شاید اسی پس منظر میں نواز لیگ سے میثاق جمہوریت کے نام پر اتحاد کیا گیا تھا۔ لوٹ مارکا ہرکھرا پی پی پی کی جانب جاتے دیکھ کر بھٹوکی روح جس طرح قبر میں تڑپتی ہوگی، جیالوں نے کبھی سوچا بھی نہیں ہوگا۔بھٹو قبر میں بھی یہ سوچ کر بے قرار ہو جاتے ہوں گے کہ گز شتہ 8 برسوں سے سندھ میں اور پانچ سال مرکز میں حکومت کرنے کے بعد بھی میرے نام پر لوٹ مار کرنے والوں اور میرے نام پر غریبوں سے ووٹ چھیننے والوںکے پاس عوام کو میرے نام کے سوا بتانے کے لئے کچھ نہیں ہے۔ بلاول بھٹو اپنی تقریر میں جب کہہ رہے تھے کہ روٹی مہنگی اور خون سستا ہے، غریب لوگ بھوک سے مر رہے ہیں، تھر اورکراچی میں لوگوں کو پینے کا پانی نہیں مل رہا، لیکن مت گھبرائو پی پی پی جب پھر آپ کے ووٹوں سے جیت کر حکومت بنائے گی تو غربت اور جہالت کو ختم کردے گی، آپ کو نوکریاں دے گی، ہسپتال اور سکول بنائے گی، سندھ بھر میں امن و امان قائم کیا جائے گا، تو سننے والوں کو ایک لمحے کے لئے ایسا لگا ہوگا کہ یہ الفاظ پی پی کے چیئر مین کے نہیں بلکہ حکومت کے کسی مخالف رہنما کی جانب سے بولے جا رہے ہیں۔ جب بلاول بھٹو غریبوں کی زبوں حالی کا نوحہ بیان کر رہے تھے، ایک ٹی وی چینل پر پی پی پی کے ظفر لغاری اور نواز لیگ کے نہال ہاشمی مل کر اپنے آئندہ کے مشترکہ لائحہ عمل کے مطابق تحریک انصاف کے آفریدی کی بار بار یہ کہتے ہوئے کلاس لے رہے تھے کہ تحریک انصاف نے اب تک خیبر پختونخوا میںکیا ہی کیا ہے؟ وہ کون سی تبدیلی ہے جس کا عمران خان نے وعدہ کیا تھا؟ شہریارآفریدی اینکر سمیت ان دودبنگ آوازوں سے گھبرایا ہوا تھا یا اسے کہیں جانے کی جلدی تھی کہ وہ ان کے سامنے ڈھیر ہونے لگے۔ کیا وہ نہیں جانتے تھے کہ تحریک انصاف کی تین سالہ صوبائی حکومت کے مقابلے میں گرج دار آواز میں بولنے والے گوئبلزکے استاد مرکز اور صوبوں میں مجموعی طور پر18سال حکومت کر چکے ہیں، اگر وہ ان سے پوچھ لیتے کہ ہماری تین سالہ صوبائی حکومت جو جماعت اسلامی اور شیر پائو کے ووٹوں سے قائم ہوئی ہے، اس کے مقابلے میں آپ اپنی دو تہائی اکثریت والی حکومتوں سے غیر جانبدارانہ موازنہ کر لیں تو وہ بغلیں جھانکنے لگتے۔
تحریک انصاف کا کوئی بھی لیڈر ان سے پوچھ سکتا ہے کہ آپ یہ بتائیں،کیا ملک بھر میں اندھیروں کا راج ختم ہو گیا ہے؟ لوڈشیڈنگ پر آپ نے اپنے وعدوں کے مطابق قابو پا لیا ہے؟ رات کو لاہور یا ملک کی کسی بھی شاہراہ پر سفر کے لئے نکلیں تو چاروں جانب پھیلے ہوئے سیاہ اندھیروں میں ہر طرح کی سواری استعمال کرنے والے گہرے گڑھوں اور کھڈوں میں گرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اورنج ٹرین پر آپ ڈھائی سو ارب روپے خرچ کرنے کی بجائے اگر سولر سسٹم پر خرچ کرتے تو کم از کم ملک کی سڑکیں اور شاہراہیں تو روشن ہو جاتیں۔ کیا سندھ اور پنجاب سمیت ملک بھر سے آپ نے بیروز گاری کا خاتمہ کر دیا ہے یا ا س میں کچھ کمی کی ہے؟ اگر جھوٹ بولیں تو آئی ایم ایف کی سربراہ کرسٹین لاگارڈے کا وہ تبصرہ سامنے رکھ دیں جس میں اس نے ان کی معاشی ترقی کے دعوئوں کی اینٹ سے اینٹ بجا کر رکھ دی ہے!