تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     08-11-2016

پھر وہی … شادی خانہ آبادی!

بے نظیر بھٹو کے سپوت اور ذوالفقار علی بھٹو کے نواسے کو اللہ نے اِتنی دانش سے نوازا ہے کہ زندگی کی ایک بنیادی ضرورت کو بر وقت محسوس کرنے پر مائل ہوں اور قوم کے سامنے اِس کا اظہار کرنے میں بھی ہچکچاہٹ سے کام بھی نہ لیں۔ اوباڑو میں میڈیا سے گفتگو کے دوران اپنی شادی کے معاملے پر شرماتے شرماتے بلاول بھٹو نے جو کچھ کہا وہ ہم جیسوں کے لیے مصروفیت کا سامان کرگیا۔ 
بلاول بھٹو نے پہلے تو یہ کہا کہ بہت سی ''آفرز‘‘ موجود ہیں مگر ابھی کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا۔ پھر یہ کہا کہ مجھ سے شادی کرنے کی خواہش مند لڑکی کو بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ میڈیا کے نمائندے یہ سن کر سوچ میں ڈوب گئے کہ ذکر ما قبلِ شادی مشکلات کا ہو رہا ہے یا ما بعدِ شادی مشکلات کا! بھلا ہو بلاول بھٹو کہ انہوں نے اگلے ہی لمحے میں وضاحت کردی کہ بات شادی سے پہلے کی مشکلات کی ہو رہی ہے۔ اور مزید وضاحت کی کہ وہ اپنی بہنوں کی پسند کے مطابق شادی کریں گے گویا جو کوئی بھی بلاول کی دلہن بننے کی خواہش مند ہے اُس کے لیے لازم ہے کہ بختاور اور آصفہ پر مبنی سلیکشن بورڈ سے کامیابی کی سند حاصل کرے۔ ساتھ ہی بلاول نے یہ بھی کہا کہ ان کی بہنوں کو راضی کرنا یعنی اُن کی پسندیدگی کے معیار پر پورا اترنا جُوئے شیر لانے کے مترادف ہے! 
بلاول کے منہ سے شادی کی بات کا نکلنا تھا کہ ملک بھر میں سوچنے والے سوچنے بیٹھ گئے۔ اٹکل کے گھوڑے دوڑائے جانے لگے۔ اندازے قائم کرنے کا مقابلہ سا شروع ہوگیا۔ رائے دینے والے کمر کس کر میدان میں آگئے۔ مشوروں اور تجاویز کا دریا بہنے لگا۔ چینلز والوں کو بھی جیسے من کی مراد مل گئی۔ ٹی وی رپورٹرز کیمرے اور مائکروفون سنبھال کر سڑکوں پر آگئے اور بلاول کی شادی سے متعلق ''واک پاپس‘‘ لینا شروع کردیا۔ عوام کو بھی تو کوئی نہ کوئی شغل میلہ چاہیے۔ خاص طور پر خواتین کو۔ بلاول کی ہونے والی دلہن کیسی ہونی چاہیے، بلاول کو کیسی لڑکی پسند کرنی چاہیے اور جو لڑکی بلاول کو پسند آجائے وہ اپنے اندر کون کون سی خوبیاں پیدا کرے، شادی کب کرنی چاہیے وغیرہ وغیرہ۔ مشوروں کا انبار لگ گیا۔ بلاول کی شادی کے بارے میں چینلز پر اپنی رائے دینے والی بیشتر خواتین کا کہنا تھا کہ اُنہوں نے بہنوں کی پسند سے شادی کرنے کی بات کرکے یہ بتادیا ہے کہ وہ اپنے خاندان کو کس قدر اہمیت دیتے ہیں اور اقدار کا انہیں کس حد تک احساس ہے۔ 
اِس پر ہمیں 1997 میں ریلیز ہونے والی ہالی وڈ مووی ''ایئر فورس ون‘‘ یاد آگئی۔ یہ فلم امریکی صدر کے ذاتی طیارے ایئر فورس ون کی ہائی جیکنگ کے ڈرامے پر مشتمل ہے۔ طیارے پر ''مدر رشیا‘‘ کے دیوانوں کا قبضہ ہوجانے کے بعد امریکی صدر جان مارشل (ہیریسن فورڈ) طے شدہ طریق کار کے مطابق ''ایسکیپ پوڈ‘‘ کی مدد سے جہاز سے نکل جانے کے آپشن کو نظر انداز طیارے ہی میں چھپ جاتے ہیں۔ اس بات پر وائٹ ہاؤس میں قدرے ناپسندیدگی کا اظہار کیا جاتا ہے یعنی کہ امریکی صدر کو طیارے سے نکل جانا چاہیے تھا، اپنی جان خطرے میں ڈالنے کا کوئی حق نہیں۔ باضابطہ طے شدہ طریق کار کو نظر انداز کرنے پر اُن کے خلاف کارروائی بھی کی جاسکتی ہے۔ اُدھر طیارے میں اِدھر اُدھر چھپ کر صدر جان مارشل تمام یرغمالیوں کو چُھڑوانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اِس دوران کئی بار اُن کے منہ سے یہ جملہ ادا کروایا گیا کہ جب تک میری فیملی (بیوی اور بیٹی) طیارے پر ہے، میں باہر نہیں جاؤں گا! یعنی فلم کے ذریعے امریکی عوام کو یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی کہ جسے وہ صدر منتخب کرتے ہیں وہ کس حد تک ''فیملی مین‘‘ ہوتا ہے! یہ اور بات ہے کہ عوام کی پسند کے مطابق منتخب ہوکر وائٹ ہاؤس میں قدم رکھنے والے کو کمزور ممالک کی اُن لاکھوں فیملیز کی بھلائی یاد نہیں رہتی جن پر امریکی لڑاکا طیارے جدید ترین بم آزماتے رہتے ہیں! 
ہمارے ہاں اپوزیشن اُن لوگوں کے ہاتھوں کھلونا بنی ہوئی ہے جو تنہائی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ آپ نے بھی عالمی برادری میں پاکستان کی ''تنہائی‘‘ کی بات ضرور سنی ہوگی۔ ملک کی تنہائی اُسی وقت دور ہوسکتی ہے جب اِس کا نظم و نسق چلانے کے خواہش مند اپنی تنہائی دور کرنے کا سوچیں! عمران خان کا گھر دو مرتبہ بس کر اجڑ چکا ہے۔ اب وہ پھر تنہائی کا شکار ہیں۔ سابق صدر آصف علی زرداری بھی بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد سے مسلسل تنہائی کی زد میں ہیں۔ شیخ رشید تو ''کنفرمڈ بیچلر‘‘ ہیں! 
اچھا ہے کہ بلاول بھٹو اپوزیشن کی صفوں میں پائی جانے والی ''بیچلرز لیگ‘‘ سے نکل جائیں۔ اِس میں اُن کی بھلائی تو ہے ہی، قوم کی بھلائی زیادہ ہے۔ 
بلاول کی شادی کا معاملہ میڈیا پر اچھلتے ہی ستاروں کی چال پر نظر رکھنے والوں کی بھی چاندی ہوگئی۔ انہوں نے قیاس کے گھوڑے دوڑانا شروع کردیا۔ معروف ایسٹرولوجسٹ سامعہ خان نے کہا کہ بلاول نے اگر 2019 سے قبل شادی کی تو نبھانا مشکل ہوجائے گا۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ بلاول اپنی پرائیویسی میں مداخلت پسند نہیں کرتے اس لیے اُن کی شریکِ حیات کو بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ہم عرض کرنا چاہیں گے کہ جب بلاول کو اپنی پرائیویسی میں مداخلت پسند نہیں تو کیا وہ 2019 کے بعد یہ روش ترک کردیں گے یعنی پرائیویسی کے دروازے پر ''اوپن ٹو آل‘‘ کا بورڈ لگادیں گے؟ 
بہت سوچنے کے بعد بھی ایک بات ہم سمجھ نہیں پائے کہ ہمارے ہاں اپوزیشن کی احتجاجی تحریک بالآخر ذاتی معاملات تک سمٹ کر کیوں رہ جاتی ہے۔ جب سے تحریک انصاف نے دھرنوں کی سیاست شروع کی ہے، احتجاج کرنے والوں کے ہجوم میں ''جوڑا سازی‘‘ کا رجحان بھی پروان چڑھتا گیا ہے! عمران خان نے اگست 2014 میں جب اسلام آباد کے ریڈ زون میں دھرنے کا میلہ سجایا تھا تب آسمانوں کے ساتھ ساتھ زمین پر بھی جوڑے بنائے جانے کا عمل شروع ہوگیا تھا! اور اس عمل کی انتہا یہ تھی کہ جب دھرنے کا زور ٹوٹنے لگا تو تحریکِ انصاف کے چیئرمین نے ''گرتی ہوئی دیواروں کو ایک دھکا اور دو‘‘ کے مصداق یا ''بھاگتے چور کی لنگوٹی سہی‘‘ کی مد میں دوسری شادی کر ڈالی تھی! مقصود شاید یہ تھا کہ کوئی نہ کہے کہ دھرنے کی کوکھ سے کچھ برآمد ہی نہ ہوا! اور کچھ نہ سہی، دھرنے کے دولھا کو دلھن تو نصیب ہوگئی۔ اِس گئے گزرے دور میں اس قدر ''انقلاب‘‘ بھی برپا ہوجائے تو غنیمت جانیے! 
ہماری دعا ہے کہ بلاول کو شادی کے لیے کوئی ملک گیر تحریک نہ چلانی پڑے، دھرنا نہ دینا پڑے۔ یہی دعا شیخ رشید اور آصف علی زرداری کے لیے بھی ہے۔ جسے شادی کرنی ہے وہ کرلے ... ''احتجاجی تحریک برائے شادی‘‘ کے نام پر اس قوم کا ناطقہ بند نہ کرے! 
٭٭٭

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved