شاید حیرت سے فرستادوں کو انہوں نے دیکھاہو۔ ان کے چہرے پہ شاید یہ لکھا ہو ۔ کیا مجھ سے پوچھتے ہو کہ میر ارب کون ہے؟ میرے ماتھے پہ کیا لکھا ہے ؟میرے ماتھے پہ کیا لکھا ہے ؟
ایک ملاقات اسلم کولسری سے طے تھی کہ دل کا حال وہ کہہ دیں ۔داستان مگر وہ ساتھ لے گئے۔ کولسری صاحب اللہ کے سچّے بندے تھے ۔ اس کے بندوں سے غیر مشروط محبت کرنے والے۔ آدمیت کے احترام سے ان کا تانابانا بنا گیا تھا۔ سرتاپا وہ الفت تھے، سرتاپا انس ؎
خدا کے بندے تو ہیں ہزاروں ، بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے
میں اس کا بندہ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہوگا
کہا جاتاہے کہ غمِ جاناں کو میر تقی میرؔ نے غمِ دوراں میں یوں آمیز کیا تھا کہ ایک ہوگئے۔ کہانیاں سچی بھی ہو سکتی ہیں، مشاہدے بھی ۔ د ل ہمیشہ یقین نہیں پاتا۔کولسری صاحب کو اپنی آنکھوں سے ہم نے دیکھا ۔ شاعری ہی نہیں ، ان کے کردار میں بھی یہ معجزہ برپا ہوا۔ دیکھا یہ ہے کہ صداقت کو پانے کی تڑپ کم ہوتی ہے ۔قربان ہو جانے کی بھی۔ ہو بھی تو ہمیشہ منزل تک نہیں پہنچتی ۔ اس راہ میں بے شمار بیاباں ہیں او ربے شمار پھندے ؎
طلسمِ خوابِ زلیخا وہ دامِ بردہ فروش
ہزار طرح کے قصّے سفر میں ہوتے ہیں
میرؔ کا نقش دائمی ہے ۔ جب تک گردشِ لیل و نہار قائم ہے ، دلّی کے فرزند کی یاد باقی رہے گی۔خود اس کا سبب بیان کر ڈالا تھا ؎
مصرعہ کبھو کبھو کوئی موزوں کروں ہوں میں
کس خوش سلیقگی سے جگر خوں کروں ہوں میں
اعلیٰ ترین ترجیح طے کر لینے ، اس سے ہم آہنگ ہوجانے میں اکثر کچھ آنچ کی کسر اکثر رہ جاتی ہے ۔ اکثر کیا تقریباً ہمیشہ ہی ۔ نادر و نایاب وہ لوگ ہوتے ہیں ، پہلی ترجیح کا جوتعین کر لیتے ہیں ۔ پھرحیات کے شب و روز اس پہ قربان کر دیتے ہیں ؎
حاصلِ عمرِ نثارِ رہِ یارے کردم
شادم از زندگیئِ خویش کہ کارے کردم
زندگی بھر کا حاصل رہِ یار پہ نثار کر دیا۔ اپنی زندگی کے انجام سے شاداں ہوں کہ بڑا کام کر ڈالا۔
عظیم شاعر ، لافانی مدبر اور سپہ سالار تو کیا، کسی بھی شخص کی، کسی ایک دھوبی، موچی اور حجام کی مکمل سوانح بھی لکھی نہیں جا سکتی ۔ کچھ تاریخی اور بے مثال استثنیٰ ان کے سوا ہیں ، مثلاً سیدنا ابو بکر صدیقؓ۔ رحمتہ للعالمینؐ کے ایک رفیق خدمت میں حاضر ہوئے ۔ عرض کیا: تین باغ رکھتا ہوں حضورؐ، جی میں یہ ہے کہ سب کے سب صدقہ کر دوں ۔ فرمایا: نہیں ۔ عرض کیا: دو یا رسول اللہ؟ ارشاد کیا: نہیں ۔ گزارش کی : ایک عدد ۔ اجازت مرحمت کی ۔ سب اصول آخری کتاب میں ہیں ۔ بھید پالینے والے کم دیکھے گئے کہ پیمبرؐ کے بغیر، سیرت میں انہماک کے بغیر ان کا ادراک ممکن نہیں۔ فرمان پہلے ہی واضح تھا: اس خیرات سے ایک مسکراہٹ اچھی، جو تاسف میں مبتلا کرے ۔ آدمی کا معاملہ مختلف ہے ۔ خیر یا شر، ولولہ جاگ اٹھے تو قابو میں نہیں رہتا۔ تھام لینے کو ظرف درکار ہوتاہے ، علم کا وہ درجہ درکار ہوتاہے ، عمل سے جو صیقل ہوتاہے۔ وہ سیدنا ابو بکرصدیق ؓ کو عطا ہوا تھا۔ ایک سے ایک اہلِ مرتبہ تھے، تاریخ کے دوام میں جنہیں جینا تھا ۔یہ حق صرف ابوبکرؓ کوبخشا گیا کہ سب کچھ لٹا دیں ۔ اللہ کے سچے رسولؐ اور پروردگار ان کے لیے کافی تھے ۔ باقی سب کے لیے حکم یہ تھا کہ کچھ نہ کچھ بچا رکھیں ۔
کم کم آدمی ہوتے ہیں ، جو سب کچھ لٹا سکتے ہیں ۔ اس بلندوبالا ، عظیم و برتر سطح پر نہیں ، جو ''دونوں میں سے دوسرے ‘‘ کا اعزاز تھا ۔
بقا کی جبلت بہت طاقتور ہے ۔ فرمایا: تمام زندگیوں کوبخلِ جان پر ہم نے جمع کیا ہے۔ زندگی اپنی حفاظت کرتی ہے ۔ بھوک سے مرتے آدمی کو اجازت دے دی گئی کہ جان بچانے کو تھوڑا ساحرام بھی نگل لے۔ آدمی ہی نہیں ، قدرت کو بھی زندگی عزیز ہے ۔
آدمی میں، آدمی کے لیے بغض و عناد رکھا گیا ۔ آدمی میں آدمی کے لیے الفت و انس ۔چند پتھر دلوں کے سوا، کون ہے ، جس نے کبھی محبت نہیں کی۔ کون ہے ، جس کو سایہ درکار نہیں ۔ کون ہے ،جس کا تکیہ کبھی آنسوئوں سے بھیگ نہ گیا ہو۔ اس محبت کو زندگی مگر کم ہی بنا سکتے ہیں ۔ باقی حسرت کی تصویر ہو جاتے ہیں ۔ شاعری کیا کرتے ہیں ۔ بانسری بجایا کرتے ہیں ۔ کہانی سنایا کرتے ہیں ؎
دو حرف تسلّی کے جس نے بھی کہے اس کو
تصویر دکھا ڈالی ، افسانہ سنا ڈالا
اسلم کولسری ان میں سے ایک تھے، ایک شب جنہوںنے اپنی زندگی نذر کرنے کا فیصلہ کیا۔ زندگی کے آخری سانس تک اس فیصلے پر وہ قائم رہے اور کبھی نہ پچھتا ئے۔
زندگی دوبارہ نہیں ملتی ۔ ایک پل بھی جس کا کبھی لوٹ کر نہیں آتا۔ سانس سانس اور سراسر جو لبریز ہوتا ہوا خزانہ ہوسکتی ہے اور کسی صحرا میں بہتا ہوا چشمہ بھی ۔ چمن درچمن تو کیا جس سے ایک پائیں باغ بھی آباد نہ ہو ۔ایک گل بھی نہ کھلے ۔ دونوں ہتھیلیوں پہ رکھ کر اسلم کولسری نے یہ زندگی پیش کر دی اور یہ کہا ؎
سو اب بزمِ تمنا میں طائرانہ چہک
ترے دماغ پہ ہلکا سا بوجھ تھا نہ مرا؟
یہ فیصلہ صادر کرنے سے پہلے کے شب و روز ، کس قیامت سے وہ گزرے ، بس ایک بار ایک اشارہ سا کیا ؎
ابھی تو گونج رہے ہیں بدن میں شعلے سے
ابھی تو خام ہے اندازِ عاشقانہ مرا
اقبالؔ نے یہ کہا تھا: خیالِ خام کو صیقل کرنے کے لیے سینے میں تھامنا پڑتا ہے ۔ تھامے رکھنا ہوتاہے ۔ تب وہ جلا پاتاہے ۔پھر صدیوں تک اس کی گونج اور اس کاحسن باقی رہ سکتاہے ۔ اسلم کولسری کی شاعری پہ تو اظہارالحق بات کریں کہ اس دریا کے شناور ہیں ۔مرحوم کی شخصیت میں کارفرما اور آشکار تہہ در تہہ جمال کاحق ہے کہ مجھ سے عامی بھی اظہارکریں ۔
عمار مسعود نے ایک شام کہا: آپ کے شعبے کو ڈھنگ کا کوئی آدمی درکار ہے ؟ عمار کی بات کھری ہوتی ہے ۔ عرض کیا : ایک پروف ریڈر ۔ تقرر اور تنخواہ کا تعین ہوا تو متعلقہ ذمہ داری سے میں سبکدوش تھا ۔ مجوّزہ مشاہرے پہ عمار صاحب رنجیدہ ہوئے۔ کہا : اس نجابت اور اس ادراک سے یہ سلوک؟ دفتر والوں کا اللہ بھلا کرے ۔ التجا کی تو فوراً ہی مان گئے ۔ پروف ریڈر نہیں ، یکے از مدیرانِ گرامی!
اس کے بعد کی کہانی مجھ سا معمولی قلم کار نہیں لکھ سکتا۔ اسلام آباد کے اس باغباں کی طرح ،ہر صبح ،ایک زمانے تک بارہا جسے گل بوٹوں سے باتیں کرتے دیکھا گیا، اپنے فرض پہ وہ جان چھڑکتے رہے ۔ ہر روز ، ہر صبح ، ہر شام ۔ ٹیلی فون پر مودبانہ ، میں ان سے عرض کرتا : میر اکالم پڑھ کر سنا دیجیے ، کولسری صاحب۔ نماز پڑھنے یا سگریٹ پینے اگر وہ دفتر سے باہر ہوتے تومیں انتظار کرتا، خواہ کتنی ہی دیر کرنا پڑے ۔
ایک ایک لفظ موتی کی طرح اٹھاتے ۔ قدرے بے تکلفی ہو چکی تو ہر بارہر تحریر میں دو تین متبادل تجویز کرتے ۔ ان کی تجویز رد کرنے کا سوال ہی نہ تھا۔ نثر نگار اور دانشور ، مغالطے کا شکار ہو جاتے ہیں ۔ شاعر ایسا لفظ کا پارکھ کوئی نہیں ہوتا۔ بس وہی ایک پورا جوہری ہوتاہے ۔
یہ مرحوم کے بے شمار محاسن میں سے ایک تھا ۔ انہیں دیکھ کر کبھی جنید ؒ یاد آتے : دلاوری یہ ہے کہ اپنے فرض تو آدمی سارے ہی چکا دے اور اپنے حق کاکبھی مطالبہ نہ کرے ۔
برسوں پہلے کہر یا دھوپ کے کسی موسم میں ، کسی خزاں یا بہار میں ،کسی تاریک یا چاندنی شب وہ دستبردار ہو گئے تھے ۔ زندگی سے نہیں ، اپنے حقوق سے ۔ فرائض یاد رکھے اور ادا کرتے ، کرتے، کرتے اپنے مالک کی ٹھنڈی چھائوں میں چلے گئے ۔ شادماں ، شاداب!
زندگی وہ ایسی جیے ۔ فرشتوں نے جب سوال کیا ہوگا تو شاید حیرت سے فرستادوں کو انہوں نے دیکھاہوگا۔ ان کے چہرے پہ شاید یہ لکھا ہو ۔ کیا مجھ سے پوچھتے ہو کہ میر ارب کون ہے ؟ میرے ماتھے پہ کیا لکھا ہے ؟میرے ماتھے پہ کیا لکھا ہے ؟