تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     08-11-2016

قاتل ہوائیں

گزشتہ دنوں جنوبی پنجاب سے لے کر دلی تک‘ دھند اور زہریلے مادوں کا جو عذاب اترا‘ اس نے دونوں ملکوں کی بڑی آبادی کو ‘پھر سے یاد دلایا کہ ہمارے ملک ‘جنگ سے زیادہ امن اور ماحولیات کے رشتوں میں جکڑے ہوئے ہیں۔ جنگ میںکسی کی جیت یا ہار اور مشترکہ تباہی‘ کسی ایک فریق کے لئے فائدہ مند نہیں۔ تباہ کاری میں دونوں کا بھرپور نقصان ہوتا ہے۔ کئی ہفتوں سے پاکستان اور بھارت دونوں جنگی جھڑپوں میں الجھے ہیں اور ایک دوسرے کو یکساں نقصان پہنچا رہے ہیں۔ سرحدوں کے قریب بھارتی آبادی اپنی فصلوں اور دیہات سے محروم ہو کر‘ بے گھری کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ دونوں طرف کی آبادی ٹیلی ویژن کے سامنے آ کر ایک ہی بات کہتی ہے کہ ہم اپنے وطن کے لئے سب کچھ قربان کرنے کو تیار ہیں۔ کم و بیش یہی الفاظ پاکستان کے اجڑے ہوئے کسان کہتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ دونوں ملکوں کے بے بس کسانوں کے یکساں الفاظ‘ ان کے ایک ہی جیسے مسائل کا پتہ دیتے ہیں۔ جو حکمران سرحدی جھڑپوں کے فیصلے کرتے ہیں‘ وہ اپنے اپنے عوام کے لئے کسی خوشی یا خوشحالی کا راستہ نہیں نکالتے۔ تباہی و بربادی ‘ فصلوں کی پامالی اور گھروں کی توڑپھوڑ‘ سرحدوں کے دونوں طرف ایک جیسے اثرات کا باعث ہیں۔ ایک بھارتی مضمون نگار دونوں ملکوں پر ‘نازل ہونے والے مشترکہ عذاب کا ذکر یوں کرتے ہیں۔
''قدرت نے یہ دنیا انتہائی خوبصورت بنائی تھی لیکن جس طرح سے یہ قدرتی آفات میں جکڑ کر رہ گئی ہے ‘ اس سے ہماری دنیا میں جینا دوبھر ہو گیا ہے۔ بے انتہا گرمی پڑنا‘ مسلسل بارش اور آئے دن‘ آنے والے طوفانوں کی تباہی پر اگر غور کیا جائے تو اس کی اصل وجہ‘ حضرت انسان کے کرتوت ہی دکھائی دیں گے۔ جاڑے کا آغاز ہوتے ہی‘ جس طرح سے آلودگی نے قہربرپا کر رکھا ہے‘ اس سے سانس لینا بھی مشکل ہو رہا ہے۔ دہلی میں اب تو یہ نوبت آ گئی ہے کہ یہاں فضائی آلودگی ‘اس حد تک پہنچ گئی ہے کہ لوگوں کاسانس لینا بھی مشکل ہو گیا۔ انہی حالات کے پیش نظر دہلی حکومت کو ایمرجنسی کے طور پر کچھ احتیاطی قدم اٹھانے پر مجبور ہونا پڑا۔
ایسا نہیں ہے کہ یہ صورتحال دہلی اور اس کے آس پاس کے علاقوں تک محدود ہے۔ ڈبلیو ایچ او کی رپورٹ کے مطابق‘ 10 ہندوستانی شہروں میں آلودگی کی سطح انتہائی خراب ہے۔ 94 ہندوستانی شہروں میں ہوا کی عمدہ کوالٹی نہیں ہے۔ اس کی وجہ شہروں کی بڑھتی ہوئی آبادی‘ گاڑیوں کی تعداد میں اضافہ اور کوڑا کرکٹ جلانا ‘ایک بڑی وجہ ہے۔ مرکزی آلودگی کنٹرول بورڈ کے اعداد و شمار کے مطابق دہلی اور اس کے آس پاس ہوا کا کوالٹی انڈیکس‘ 500 کے قریب پہنچ گیا ہے۔ یہ صورتحال گزشتہ کئی روز سے جاری ہے ‘جس کے سبب دھند کی بنا پر فضائی اور سڑکوں پر آمدورفت بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ اس کے نتیجے میں جہاں ایک طرف ایکسیڈنٹ ہو رہے ہیں‘ تو دوسری جانب سانس کی بیماریوں میں بے تحاشہ اضافہ ہو رہا ہے۔ سانس کی بیماریوں کے مریض‘ جن میں بچوں اور بوڑھوں کی تعداد زیادہ ہے‘ علاج کے لئے ہسپتالوں کا رخ کررہے ہیں۔ ستمبر اور اکتوبر میں جس طرح سے ڈینگو اور چکن گنیا کے قہر نے دہلی کے باشندوں کو ایک تشویش میں مبتلا کر دیا تھا اور یہ امید کی جا رہی تھی کہ جاڑا شروع ہونے کے بعد‘ ان بیماریوں سے نجات مل جائے گی لیکن نومبر کا مہینہ شروع ہوتے ہی‘ فضائی آلودگی نے ایک طرح کا نیا قہر برپا کر دیا ہے۔ حالات کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے ‘ دہلی حکومت نے تین روز تک تمام سکول بند کر دیئے ہیں۔ پانچ دنوں تک تمام تعمیراتی کاموں کو روک دیا گیا۔ 10 دنوں کے لئے جنریٹر چلانے پر پابندی عائد کر دی گئی اور بدرپور بجلی پلانٹ کو بھی 10 روز کے لئے بند کر دیا گیا۔ اس کے علاوہ یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ سڑکوں پر پانی کا چھڑکائو کیا جائے گا تاکہ فضا میں دھول وغیرہ نہ شامل ہونے پائے۔ فضا میں جو دھند چھائی ہوئی ہے‘ اس کو ختم کرنے کے لئے مصنوعی بارش کے امکان پر بھی غور کیا جا رہا ہے۔
یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ فضائی آلودگی کے باعث‘ لوگوں کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ تقریباً ہر سال ایسی صورتحال پیدا ہوتی ہے کہ جب فضائی آلودگی حد درجہ بڑھ جاتی ہے۔ پرانی ڈیزل گاڑیوں کے چلنے‘ پٹاخے چھوڑنے‘ فصل کاٹنے پر کھیتوں کو جلانے کے بعد‘ دھند کی ایک پرت فضا میں معلق ہو جاتی ہے‘ جس سے ہوا میں ایسے کیمیائی اجزا شامل ہوتے ہیں‘ جو سانس کی بیماریوں کے علاوہ کینسر کا سبب بن سکتے ہیں۔ ان اثرات کو جانتے ہوئے بھی آلودگی روکنے کے لئے کوئی ایسا مثبت قدم نہیں اٹھایا جا رہا ہے‘ جس کے باعث انسان صاف ستھری ہوا میں ‘سانس لے سکے۔ فضائی آلودگی سے نجات پانے کے لئے فوری طور پر مثبت قدم نہیں اٹھائے گئے تو یہ دنیا بہت جلد جہنم بن جائے گی۔‘‘
کچھ اسی طرح کی باتیں پاکستان کے اہل قلم لکھ رہے ہیں۔وائس آف جرمنی میں امتیاز احمد لکھتے ہیں۔
''دھند اور زہریلے دھوئیں نے لاہور اور اس کے گرد و نواح کے علاقے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے جب کہ نئی دہلی کا حالیہ دیوالی کی آتش بازی کی وجہ سے لاہور سے بھی برا حال ہے اور وہاں سترہ سو سے زائد اسکول بند کر دیے گئے ہیں۔پاکستانی شہر لاہور اور بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں دھند اور زہریلے دھوئیں کے باعث سانس تک لینا دشوار ہو چکا ہے۔ شدید دھند کی وجہ سے پاکستانی موٹروے پر حادثات ہونے کی وجہ سے کم از کم بیس افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ لاہور سمیت پاکستانی صوبہ پنجاب کے متعدد شہر گزشتہ چند دنوں سے دھند کی شدید لپیٹ میں ہیں۔ میٹرولوجسٹ محمد حامد نے بتایا ہے کہ اس مرتبہ ''دھند بہت ہی غیر معمولی اور زہریلی ہوا پر مشتمل ہے۔‘‘ڈاکٹروں کے مطابق‘ اس دھند اور دھوئیں کی وجہ سے‘ شہریوں کی آنکھوں میں جلن اور نظام تنفس کے مسائل میں اضافہ ہو گیا ہے۔ طبی ماہرین کی طرف سے شہریوں کو زیادہ سے زیادہ گھروں کے اندر رہنے یا پھر منہ پر ماسک پہن کے باہر نکلنے کی ہدایات کی جا رہی ہیں۔لاہور میں شوکت خانم کینسر ہسپتال کی ایک طبی ماہر‘ صبا ممتاز کا کہنا ہے کہ موجودہ دھند کی لہر‘ ان افراد کے لئے زیادہ خطرناک ہے، جو پہلے ہی سے دمے کے مرض میں مبتلا ہیں۔ ماہرین کے مطابق لاہور میں جاری تعمیرات کی دھول‘ کچرے کے جلائے جانے‘ فیکٹریوں کے دھوئیں اور سڑکوں پر دھواں پھینکتی ہوئی ٹریفک‘ اس حالت کے ذمے دار ہیں۔(باقی کل ملاحظہ فرمائیں)

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved